ادب نامہ    ( صفحہ نمبر 64 )

گنگا میّا۔۔بھیرو پرسادگپت(7)۔۔ہندی سے ترجمہ :عامر صدیقی

’’ کوئی بات نہیں۔ گنگا میا کی کرپا سے سب اچھا ہی کٹ رہا ہے۔ تم سب خیال رکھنا۔ زمیں داروں کے پنجوں میں کسان نہ پھنسیں، کوششیں کرتے رہنا۔ پھر تو آکر میں دیکھ ہی لوں گا۔ اور بتاؤ←  مزید پڑھیے

ذرا ہنس لیجیے۔۔ڈاکٹر فرزانہ کوکب/تبصرہ:پروفیسر سخاوت حسین

یہ کتاب ڈاکٹر فرزانہ کوکب کی طنز و مزاح پر ایک شاہکار تصنیف ہے۔ادب میں طنز و مزاح کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔بعض ناقدین ادب نے تو یہاں تک کہا ہے کہ کس زبان کا ادب ترقی یافتہ ہے یہ←  مزید پڑھیے

خونی لہریں،محبت اور طالبان۔۔سیّد محمد زاہد

خونی لہریں،محبت اور طالبان۔۔سیّد محمد زاہد/رات کی دیوی زلفیں کھولے بے حس پتھروں اور تاحدِنظر بکھرے سنگریزوں کو گود میں سمیٹے سو رہی تھی۔ دور کی پہاڑی چوٹیاں دھندلی دھندلی دکھائی دیتی تھیں۔ دیوی پُرسکون تھی۔ دیوی کا سکون مطلق ہر چیز سے چھو کر پوری کائنات پر سکتہ طاری کیے ہوئے تھا۔←  مزید پڑھیے

سفر نامہ:عراق اشک بار ہیں ہم/صدرسٹی میں عراقی فوج کے کرنل سے ملاقات(قسط20)۔۔۔سلمیٰ اعوان

کمرے میں بِچھے گہرے سُرخ خوش رنگ پھولوں سے سجے قالین پر وہ دونوں ایک دوسرے کے قریب قریب بیٹھے تھے۔ڈھلتی عمروں میں بس تھوڑا ہی فرق ہوگا۔ دونوں اپنی عمروں کے حسابوں بڑے خوبصورت تھے۔سُرخ و سفید چہروں پر←  مزید پڑھیے

ستیہ پال آنند کی نظم،”مجاز مرسل کی حد کہاں ہے” نظم اور اس کا تجزیہ ناصر عباس نیر کے قلم سے (۱۹۰۵)

مجاز مرسل کی حد کہاں ہے ہزاروں، لاکھوں ہی سیڑھیاں ہیں نشیب میں سب سے نچلی سیڑھی پہ میں کھڑا ہوں تھکا ہوا، بے امان، درماندہ، بے سہارا مگر ارادے میں سر بکف، ولولے میں پا مرد، دPھن کا پکا←  مزید پڑھیے

رکشہ ڈرائیور۔۔افتخار بلوچ

رکشہ ڈرائیور۔۔افتخار بلوچ/اُسے اپنے کپڑوں پر ایک خاص قسم کا فخر محسوس ہورہا تھا۔ تھری پیس سوٹ کی گواہی تو آج اس کا کوئی دشمن بھی دے دیتا۔ رنگوں کے تناسب نے سر چڑھ کر اس کی صلاحیت کو داد دی تھی۔ اُسے اپنے دفتر کے دروازے پر لگی ہوئی تختی نے خاص طور پر متوجہ کیا تھا۔←  مزید پڑھیے

گنگا میّا۔۔بھیرو پرسادگپت(5)۔۔ہندی سے ترجمہ :عامر صدیقی

بستی کی ہوا اسے اچھی نہ لگتی، جیسے ہرپل اسکا دم گھٹتا رہتا۔ جنگلی پھول کی طرح بستی میں مرجھایا مرجھایا سا رہتا۔ تمام وقت اس میدان، اس صاف ہوا، اس نرم مٹی، اس مفت دھوپ اور اسکی محبت کیلئے←  مزید پڑھیے

ہرکارہ۔۔دیپک بدکی

تپتی ہوئی سرمئی سڑک پر وہ اپنی سائیکل گھسیٹے جا رہا تھا مگر ٹانگیں ساتھ نہیں دے رہی تھیں۔ سارا بدن جلتا ہوا سا محسوس ہو رہا تھا۔ سانس بھی پھول چکی تھی۔ پھر بھی وہ منزل تک پہنچنے کی←  مزید پڑھیے

نسل کشی کے موضوع پر اُردو کا ایک کامیاب ناول “کھوئے ہوئے صفحات”۔۔ڈاکٹر خالد سہیل

میں ڈاکٹر بلنداقبال کو’جو ادیب بھی ہیں’طبیب بھی ہیں اور بہت سوں کے حبیب بھی ہیں’ اردو کا ایک کامیاب ناول لکھنے کی مبارکباد پیش کرنا چاہتا ہوں۔ ڈیڑھ سال کی کرونا وبا کی پابندیوں اور جکڑبندیوں کے بعد جب←  مزید پڑھیے

لما تقالون ما لا تفعلون۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

اِّن اللہ جمیل و یَحِب ُّ الجَمال جو سوال میرے ذہن میں اکثر اٹھتا  ہے وہ یہ ہے کہ کیا وحدت الوجود اور وحدت الشہود قطبینی مجموعہ الضدین ہیں؟ ’’تذکرہ غوثیہ‘‘ میں وجود اور شہود کے مابین فرق کو اس←  مزید پڑھیے

گنگا میّا۔۔بھیرو پرسادگپت(4)۔۔ہندی سے ترجمہ :عامر صدیقی

دو تین سال کے اندر ہی مٹرو کی کٹیا بڑی ہو گئی۔ دودھ کیلئے جمناپاری بھینس اور ایک جوڑی بیل دروازے پر جھومنے لگے۔ مٹرو کا حوصلہ بڑھا۔ اس نے کھیتوں میں پھیلاؤ  اور بھی بڑھا دیا اور اپنے ایک←  مزید پڑھیے

لہو کے گرداب۔۔دیپک بدکی

کئی گھنٹوں سے وہ اپنے ہم سفر کا انتظار کر رہی تھی مگر وہ واپس آیا نہ کہیں دکھائی دیا۔ ہر لمحہ اس کے لیے امتحان بنتا جا رہا تھا۔ وہ سوچنے لگی۔ ’’ یہ ریل گاڑی جب منزل مقصود←  مزید پڑھیے

لایموت: ایک خود نوشت۔۔راشد شاز/مبصر:محمد ارشد

پروفیسر راشد  شاز کا شمار  ان روایت شکن مصنفین میں ہوتا ہے جو مشہور و مقبول ہیں  اور  متنازع و مطعون بھی۔ انہیں عام ڈگر پر چلنا قطعاً پسند نہیں۔ اپنی خود نوشت لایموت لکھتے ہوئے بھی شاز صاحب نے←  مزید پڑھیے

میری کتاب ’’کتھا چار جنموں کی‘‘ سے ایک اقتباس اختر الایمان کے بارے میں ۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

اختر الایمان تب باندرہ میں کین روڈ پر بینڈ اسٹینڈ بلڈنگ میں رہتے تھے۔ ہم اس بلڈنگ کے نمبر ۵۵ کے اپارٹمنٹ میں پہنچے، تو چڈھا صاحب کو دیکھ کر خوش ہوئے۔ مجھ سے ہاتھ ملایا، اور جب میں نے←  مزید پڑھیے

اندھیر نگری۔۔دیپک بدکی

ایک زمانہ تھا کہ مطبوعہ تحریر کو اکثر مستند مانا جاتا تھا۔ جہاں کہیں کسی اخبار، رسالے یا کتاب میں کوئی بات چَھپ جاتی اس پر فوراً یقین کیا جاتا۔ تشکیک کی بہت کم گنجائش ہوتی تھی۔ جہالت اور ضعیف←  مزید پڑھیے

گنگا میّا۔۔بھیرو پرسادگپت(3)۔۔ہندی سے ترجمہ :عامر صدیقی

چار پِتا جی اب سچ مچ بوڑھے ہو گئے۔ دونوں بیٹے کیا ان سے بچھڑ گئے، ان کے دونوں ہاتھ ہی ٹوٹ گئے! دل کے سارے رس کو درد کی آگ نے جلا دیا۔ کوئی جوش و خروش، امید نہیں←  مزید پڑھیے

ستیہ پال آنند کی ایک نظم اور عملی تنقید کے اصولوں پر مبنی اس کا تجزیہ(تیسرا زخم)۔۔ڈاکٹر عائشہ الجدید

نظم باہم ضم ہوتی ہوئی تین movements کے امتزاج سے ترتیب پاتی ہے۔ بہاؤ کی پہلی لہر ڈرامائی انداز میں نظم کے واحد متکلم کے شانوں پر بیٹھے ہوئے دو فرشتوں کا انتباہ ہے جو اسے (یعنی متکلم کو) آگے بڑھنے اور کوئی قدم اُٹھانے سے پہلے سنبھلنے اور عفو و رحمت کے فلسفے کو سمجھنے کی تلقین کر رہے ہیں←  مزید پڑھیے

ڈاک بابو۔۔۔دیپک بدکی

انگریزوں کے قاعدے قانون آج بھی ہمارے ملک میں رائج ہیں۔ دیوانی قانون، فوجداری قانون،  تعزیراتِ ہند۔! ہندستان ہی کیا پورے برِصغیر کی یہی حالت ہے۔ انگریزوں نے ہمارے نظام کو اتنا مسخ کر دیا کہ اب یوں لگتا ہے←  مزید پڑھیے

شبدوں میں رس گھولنے والا….. صفیہ حیات

شبدوں میں رس گھولنے والا محبت ،دھنک ،رنگ اور خوشبو اوڑھ کر مسرتوں کی گلبانگ راہ پہ چلتا ہوا شبدوں میں رس گھولنے والا وہ اک شخص جو مقدر کا ستارہ ہے سنہرا جھلمل سایہ شبنمی پھولوں میں بھیگا سفر←  مزید پڑھیے

کہاں پہ ہوں گی۔۔ڈاکٹر صابرہ شاہین

یہ گنگناتی ہوا کے نغمے وہ شاخ-جامن کی نرم شاخوں پہ دف بجاتے ہوئے پتاور وہ سامنے ادھ کھلے گلابوں کی سرخیوں پر، یوں چمچماتے ، سفید موتی حسین سبزے کے نرم سینے میں جھولتے چھوٹے، چھوٹے پھولوں کی مستیاں←  مزید پڑھیے