آگ اُگلے پھرے ہے انگارے
آشیاں پل میں جل گیا پیارے
آج کا دن بہت گراں گزرا
آج، جھرمٹ سے مِٹ گئے تارے
اس طرح کر ،نہ قتلِ عام مِرا
تو نے اصحاب سب، میرے مارے
آسمانوں سے اک صدا آئی
پانیوں کے بدل گئے دھارے
عقلِ کل خود پہ ناز کرتے ہیں
ان کو چھوڑو،کہ یہ ہیں بیچارے
ایک عابد ہی بچ گیا آخر
ہو گئے مصلحین بنجارے
ہم سے کہہ دے، یہ حالِ دل اپنا
روپ دیکھیں گے ہم تیرے سارے
حافظِ گُرگِ شب کی محفل میں
اہلِ حلّ و عقد ہیں ہرکارے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں