ڈاکٹر عبدالقدیر خان۔۔بابر اقبال

ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی رحلت ایک بہت بڑی خبر ہے، مرحوم بہت مشہور انسان تھے، ہر مشہور آدمی کی طرح ان کے مداحین، ناقدین اور مخالفین بھی بہت بڑی تعداد میں ہیں۔
ان کے مداح انہیں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا بانی مانتے ہیں، ان کے خیال میں ڈاکٹر صاحب کو ایک سازش کے تحت ایک ناکردہ جرم کی سزا کے طور پر نظر بند کیا گیا، ان کا آخری دور انتہائی کسمپرسی میں گزرا، وہ اکثر اس تکلیف پر شکایت بھی کرتے نظر آتے۔ ان کے مداحین میں ایسے لوگ بھی ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب کو مور د ِالزام ٹھہرایا جانا اس وقت کی بڑی ضرورت تھی، ایٹمی پروگرام کو بچانے کے ان کو قربانی کا بکرا بنایا جانا ضروری تھا، درپردہ ڈاکٹر صاحب کی سرکاری سرپرستی جاری رہی اور شکوہ شکایات بھی  اس معاملے سے توجہ ہٹانے کی کوشش کا حصہ تھے۔

ڈاکٹر صاحب کے ناقدین یہ کہتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب صرف ایک چہرہ تھے، ان کے خلاف طویل مضامین میں یہ بھی لکھا گیا کہ ایٹمی دھماکوں کے وقت ڈاکٹر صاحب صرف فیتہ کاٹنے والوں میں شامل تھے، ایک عینی شاہد نے لکھا تھا کہ ڈاکٹر صاحب ایٹمی دھماکوں کے وقت باقی لوگوں کی طرح بالکل لاعلم نظر آ رہے تھے، انہیں کسی چیز کا کوئی خاص علم نہیں تھا۔ اسی تناظر میں ڈاکٹر ثمر مبارک کے بارے میں بتایا گیا کہ اصلی کمال ان کا تھا، ڈاکٹر خان کو بے وجہ مشہور کر دیا گیا۔

اس اعتراض میں کوئی خاص دم نہیں ہے، ڈاکٹر قدیر خان ایک انتہائی لائق اور فائق میٹلرجسٹ تھے، ان کی اصل مہارت یورینیم کی افزودگی میں تھی، ایٹم بم میں سب سے اہم چیز اس کا ایندھن ہوتا ہے، جس کو حاصل کرنے لیے یورینیم کو افزودہ کرنے کی ٹیکنالوجی چاہیے تھے،ڈاکٹر صاحب بیرون ملک سے یہ ٹیکنالوجی لائے، اس جگہ میں وضاحت کردوں کہ عام طور پر جب کوئی ٹیکنالوجی ٹرانسفر کی جاتی ہے، تو اس کے بلیو پرنٹ ڈاکیومنٹ، تکنیکی ماہرین کی ٹیم اور بےشمار جدید آلات اس کے ساتھ لائے جاتے ہیں، اس کے باوجود ایک سادہ سی مشین کی ایرکشن اور کمشننگ میں لاتعداد ناکامیاں ہوتی ہیں، پراجیکٹ اسکوپ میں تبدیلیاں کی جاتی ہیں اور اس کے بعد بالآخر جب وہ پراجیکٹ چل پڑتا ہے، اس کی ایفیشینسی آتے آتے وقت لگ جاتا ہے، ڈاکٹر صاحب تن تنہا یہ ٹیکنالوجی پاکستان لائے، ایٹمی پلانٹ کے نقشے، پرزوں کی معلومات اور فراہمی یہ سارے اتنے مشکل کام تھے کہ اس کا کریڈٹ ان کے بڑے بڑے ناقدین بھی نہیں چھین سکے۔

ایک ایٹم بم بنانے کی لیے تقریباً سو فی صد یورینیم 235 کی ضرورت ہوتی ہے، قدرتی طور پائے جانے والے یورینیم 238 میں اس آئسوٹوپ کی مقدار اعشاریہ دو فی صد ہوتی ہے، یورینیم 238 سے 235 کشید کرنا کتنا مشکل کام ہے اس کا اندازہ بھی عام آدمی کے لیے ناممکن ہے ۔ اب یہ سمجھنا کہ اس ایندھن کو بم میں تبدیل کرنے کے سارے مراحل کے بارے میں ڈاکٹر صاحب کو سو فی صد آگاہی ہونی چاہیے تھی یہ ایک غیر منطقی رویہ ہے۔ اس کے بارے میں اس طرح سمجھ لیجیے ایک شخص کاسٹک سے صابن بنانے کا ماہر ہے تو ضروری نہیں کہ  وہ اس چیز کا بھی ماہر ہو کہ مایا صابن کو خشک کس طرح کیا جاتا ہے، اس کی ٹکیہ کس طرح بنائی جاتی ہے، اس میں کون سے اجزا کس مقام پر شامل کرنے چاہییں، اس کی پیکنگ کس طرح کی جاتی ہے، اس کو خراب ہونے سے کس طور بچایا جاتا ہے۔

ایٹمی صلاحیت حاصل کرنے میں سب سے بڑا اور اہم ترین مرحلہ افزودگی کا ہے اس کے بغیر یقینی طور پر ایٹمی صلاحیت حاصل نہیں کی جاسکتی، باقی بم،میزائل اس کا ریموٹ سسٹم ان سب چیزوں کو بنانے کے لیے ماہرین کی ایک فوج ہوتی ہے، مگر ڈاکٹر صاحب کا کام اس پوری فوج پر بھاری تھا۔

مجھے ڈاکٹر صاحب کے قائم کردہ دو اداروں میں جانے کا موقع ملا، میں بلاجھجک کہہ  سکتا ہوں کہ دونوں ادارے بلاشبہ اپنی مثال آپ تھے اور ڈاکٹر صاحب کی جو ہدایات وہاں لوگوں سے سنیں وہ اسٹریٹیجک اور حکمت عملی دونوں تناظر میں ان کی مہارت کا ثبوت تھیں۔

اس کے بعد ڈاکٹر صاحب کے وہ ناقدین آتے ہیں جو ان کے کالمز کے تراشے پیش کرتے ہیں، ان ٹکڑوں میں ڈاکٹر صاحب سیاسی، سماجی، معاشی، سائنسی اور مذہبی چیزوں کے بارے میں انتہائی سادہ فکری کا شکار نظر آتے ہیں، اکثر مسائل کی تشخیص اور ان کے حل اتنے بچکانہ نظر آتے ہیں کہ ہنسی چھوٹ جاتی ہے۔ میری ذاتی رائے میں ایسا ہونے کی وجہ شاید بہت زیادہ تکنیکی قابلیت تھی، وہ اپنے شعبے کے علاوہ مختلف علوم کے بارے میں بہت زیادہ مطالعہ نہیں رکھتے تھے، ان کی معلومات بہت سادہ فکری کا شکار تھیں۔

ایک میٹالرجی کے ماہر سے معیشت، معاشرت، مذہب اور جنرل سائنس کی باتوں کی توقعات رکھنا ایک عبث امر ہے اور اس کے بعد تنقید کرنا اور ٹھٹے اڑانا نامناسب ہے۔

آخری اعتراض بم بنانے پر ہے، بم درحقیقت ہزاروں، لاکھوں جانیں ایک وقت میں لے سکتا ہے، کوئی ذی ہوش اس کے استعمال کے حق میں نہیں ہوتا مگر اس کی دفاعی افادیت سے بھی انکار ممکن نہیں ہے۔ اس تناظر میں اگر ہم ڈاکٹر خان کے کردار کو دیکھیں تو ان کا کام صرف نیوکلیئر ٹیکنالوجی لانا تھا، جس سے ایٹمی بجلی گھر بھی بنائے گئے اور دیگر مقاصد بھی حاصل کیے، ہتھیاروں کی دوڑ ایک اہم مسئلہ ضرور ہے، مگر اس کے قصور وار لوہا اور بارود بنانے والے نہیں ہیں، لوہے اور بارود کو استعمال کرنے والے ہیں، یہ لوگ ملک، ملت اور مذہب ہر چیز کو استعمال کرتے ہیں ان سے اور کیا توقع رکھی جاسکتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آخری تجزیے میں مَیں سمجھتا ہوں کہ ڈاکٹر خان ایک بہت بڑے آدمی تھے، اپنے شعبے میں بہت ماہر تھے، انہوں نے ایک کامیاب اور پُرسکون راستے پر چلنے کے بجائے ایک دشوار اور کٹھن راستے کا انتخاب کیا، جس کے نتیجے میں انہیں قید اور نظر بندی کی صعوبتیں اٹھانا پڑیں مگر وہ ایک کمیاب ٹیکنالوجی پاکستانیوں کو دے گئے، ایسی قومی خدمت گنتی کے چند لوگوں کے نصیب میں آتی ہے،ناقدین کی تنقید ان کی خدمت کے جثے کو کم نہیں کرسکتی۔ اللہ تعالیٰ انہیں سکون والی ابدی زندگی عطا فرمائے۔آمین!

Facebook Comments

بابر اقبال
گمشدہ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply