اخلاقی نفسیات (20) ۔ ساکھ/وہاراامباکر

فرض کر لیجئے کہ جس روز آپ نے پیدا ہونا تھا، اس روز ایک فیصلہ لئے جانا تھا۔ یا تو آپ اپنی پوری زندگی ایک انتہائی دیانتدار اور منصف المزاج شخص رہیں گے لیکن آپ کے آس پاس کے تمام لوگ آپ کو دھوکے باز اور بے ایمان سمجھیں گے۔ یا پھر آپ تمام عمر اپنے فائدے کے لئے جھوٹ اور فراڈ کا سہارا لیں گے لیکن ہر کوئی آپ کو نیکی کا مینار سمجھے گا۔ آپ کس کا انتخاب کریں گے؟

Advertisements
julia rana solicitors london

افلاطون کی سب سے اثرانگیز کتاب “ری پبلک” اس موضوع پر ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ آپ کو پہلے انتخاب کرنا چاہیے۔ نیک ہونا معنی رکھتا ہے نہ کہ نیک لگنا۔
لیکن یہ اتنا آسان اور سیدھا نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر آپ 100 کیڑوں کے ایک گروپ کو ایک مشترک مقصد کے لئے اکٹھا کام کرتے دیکھیں تو یقینی طور پر یہ رشتہ دار ہوں گے۔ لیکن اگر آپ 100 انسانوں کے ایک گروپ کو کوئی تعمیر کرتے یا جنگ میں جاتے دیکھیں تو اس بات کا کم ہی امکان ہے کہ یہ سب ایک بڑے خاندان کا حصہ ہوں۔ انسان اس چیز کے چیمپئن ہیں کہ وہ قرابت داری سے بڑھ کر تعاون کے بڑے سسٹم بنا سکیں۔ رسمی اور غیررسمی طور پر جوابدہی کا اس میں بڑا کردار ہے۔ ہم دوسروں کو ان کے کئے پر جوابدہ ٹھہرانے میں مہارت رکھتے ہیں اور ہم ایسی دنیا میں رہنے میں مہارت رکھتے ہیں جس میں دوسرے ہمیں جوابدہ ٹھہرائیں۔
سوال یہ کہ “جوابدہی” کیا ہے؟ اس شعبے کے ماہر فِل ٹیٹلاک اس کی تعریف دیتے ہیں۔ “اس بات کی واضح توقع کہ ہمیں اپنے یقین، احساس اور اعمال کا جواز دینا پڑے گا”۔ اور ملنے والی جزا و سزا کا انحصار اس پر ہے کہ یہ جواز کتنا اچھا دیا جا سکتا ہے۔ اگر کوئی کسی کو جوابدہ نہ ہو، دھوکہ دینے والوں اور نکموں کو اس کا کوئی بار نہ اٹھانا پڑے، اپنے اعمال کی ذمہ داری نہ لی جائے تو سب کچھ ختم ہو جاتا ہے۔
لوگ جوابدہی کے ان جنجالوں میں پھنسے رہ کر زندگی بسر کرتے ہیں۔ اور یہی انسانی معاشرہ ہے۔ ہم سب بدیہی طور پر سیاستدان ہیں جو اپنے مختلف حلقوں کے آگے اپنی اخلاقی ساکھ کی حفاظت کرتا ہے۔
اور ساکھ سچائی سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ٹیٹلوک کی تحقیق میں لوگوں کو کچھ فیصلے لینے تھے۔ مثال کے طور پر، انہیں ایک قانونی مقدمے کی تفصیلات دی گئیں اور پوچھا گیا کہ کیا ملزم قصوروار ہے یا نہیں۔ کچھ کو کہا گیا کہ انہیں اپنے فیصلے کی وجہ کسی کو بتانا ہو گی۔ باقی کو معلوم تھا کہ ان سے کوئی نہیں پوچھے گا۔ ٹیٹلوک نے اس سے دریافت کیا کہ جب لوگوں کو خود پر چھوڑ دیا جائے تو سستی، غلطی اور اپنی بدیہی سوچ پر انحصار زیادہ ہو جاتا ہے۔ لیکن اگر انہیں پہلے سے علم ہو کہ انہیں اپنے فیصلے کی جوابدہی کرنا ہو گی تو وہ زیادہ سوچ کر اور طریقے سے فیصلہ لیتے ہیں۔پہلے سے نتیجے پر چھلانگ نہیں لگا دیتے اور شواہدات کا معائنہ کرتے ہیں۔
یہ عقل پسند مکتبہ فکر کے لئے اچھی خبر ہو سکتی ہے۔ یعنی ضرورت پڑھنے پر ہم احتیاط سے سوچ سکتے ہیں؟ مکمل طور پر ایسا نہیں۔ ٹیٹلوک نے دریافت کیا کہ احتیاط سے سوچنے کے دو بہت مختلف طریقے ہیں۔ ایک تحقیقی (exploratory) سوچ ہے۔جس میں مختلف متبادل نکتہ نظر کو اہمیت دی جا رہی ہے اور کھلے ذہن سے سوچا جا رہا ہے۔ اس کے مقابلے میں تصدیقی (confirmatory) سوچ ہے۔ یہ اپنے خاص نکتہ نظر کو جواز دینے (rationalization) کی یکطرفہ کوشش ہے۔ جوابدہی پہلی نوعیت کی سوچ کو صرف اس وقت بڑھاتی ہے اگر تین چیزیں موجود ہوں۔
پہلی یہ کہ شخص کو پہلے سے معلوم ہو کہ اسے جوابدہ ہونا پڑے گا۔
دوسرا یہ کہ اسے یہ معلوم نہ ہو کہ سامعین کے اپنے خیالات کیا ہیں۔
اور تیسرا یہ کہ اسے پتا ہو کہ سامعین کے پاس اچھا علم ہے اور ان کی دلچسی ٹھیک ہونے میں ہے۔
جب یہ تینوں چیزیں موجود ہوں تو لوگ سچ پر پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کیونکہ سامعین سچ سننا چاہ رہے ہیں۔ لیکن اگر ایسا نہ ہو (اور یہ ایک عام صورتحال ہوتی ہے) تو پھر جوابدہی کا پریشر صرف تصدیقی سوچ کو بڑھاتا ہے۔ لوگ ٹھیک ہونے کی نہیں، بلکہ ٹھیک نظر آنے کی پرواہ کرتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ٹیٹلوک اس کا خلاصہ ایسے کرتے ہیں کہ شعوری ریزننگ کا بڑا مقصد قائل کرنا ہے، نہ کہ دریافت کرنا۔ ہم اس بات کی بہت خواہش رکھتے ہیں کہ جو بات ہم کہیں، دوسرے اسے مان لیں۔ ہماری اخلاقی سوچ کسی سائنسدان کی طرح نہیں، بلکہ سیاستدان کی طرح ہے جو اپنے حق میں ووٹ لینے کی کوشش میں رہتا ہے۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply