تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے(2،آخری حصّہ)۔۔شاہین کمال

پولیس مجھے تھانے لے جانے پر مُصر اور پرنسپل کا اصرار کہ  معاملہ یہیں  حل ہو جائے۔ وہیں آفس میں مجھے پتہ چلا کہ رشنا قادری کے چچا تھانہ سنٹرل کے ایس پی ہیں۔ جب تھانے دار نے ایس۔ پی صاحب کی کال پرنسپل صاحب کو دی تو پرنسپل صاحب بھی جھاگ کی طرح بیٹھ گئے اور دیگر اساتذہ جو اب تک گھیرا لگائے تماشے سے لطف اندوز ہو رہے تھے، آفس سے کھسکنا شروع ہو گئے۔ مجھے جب پولیس وین میں بٹھانے لگی تو باہر میڈیا کا ہجوم تھا اور کسی طالب علم نے پیپسی کی کھلی بوتل مجھ پر اچھال دی اور میں تر بتر ہو گیا۔ رات گئے تک مجھے تھانے میں بیٹھا کر رکھا گیا ۔۔۔پر ایف آئی  آر درج نہیں کی گئی تھی، مگر مجھے جینے جوگا بھی کب چھوڑا گیا تھا۔

میں مجرموں کی طرح رات گئے گھر لوٹا۔ نمرہ نے مجھ سے کوئی سوال جواب نہیں کیا، اس پر  گمبھیر خاموشی طاری تھی اور میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ میں اپنی صفائی کیسے اور کیوں دوں۔ سچ تو یہ ہے کہ میرا دماغ ماؤف تھا۔

کالج میں انکوائری کمیٹی جو تین افراد پر مشتمل تھی اس کیس کی تفتیش کر رہی تھی۔ ادھر میرے حالات بگڑتے جا رہے تھے اور مجھ سے اچھوتوں جیسا سلوک روا تھا اور میرا گلی بازار سے گزرنا محال۔ لوگ مجھے دیکھتے ہی کانا پھوسی کرنے لگتے اور کچھ تو باقاعدہ آوازیں کستے۔ مجھ سے تمام کلاسس لے لی گئی تھیں۔ میرا لیپ ٹاپ، اور کالج لاکر کمیٹی کی تحویل میں تھا۔ انکوائری کے سلسلے میں جب بھی کالج جانا ہوتا وہ وقت مجھ پر سقراط  سے زیادہ سخت ہوتا کہ طالبات کی آنکھوں میں اپنے لیے تمسخر دیکھنا مرنے جیسا ہی ہے۔ وقت رینگ رینگ کر گزر رہا تھا اور میرے اپنے آہستہ آہستہ میرا ساتھ چھوڑتے جا رہے تھے۔ وہ دن میرے لیے قیامت کا دن تھا جب میں نے اپنے باپ کی طرف سے اخبار میں اپنا عاق نامہ پڑھا۔ اس سے بھی بڑا ظلم ابا نے یہ کیا کہ امی پر مجھ سے بات کرنے پر پابندی لگا دی۔ اس بھری دنیا میں واحد امی تھیں جنہیں میری بےگناہی کا یقین تھا۔

میں نے نمرہ کو کئی  دفعہ معاملہ وضاحت سے سمجھانے کی کوشش کی مگر وہ بس کسی بت کی طرح سنتی اور مجھے ایسا محسوس ہوتا گویا میں کسی دیوار سے مخاطب ہوں۔ ایک دن میں انکوائری بھگتا کر گھر پہنچا تو خالی گھر بھائیں بھائیں کر رہا تھا اور ایک کاغذ ڈائنگ ٹیبل پر گلاس کے نیچے دبا چلتے پنکھے کی ہوا سے ہلکے ہلکے پھڑپھڑا رہا تھا۔ کانپتے ہاتھوں سے میں نے اسے اٹھایا۔ القاب سے مستثنیٰ مختصر سی تحریر تھی کہ” ابا کی طبیعت خراب ہو گئی ہے، بچوں کو لیکر جا رہی ہوں ۔ لوٹ کے آؤں گی یا نہیں میں بھی نہیں جانتی۔”

میں تنہائی سے شکستہ اور نڈھال تھا اور اب مجھے انکوائری سے بھی کوئی دلچسپی نہیں رہی تھی۔ میرا تمام وقت گھر کی چار دیواری میں مقید سگریٹ پھونکتے گزرتا ۔
گھر میں ہیں بس چھ ہی لوگ
چارد دیواریں چھت اور میں

میں انتہائی ضروری سامان خوردونوش لینے کے لیے بمشکل تمام گھر سے نکلتا کہ لوگوں کی نظریں مجھے اڈھیڑے دیتی تھیں اور میں مجرم نہ ہوتے ہوئے بھی سزا کاٹ رہا تھا۔ میڈیا کے پاس اب صرف ایک ہی موضوع تھا ،چاہے وہ بے ہنگم مارننگ شوز ہوں یا رات کے گھٹیا ٹاک شوز، ہر جگہ بس ایک ہی راگ الاپا جا رہا تھا۔ میں کہ اس وقت دنیا کا تنہا ترین شخص تھا۔ دو مہینے کی صبر آزما مدت کے بعد انکوائری کمیٹی کا فیصلہ میرے حق میں آ گیا، مجھے کالج واپس بلا لیا گیا مگر تب تک میرے لیے زمین اور آسمان بدل چکے تھے اور میں بجائے ایک سوشل انسان کے ایلین بن چکا تھا۔ میری بےگناہی پر یک سطری خبر کسی اخبار کے آخری صفحے پر بھی نہیں چھپی اور نہ ہی کسی ٹاک شو میں میری برات کا تذکرہ تھا۔ میں نے انکوائری کمیٹی سے اپنی بےگناہی کا تحریری ثبوت مانگا جو مجھے نہیں دیا گیا۔ میں نے نمرہ کو کال کی مگر اس نے میرا نمبر بلاک کر دیا۔ میں نے دو مہینوں سے اپنے بچوں کو نہیں دیکھا تھا اور اب میرے پاس جینے کا کوئی جواز نہیں تھا۔ میں ٹوٹ چکا تھا اور شدید ڈپریشن کا شکار بھی سو مجھے موت ہی واحد حل نظر آئی۔ جس اذیت میں، میں مبتلا تھا اس سے مجھے مکت صرف موت ہی کر سکتی تھی۔ رات شاید ایک بجے کے قریب میں نے ڈرائنگ روم کے پنکھے میں نمرہ کا دوپٹہ ڈال کر پھندا اپنے گلے میں ڈالا اور دیوار پر آویزاں بچوں کی تصویر پر نظر جمائے جمائے کرسی کو اپنے پیروں سے ٹھوکر لگانے ہی والا تھا کہ میں نے پھندا اپنے گلے سے نکال دیا۔
میں یہ کیا کرنے چلا تھا ؟ کیوں کیوں؟
ہانیہ اور حارث اس کرب اور احساس زیاں کے ساتھ کیوں کر زندہ رہیں گے کہ ان کا باپ ایک مجرم تھا۔ میں ہانیہ کے لیے کلنک کا ٹیکہ نہیں بنوں گا، آخر میرے بچے تا عمر محروم و شرمسار کیوں رہیں؟ میں غلط نہیں تو میں سزا کیوں جھیلوں؟
مجھے تو ویسے ہی تہی دست کر دیا گیا ہے۔ مجھے اپنے وقار اور بقا کے لیے اور اپنے بچوں کے بےخوف مستقبل کے لیے لڑنا ہو گا اور میں لڑوں گا۔ اس معاشرے اور اس کے سڑتے گلتے سسٹم سے میں آخری سانس تک لڑوں گا۔

اس فیصلے کے ساتھ ہی میں نے اپنے اندر ایک توانائی محسوس کی اور عرصے بعد میری بھوک چمک اٹھی۔ میں تقریباً خالی ڈھنڈر پڑے فریزر سے ایک فروزن ڈبہ برآمد کرنے میں کامیاب ہو گیا اور اب وہ شیشے کا ڈبہ مائیکرو ویو اون کی حدت سے تیزی سے جمود سے نمود کی طرف گامزن ہے۔ مجھے ہمیشہ سے باورچی خانے کی بتی بجھا کر کے مائیکرو ویو اون کی گھومتی پلیٹ دیکھنا اچھا لگتا ہے، ابھی میں اس نظارے سے خط اٹھا ہی رہا تھا کہ دروازہ زور زور سے بجنے لگا ، ساتھ ہی ساتھ کوئی مجھے پکار رہا تھا، یوسف صاحب، یوسف صاحب ، یہ آواز مجھے کچھ جانی پہچانی لگی۔ دفع کرو مجھے کیا کوئی بھی ہو، دنیا نے کب میری سنی جو میں کسی کی پروا کروں، لیکن جب دروازہ بغیر کسی وقفے کے مسلسل ہی پیٹا جاتا رہا تو مجھے دروازہ کھولتے ہی بنی۔ دروازے پہ میرا پیون مقبول تھا۔

اس وقت مقبول !  خیر تو ہے۔ میں نے اسے اندر آنے کا راستہ دیتے ہوئے کہا۔
جیسے ہی مقبول نے لاؤنج میں پیر رکھا اور اس کی نظر ڈرائنگ روم میں پنکھے سے جھولتے پھندے پر پڑی، وہ گویا کرنٹ کھا کر پلٹا اور نہیں سر نہیں کہتا ہوا مجھ سے لپٹ گیا۔
ارے نہیں بھئی اب بالکل بھی نہیں۔ ہاں آدھا گھنٹہ پہلے میں یہ ضرور کرنے والا تھا مگر اب نہیں۔
آؤ بیٹھو۔ میں نے کافی ٹیبل پر رکھی کرسی پر چڑھ کر پنکھے سے ڈوپٹہ کھولتے ہوئے اسے بیٹھنے کا  کہا ۔ وہ ابھی تک سراسیمہ تھا۔
کچھ کھاؤ گے؟
میں نے ٹیبل پر گرم شدہ نہاری اور ڈبل روٹی رکھتے ہوئے پلٹ اس کی طرف بڑھائی مگر اس نے پلیٹ لوٹاتے ہوئے انکار میں سر ہلایا۔ دراصل وہ ابھی تک شاک سے باہر نہیں آیا تھا سو میں نے اسے اس کے حال پہ چھوڑا اور ڈٹ کر کھانا کھایا۔ جانے آج کتنے دنوں بعد کھانے میں ذائقہ اور طبیعت نے سیری محسوس کی تھی۔ کھانے کے بعد چائے کی شدید طلب محسوس ہوئی سو دو کپ چائے بنائی اور ایک کپ اس کے آگے رکھتے ہوئے پوچھا کہ اتنی رات گئے کیوں آئے ہو؟
اس کے چہرے پر خجالت ہویدا تھی ،اس نے کچھ جھجھکتے اور کچھ ہکلاتے ہوئے کہا کہ “سر میں آپ سے معافی مانگنے آیا ہوں۔ مجھے پہلی بار ہی سچ بول دینا چاہیے تھا مگر میں ڈر گیا تھا اس لیے میں نے کہہ  دیا کہ میں نے کچھ نہیں دیکھا اور میں کچھ نہیں جانتا۔ سر میں جانتا ہوں کہ آپ بےگناہ ثابت ہو چکے ہیں اور اب میرے اس اقرار کی کوئی اہمیت نہیں مگر میں واقعی بہت شرمندہ ہوں اور ہاتھ جوڑ کر آپ سے معافی مانگتا ہوں۔ ”

میں ایک ٹک مقبول کو دیکھتا رہا اور مجھے اس پر شدید غصہ آرہا تھا۔ میں اپنی بےگناہی کی گواہی کے لیے ایک ایک شخص کے پاس گیا تھا مگر سب نے جیسے ہونٹ سی لیے تھے۔ میڈیا نے میرے خلاف اس قدر پروپیگنڈا کر دیا تھا کہ کوئی میری حمایت میں بولنے کی جرات ہی نہیں کر سکتا تھا اور میرا جی چاہتا تھا کہ چیخ چیخ کر اپنے کولیگ، دوستوں اور جاننے والوں سے پوچھوں

بولتے کیوں نہیں مرے حق میں
آبلے پڑ گئے زبان میں کیا

وہ مجھ پر بےکسی کا ایسا سخت وقت تھا کہ نہ دن ڈھلتا تھا اور نہ ہی دل ٹھہرتا تھا۔ مجھ سے تو معاشرے نے جینے کا حق تک چھین لیا تھا اور میں بے جرم  کی سزا کاٹ رہا تھا۔ باوجود بےگناہی ثابت ہو جانے کے معاشرہ مجھے قبول نہیں کر رہا تھا۔ مجھ پر بد کرداری کی مہر لگ چکی تھی اور یہ داغ میرے لاکھ جتن کے باوجود بھی دھلتا ہی نہ تھا۔ شدید مایوسی کے غلبے تلے آج میں مرنے پر آمادہ تھا بلکہ اپنے گلے میں پھندا ڈال چکا تھا کہ آخری لمحوں میں ہانیہ کی تصویر دیکھتے ہوئے میں نے سوچا کہ میں اپنے بچوں کو کس بات کی سزا دے رہا ہوں؟ میری موت تو ان کے لیے لامتناہی سوالات چھوڑ جائے گی اور شاید اس بات کا ثبوت بھی کہ ان کا باپ واقعی گناہ گار تھا۔ میرے بچے تمام عمر سر جھکا کر جئیں   گے اور کل کہیں وہ بھی تنگ آ کر میرا راستہ نہ اپنا لیں اور میں اس خیال سے ہی لرز گیا۔

نہیں مجھے لڑنا ہو گا، اپنے لیے، اپنے رسوا کئے گئے نام اور وقار کے لیے، اپنے بچوں کے لیے اور ان تمام اساتذہ کے لیے جو پڑھانا جانتے ہیں اور طالب علموں کو ان کا جائز حق دیتے ہیں۔ وہ اساتذہ جو کسی کی دھونس میں نہیں آتے جو نہ جھکتے ہیں اور نہ ہی بکتے ہیں۔

جانتے ہو مقبول لوگ خودکشی بالکل بے آسرا ہو کر کرتے ہیں۔ جب وہ دنیا کے ہر فرد سے مایوس ہو چکے ہوتے ہیں تو ان لاچاروں کو خودکشی ہی میں نجات دکھتی ہے۔ مایوسی اور کرب کی انتہا دیکھو کہ درد سے رہائی انہیں اپنی زندگی ختم کرنے کی اذیت میں نظر آتی ہے۔ ایسے میں اگر ایک آدمی، فقط ایک آدمی ان کی پیٹھ پر ہاتھ رکھ دے اور انہیں یہ یقین دلا دے کہ میں تمہارے ساتھ ہوں تو کہانی کا انجام یکسر بدل جائے، سوچو دنیا کی اربوں کی آبادی میں صرف ایک شخص چاہیے ہوتا ہے، صرف ایک مخلص ہمنوا ،ایک انسان جو یقین اور دلاسہ دے اور پھوڑے بنے دل پر اعتبار کا مرہم رکھ دے۔ صرف ایک فرد واحد کے ہمدردانہ عمل سے زندگی کا دھارا بدل جائے اور بےکسی کی موت مر مرتی ہوئی زندگی پھر سے بحال ہو جائے۔

ہم لوگ کیا اتنے تہی دست ہیں مقبول کہ نا امیدوں کو امید کی ایک کرن یا یقین کا ایک جگنو بھی ان کی ہتھیلی پر نہ دھر سکیں؟ جانے انسانیت کہاں روپوش ہو گئی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مجھے اب کیا کرنا ہے میں اچھی طرح جانتا ہوں
کہ میری روشن صبح تو طلوع ہو گئی  ہے۔ سب سے پہلے مجھے اس بے انصافی کے خلاف وفاقی محتسب کو درخواست لکھنی ہے، پھر میڈیا کے خلاف ہتک عزت کا دعویٰ دائر کرنا ہے کیونکہ مجھے اپنا نام اور وقار واپس چاہیے پورے احترام و اکرام کے ساتھ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply