جعلسازی (19)۔۔وہاراامباکر

ایولیوشنری بائیولوجی میں پلٹ ڈاون مین کا ایک عجیب کیس ہے۔ اگر آپ کو کبھی ایسے حضرات سے بحث کی ہو جنہیں سائنس سے اصولی اختلافات ہوں (اگر ایسی عادت ہے تو اس کو ترک کر دینا چاہیے) تو یہ کیس سامنے آیا ہو گا۔ یہ پلٹ ڈاوٗن کا فراڈ ہے۔ یہ ایک ہوشیار جعلسازی تھی جس میں قصوروار کا پتا نہیں لگایا جا سکا۔ اس پر انسانوں اور پرائمیٹ کے درمیان کا مسنگ لنک ہونے کا دعویٰ تھا۔ پلٹ ڈاون جنوب مشرقی برطانیہ کی آبادی ہے جہاں پر اٹھارہ دسمبر 1912 کو اس کی دریافت کا اعلان کیا گیا تھا۔ بعد میں یہ جعلی نکلا۔ سائنسدانوں کو اس کا پتا لگنے میں تقریباً چالیس سال لگے۔
کئی سائنسدان اس سے شرمندہ ہوتے ہیں کہ ان کے پیشے میں یہ کام کیا گیا لیکن اس کو بائیولوجی کی نصابی کتابوں میں نمایاں جگہ ملنی چاہیے۔ یہ بہت زبردست طریقے سے دکھاتا ہے کہ سائنس کیسے کام کرتی ہے۔
سب سے پہلے تو یہ کہ پلٹ ڈاون سے قبل قدیم انسانی فوسل ریکارڈ بہت کم دستیاب تھا۔ 1891 میں جاوا مین کی اور 1907 میں ہائیڈلبرگ مین کی دریافت ہوئی تھی۔ لیکن یہ دونوں بہت قدیم نہیں تھے۔ جب یہ زیادہ قدیم باقیات ملیں تو سائنسی دنیا اس کے لئے تیار تھی۔ اس شعبے میں کام کرنے والوں کو ایسی دریافت کی توقع تھی۔ اس بات کا جعلساز کو بھی پتا ہو گا اور اس نے فائدہ اٹھایا۔
دو الگ جگہوں سے دریافتیں تھیں۔ کھوپڑی کے ٹکڑے، نچلا جبڑا اور پتھر کے اوزار۔ اگرچہ کئی لوگوں کو شروع سے ہی شک تھا، اور کئی پیلینٹولوجسٹ نے سوال اٹھائے۔ قبولیت کی ایک اور وجہ برطانیہ کا قومی فخر بھی ہو گا۔ برٹش میوزیم میں کام کرنے والے سائنسدان اس پر خوش ہوں گے کہ ان کا وطن وہ جگہ ہے جہاں انسانیت کا سویرا ہوا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس دریافت کی اصلیت پر شکوک کا اظہار کرنے والے محققین ولفریڈ کلارک، کینتھ اوکلے اور جو وائنر تھے۔ انہوں نے باقیات پر کڑے کیمیائی ٹیسٹ کئے جنہوں نے دکھایا کہ باقیات گھڑی گئی ہیں اور ان کو قدیم دکھانے کے لئے کیمیائی تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ یہ انسانیت کا سویرا نہیں تھا۔ ایک عام انسانی کھوپڑی کو ایک اورنگاٹون کے چھوٹے جبڑے کے ساتھ رکھا گیا تھا۔ اگرچہ یہ ٹھیک معلوم نہیں ہو سکا کہ ایسا کس نے کیا لیکن شک اس کو دریافت کرنے والے نوآموز پیلینٹولوجسٹ چارلس ڈوسن پر کیا جاتا ہے (جن کے نام پر اس کا نام رکھا گیا تھا)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ ہمیں سائنس کے کام کرنے کے بارے میں کیا کچھ بتاتا ہے؟ منفی سائیڈ پر یہ کہ سائنس کا انحصار اس مفروضے پر ہے کہ اس کو کرنے والے اپنا کام دیانتداری سے کریں گے۔ پئیر ریویو کا عمل منطق اور طریقے کی غلطیاں سامنے لانے کے لئے ڈیزائن ہوا ہے، فراڈ پکڑنے کے لئے نہیں۔ جدید اکیڈیمیا میں “پبلش کرو یا پیشہ چھوڑ دو” کا پریشر فراڈ پر مائل کر سکتا ہے۔ انا، مالیاتی آسودگی، شہرت کی طلب کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ پلٹ ڈاون اور دوسرے فراڈ دکھاتے ہیں کہ اگر کوئی کھیل کو اصولوں کے مطابق نہیں کھیل رہا تو پھر مسئلہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن دوسری طرف، سائنس انسانی سرگرمیوں میں بے مثل ہے۔ یہ دریافت کی کھیل ہے جو ایک طاقتور حریف سے کھیلی جا رہی ہے جو اس میں نیوٹرل ہے۔ یہ حریف خود نیچر ہے۔ اور نیچر کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا یا بہت دیر تک نہیں کیا جا سکتا۔
اس دریافت پر جس وجہ سے شکوک ابھرنا شروع ہوئے، وہ یہ کہ پیلینٹولوجسٹ جیسے جیسے انسانی ارتقائی باقیات دریافت کرتے جا رہے تھے، ویسے ویسے پلٹ ڈاون کی دریافت اس معمے سے باہر نظر آنے لگی تھی۔ جس وجہ سے اس کو جلد قبول کر لیا گیا تھا، وہ “مسنگ لنک” کے ملنے کی توقع تھی جس سے یہ مطابقت رکھتا تھا۔ چار دہائیاں بعد یہ اس معمے میں فٹ نہیں ہوتا تھا، جو تصویر ہمیں زمین سے مل رہی تھی۔ یہ بے ربط تھا۔
چالیس سال کی تاخیر بہت وقت لگتا ہے۔ لیکن انسانی علم کے طویل سفر میں یہ پلک جھپکنے کا وقت ہے۔
سب سے اہم بات یہ کہ اس فراڈ کا پتا لگانے والے سائنسدان ہی تھے نہ کہ سائنس مخالف لوگ۔ یہ سائنس کی خود کو اصلاح کرنے کی صلاحیت کا ایک ثبوت ہے اور اس بات کا بھی کہ سائنس مخالفت خود میں صرف ایک ڈاکٹرائن ہے جس میں دریافت کی کسی بھی قسم کی طاقت صفر ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ وجہ ہے کہ اس کو بائیولوجی کی کتاب میں نمایاں جگہ ملنی چاہیے۔ یہ واقعہ ہمارے علم کے سفر میں شرمندگی نہیں، فخر کی مثال ہے۔ اور یہ ایک مثال ہے کہ سائنس ایک مسلسل سیدھی لکیر میں سچ کی تلاش میں ترقی کا نام نہیں۔ ایک تکلیف دہ اور تھکا دینے والا سفر ہے۔ کبھی بند موڑ، کہیں یو ٹرن۔ ایک ایک انچ آگے بڑھتے ہوئے فطرت کے بارے میں بہتر اور مضبوط تر علم کی تلاش۔ یہ سائنس کا سفر ہے۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply