آخری موقع جمہوریت گرانے کا ؟؟

وہ لوگ جو احساس برتری کا شکار ہوتے ہیں اور عام طور پر دوسروں پر چیختے چلاتے برا بھلا کہتے بد زبانی کرتے اور گالی گلوچ کرتے نظر آتے ہیں ان کے اعصاب اس وقت یکایک زمین بوس ہو جاتے ہیں جب وہ اسی لب و لہجے اور اسی انداز میں جوابی حملے کا سامنا کرتے ہیں ۔ بڑھکیں مارنے والوں کو دیکھا گیا ہے کہ ذرا سی جوابی گھرک ان کو نفسیاتی کلینک کا رستہ دکھا جاتی ہے۔جب سے پی ایم ایل این نے عمران خان کو اسی کی زبان میں جواب دینا اور اسی کے حربوں کو لوٹانا شروع کیا ہے خان اپنا طریقہ بھولتا جا رہا ہے۔ پی ایم ایل این نے “Tit for tat” کی یہ جنگی حکمت عملی ان تمام اداروں کے لیے بھی اپنا لی ہے جو خان کی نو بال باونسرز سے ڈر کر چہرے گردن میں اڑسا کر اکڑوں بیٹھ گئے تھے کہ دم بھی نہیں مارتے تھے ,بس بھرتے تھے۔

الیکشن کمیشن ہو یا سپریم کورٹ یا جے آئی ٹی ، نواز لیگ اب اسی حکمت پر عمل پیرا ہے کہ ان تمام اداروں کا جھکاؤ اسی کے حق میں ہو گا جس کے دباؤ کا پلڑا بھاری ہوگا ۔ یہ اور بات ہے کہ نون لیگ لاکھ چاہے لیکن خان کے پلڑے کے بھاری پن کو کبھی نہیں پہنچ سکتی کہ بھاری پن وہیں ہوتا ہے جہاں نادیدہ آسیبی اثر ہوتا ہے ۔ گو کہ یہاں اب آسیب بھی کوئی اتنا زیادہ نادیدہ نہیں رہا ۔ یقین کیجئے یہ وہی آسیب ہے جو ابصار عالم کو دھمکاتا ہے کہ تم کیا ہم تو نواز شریف کو بھی نکال پھینکیں گے۔ جیسے جیسے نواز لیگ خان کی آزمودہ اور کامیاب حکمت عملی کے جواب میں اداروں پر اپنا دباؤ بھی بڑھاتی جا رہی ہے ویسے ویسے عدلیہ اور دیگر ادارے خان کے دباؤ سے جیسے نکلتے جا رہے ہیں اور یہ امید پیدا ہو چلی ہے کہ جمہوریت دشمن اسٹیبلشمنٹ اپنے ارادوں میں شاید کامیاب نہ ہو پائے گی اور سیاسی و جمہوری عمل کا دس سالہ تسلسل بدستورقائم رہ پائے گا۔

لیکن یہ ہرگز نہ سمجھ بیٹھیے کہ اسٹیبلشمنٹ عدلیہ کو با آسانی اپنے دباؤ سے زیادہ دیر تک باہر رہنے دے گی ۔ اسٹیبلشمنٹ نے خود کو دیوار سے اپنے ہاتھوں ہی لگایا ہے اور اب وہ مجبور ہے کہ وہ کر بیٹھے جو دیوار سے لگنے کی صورت میں کیا جاتا ہے ۔ اس کا نتیجہ کیا نکلے گا یہ جاننا اور سمجھنا شاید اسٹیبلشمنٹ کے کانوں کو گراں گزرے کیونکہ کارن کے بنے فلیکس سےلے کر اے سے زیڈ تک پھیلا ہوا رئیل اسٹیٹ پر محیط اسٹیبلشمنٹ کا مہیب معاشی مفاد یہ تقاضہ کرتا ہے کہ سیاسی طاقت کی لگام پر اپنی آہنی گرفت مضبوط رکھے ۔ اسٹیبلشمنٹ کا خدشہ بجا ہے کہ اگر سیاسی عمل مزید پانچ سال نکال گیا تو پھر سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائے گا ، گویا سیاسی عمل نہ ہوا بنجارہ ہو گیا ۔

Advertisements
julia rana solicitors

معروضی حالات کا جبر یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی یہ سازش بھی اپنی پیش رو سازشوں کی طرح دھول چٹائی کی رسم ادا کرے گی۔ اس بار کا معرکہ سازشیوں کیلئے مشکل تر ثابت ہو گا کہ اس بار سازشیوں کو صرف ملک کے چیف ایگزیکٹو کا ہی نہیں بلکہ آرمی چیف کا مورچہ بھی تباہ کرنا ہوگا ۔ جی ہاں آرمی چیف کا بھی ۔ اور یہ اس ملک کی تاریخ میں پہلی بار ہوگا کہ آرمی چیف سازشیوں کی پشت پر نہیں بلکہ مقابل کھڑا ہوگا ۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ اگر جمہوریت پر یہ حملہ بھی سابقہ پانچ برسوں کے دیگر حملوں کی مانند ناکام ہوا تو حالات اس نہج کو جا پہنچیں گے جہاں یہ انہونی بھی سر اٹھائے گی کہ جن پر ہے تکیہ وہی پتے ہوا دینے لگیں گے ۔ سازشیوں کے لیے اس سے بڑا ڈراؤنا خواب شاید کوئی اور نہ ہو کہ آئندہ کسی سازش کے سامنے وزیراعظم اور آرمی چیف کے علاوہ آئی ایس آئی چیف بھی چٹان بن کر کھڑا نظر آئے ۔ تو بھیا ۔ اب نہیں تو کبھی نہیں۔۔ ۔ سازشیوں کو صائب مشورہ ہے کہ اس بار پورا زور لگا دیں اور اس زور کا ہلا بولیں کہ جمہوریت اپنی فٹنگس ، فاؤنڈیشن ، کیلوں ، نٹوں اور بولٹوں کو لے کر بنیادوں سے ہی ایسی اکھڑے کہ پھر کبھی نہ جڑ پائے ۔
پھر نہ کہنا خبر نہ ہوئی !

Facebook Comments

فاروق احمد
کالم نگار ، پبلشر ، صنعتکار

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply