• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • میری کتاب ’’کتھا چار جنموں کی‘‘ سے ایک اقتباس اختر الایمان کے بارے میں ۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

میری کتاب ’’کتھا چار جنموں کی‘‘ سے ایک اقتباس اختر الایمان کے بارے میں ۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

اختر الایمان تب باندرہ میں کین روڈ پر بینڈ اسٹینڈ بلڈنگ میں رہتے تھے۔ ہم اس بلڈنگ کے نمبر ۵۵ کے اپارٹمنٹ میں پہنچے، تو چڈھا صاحب کو دیکھ کر خوش ہوئے۔ مجھ سے ہاتھ ملایا، اور جب میں نے اپنا نام لے کر اپنا تعارف کروایا تو پھرآگے آ کر مجھ سے گلے ملے ، اور کہا، ’’تو آج ایک بہت پڑھے لکھے اردو شاعر سے بھی ملاقات ہو گئی، ورنہ اردو میں کون پڑھا لکھا ہے۔ سب ہی تو نیم خواندہ ہیں! خدا آپ کو برکت  دے اور آپ اردو کے قارئین میں شاعری کے تئیں اک سنجیدہ رویہ پیدا کر سکیں، ورنہ یہاں تو وہی کیفیت ہے، یعنی ‘‘ میں نے لقمہ دیا، ’’جی ہاں، جو پہلے تھی، سو اب بھی ہے!‘‘  ۔ بولے، ’’درست کہا، بھائی، ہماری شاعری کا ہماری زندگی کے مختلف پہلوؤ ں سے کوئی دور کا واسطہ بھی نہیں ہے۔ جو کچھ بھی ہے، ابھی تک حسن و عشق کا نعرہ ہے۔‘‘  میں نے کہا، ’’جی درست فرمایا، لیکن آپ نے تو اس سے بچنے کی کوشش بھی کی ہے اور مجھ جیسے جونیئر لوگوں کی رہنمائی بھی کی ہے۔‘‘

میں نے محسوس کیا کہ ملتے ہی ہم لوگ بات چیت میں جُٹ گئے ہیں۔ چڈھا صاحب بغلیں جھانکنے لگے اور پھر اجازت لے کررخصت ہو گئے توہم لوگ ٹانگیں پسار کر بیٹھ گئے۔ چائے کے دو تین دور ہوئے، پھر کھانا ہوا، پھر چائے، اور پھر چائے ،اور اس دوران میں باتیں ہوتی رہیں۔

میں ان کے ہاں تین دن تک ٹھہرا۔ نیوی کا ایک اہلکار میرے ہم زلف کے گھر سے میرا ’’سفری سامان‘‘ (برش، تولیہ، شیو کا سامان، بدلنے کا ایک جوڑا) پہنچا گیا تو میں بے فکر ہو گیا۔ باتوں کی تان شروع بھی اردو شاعری کے اس کردار کے بارے میں ہوتی تھی، جسے ہم انگریزی میں entertainment کہتے ہیں ( اردو میں تفریح جیسے وقت کئی اور کئی الفاظ اکٹھے بھی کر لیں تو یہ مطلب ظاہر نہیں ہوتا)۔ اور ٹوٹتی بھی اسی پر تھی۔ لُبِ لباب یہ تھا کہ ترقی پسند تحریک کے اعلانیہ انقلاب کے باوجود ہمارا شعری پیرایۂ اظہار ابھی تک اس ڈربے میں بند ہے جسے وہ خود ہی جاگیرداری سماج کی یا بورژوا طبقے کی زبان کہتے ہیں۔ زندگی میں تو، چاہے وہ تسلیم کریں یا نہیں، پہلے ہی ایک بہت بڑی تبدیلی آ چکی ہے۔ حویلیاں اور جھونپڑیاں نہیں ہیں، یا تو متوسط طبقے کے اس جیسے گھر ہیں، جس میں ہم بیٹھے ہوئے ہیں، یا کھولیاں ہیں۔ گاؤں کے لوگوں کا شہروں میں منتقل ہونا جاری ہے۔ نقل و حرکت کے ذرائع بدل چکے ہیں،لیکن ہم اب تک شاعری کو محفل کی آراستگی کے لیے منگوائے گئے گلدستوں سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔شعری لوازمات جو ایک بار خود رو پودوں کی طرح فارسی سے آ گئے تو اردو کی زمین میں ایسے جڑ پکڑ گئے کہ اب آپ اور میں ہزار جتن کریں، یہ جانے کے نہیں۔ استعارے وہی ہیں، تلمیحات وہی ہیں، تشبیحات وہی ہیں، حالانکہ خود فارسی والے گذشتہ صدیوں میں ان کو ترک کر چکے ہیں۔

بات کرتے کرتے اٹھے اور لکھنے کی میز تک گئے، ایک نوٹ بک اٹھا لائے، بولے، ’’پچھلے دنوں میں نے اپنی آنے والی کتاب کا حرف آغاز لکھنے کے لیے کچھ نوٹس بنائے تھے۔ سنو گے؟‘‘ میرے اثبات میں سر ہلانے کے بعد پڑھنے لگے۔ جو کچھ میں نے سنا، اس کا خلاصہ یہ تھا کہ اردو شاعری کے مزاج میں علمی سنجیدگی تو درکنار ، عام زندگی کے سنجیدہ مسئلوں کے اظہار کے بارے میں سوچنے اور نظم لکھنے یا غزل کہنے کا کوئی سنجیدہ وطیرہ دیکھنے میں نہیں آیا۔یہ وطیرہ اپنی سوچ میں بھلے ہی انقلابی ہو، اظہار میں رومانی ہے۔ بڑے سے بڑے شاعر کا کارنامہ اس حد تک پہنچ کر ختم ہو جاتا ہے کہ جو غم ہو، اسے غمِ جاناں بنا دے۔ ’’بات چاہے جہاں سے نکلے، اس کی جوانی تک پہنچ جائے!‘‘ محض دل لگی ہے، یہ شاعری کہاں ہے؟’’یار لوگ بیٹھتے ہیں، اشعار میں معشوق کے قصے سنتے ہیں او رچلے جاتے ہیں، نہ کوئی سنجیدہ بات سننے آتے ہیں ، نہ کچھ گرہ میں باندھ کر لے جاتے ہیں۔ ‘‘

میں نے کہا، ’’بھائی جان، اس میں قصور ان بڑے شعرا کا بھی ہے۔‘‘ اور ساتھ میں لقمہ دیا۔ ’’فیض کا نام نہیں لوں گا، جو اپنے پیرایۂ اظہار کو غیر رومانی تو کیا، کھردرا تو کیا، ریشم کی طرح نرم، ملائم اور رواں رکھتے ہیں۔‘‘

کہنے لگے، ’’آپ درست فرماتے ہیں، فیض کو یہ بات منہ پر کہنے کی ہمت کسی میں نہیں ہے کہ وہ اس اصلیت کو سمجھیں کہ اعلیٰ  اور ارفع جذبوں کے لیے ضروری نہیں کہ الفاظ بھی اسی قماش کے ہوں۔ آپ بات تو کمزور طبقے کی کر رہے ہیں۔کراہناتو غریب کے زخموں پر چاہتے ہیں، اور تکلیف دہ، گھناؤنے، مبتذل الفاظ سے گریز کرتے ہیں۔ یہ ایمانداری نہیں ہے، روایت کو قائم رکھنے کی سازش ہے، جس میں ہم سب شریک ہیں۔‘‘

دوبارہ اپنی ڈائری سے پڑھنے لگے، ’’زبان کا مسئلہ تو سادہ سا صرف یہ ہے کہ اس کو عوام کے پیچھے چلنا ہے، عوام کو زبان کے پیچھے نہیں چلنا۔زندگی کے جسم پر کوئی لباس، اس سے متعلق کوئی تشریح، کوئی تاویل، کوئی توضیح منطبق نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ اسے جو لباس دیا جاتا ہے، کچھ دن گھِس پٹ کر ختم ہو جاتا ہے اور پھر ایک نئے لباس، نئی تشریح، نئے الفاظ اور نئے اظہار کی ضرورت پیش آتی ہے۔ ‘‘

خدا جانے میں ان سے فیض کے بارے میں کیا کہلوانا چاہتا تھا، یا وہ بار بار کہتے کہتے رک رہے تھے، اور میں انہیں آہستہ آہستہ وہ بات کہنے کی ہمت دلا رہا تھا، لیکن جب میں نے یہ کہا کہ ’’مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ‘‘ یا اس جیسے غنائی نغمے فیض نے انقلاب کو رومان کی آنکھ سے دیکھنے کے لیے تو لکھے ہی ہیں،لیکن ان سے عوام کی کیا خدمت ہو سکتی ہے ۔۔۔‘‘ تو جیسے ایک دم بادل کا سینہ شق ہو گیا اور اختر الایمان صاحب موسلا دھار بارش سے برسنے لگے۔

کہنے لگے، میں بزدل تو نہیں لیکن سب کے سامنے یہ بات کہنے سے پہلو تہی کرتا ہوں کہ فیض صاحب کو تاریخ نے ایک سنہری موقع عطا کیا تھا اور وہ ایک جست میں اردو شاعری کو پچاس برس آگے لے جا سکتے تھے، ان میں شاعرانہ خلاقیت کا تو کوئی اندازہ ہی نہیں ہے لیکن بجائے اس کے کہ وہ اس کو بروئے کار لاتے، انہوں نے حسن و عشق کے کھنڈرا ت میں بسی ہوئی ایک دنیا کی پرانی فصیلوں کے اندر ہی ایک دیوار کھڑی کرنی شروع کر دی۔ ضرورت تھی کہ کلچر، سماجیت، مارکسزم اور برِ صغیر کے حالات کو اس پیمانے سے ماپا جاتا جسے ہم عقلی استدراک کہتے ہیں۔ لیکن انہوں نے جذبات کا دامن کبھی ترک نہیں کیا۔ خود ہی تو ایک طرف کہتے ہیں کہ دنیا بھر کے شاعروں کے پورے بھائی چارے نے مل کر اس خلیج کو پاٹنا ہے جو برسوں سے محنت کش طبقے اور مراعات پرور بورژوائی طبقے کے درمیان ہے، تو کیا اس کے لیے انہیں شرفا اور امراء کی زبان استعمال کرناہو گی؟ غالبؔ سے ہی کچھ سبق لے لیتے جس نے جذبات کو ادراک کی تحویل میں رکھ کر شعر کہے۔‘‘

تھک گئے، تو کچھ دیر کے لیے خاموش ہو گئے۔ وہ بولتے جاتے تھے اور میں ایک طالبعلم کی طرح اپنی ایجاد کی ہوئی اردو شارٹ ہینڈ میں نوٹس لیے جاتا تھا۔ کہنے لگے،’’آپ مجھے’ کوٹ‘ کر سکتے ہیں،کوئی غلط بات تو نہیں کہہ رہا!‘‘ گویا اپنے آپ کو تسلی دے رہے ہوں کہ جو کچھ انہوں نے کہا ہے، وہ اس سے منکر نہیں ہوں گے۔ پھر بولے، ’’کیا انہیں یہ علم نہیں تھا کہ صرف ایک سو برس پہلے تک ، یعنی غالب کے زمانے کے بعد بھی کئی دہائیوں تک، شاعری رؤسا، نوابوں کے درباروں یا ذاتی محفلوں کی لونڈی تھی، ان کی انحطاط پذیر خواہشوں کا ایسے ہی ذریعہ تھی، جیسے مرغوں کی لڑائی یا پہلوانوں کا دنگل، یا رنڈیوں کا مجرا ۔۔۔تو فرق کیا رہ گیا اگر فیض اپنی انقلابی شاعری اسی دقیانوسی زبان کے پیش پا افتادہ استعاروں کی مدد سے ان محفلوں میں پڑھیں جن میں صرف کیمبرج اور آکسفورڈ سے پڑھ کر لوٹے ہوئے، گوری میموں کے خاوند ہوں یا ان کے جنے ہوئے شریک ہوں! کسی عوامی جلسے کا بھی ذکر کریں جس میں فیض نے اپنی نظمیں اس انداز سے پڑھی ہوں جیسے جلیانوالا باغ کے خونی سانحے کے زمانے میں عوامی شاعر پڑھتے تھے؟ ‘‘

اختر بھائی جان کا لہجہ تلخ ہو گیا، بولے، ’’میری عمر ابھی کچی تھی لیکن میں نے 1942 ء کی ہندوستان چھوڑ دو تحریک کے دنوں میں خود ایک اردو شاعر بھگت رام باغیؔ کو سنا ہے، جی چاہتا تھا، قبلہ جوش کی نظم ’’کمپنی کے سوداگروں سے‘‘ کی طرح اس کو بھی زبانی یاد کر لیا جائے۔لیکن فیضؔ تو ہونٹوں کے پھولوں کی چاہت کے بغیر دار کی خشک ٹہنی پر وارا جانا بھی پسند نہیں کرتے!‘‘

ماحول میں کچھ تناؤ سا در آیا تھا۔ اس لیے میں اٹھا۔ ان کے لکھنے کے میز پر ہی جو الیکٹرک ہیٹر پڑا تھا، اسے آن کر کے اس پر کیتلی چڑھائی، لیکن انہوں نے اشارے سے منع کر دیا۔ خود اٹھ کر الماری سے وہسکی کی آدھی بھری ہوئی بوتل نکال لائے۔ چائے کے پیالوں کو دھو کر انہی میں انڈیلی اور مجھ سے کہا، ’’ایک مدت کے بعد سچ بولنے کا یارا ہوا ہے۔ تم بھی کیا کہو گے، ایک ترقی پسند شاعر کے ہاں گئے اور شراب تک نہیں پی ۔۔۔‘‘ پھر خود ہی فوراً کہنے لگے، ’’۔لیکن میں کہاں کا ترقی پسند ہوں؟ ‘‘

کچھ دیر کے بعد پھر بات چیت شروع ہوئی۔ انہوں نے اپنی ایک نظم کا ذکر کیا جو اُنہی دنوں لکھی تھی۔جب میں نے اصرار کیا تو کہنے لگے، میں سناؤں گا بھی اور یہ بھی چاہوں گا، کہ آپ اسے نقل کر ساتھ لے جائیں اور جہاں چاہے، چھپوائیں۔ یہ نظم لکھتے ہوئے میرے سامنے فیض ہی تھے۔ لیکن اس میں فیض صاحب کا نام کہیں نہیں آیا اور نہ ہی میں چاہتا ہوں کہ آئے۔اس کا عنوان ’’نراج‘‘ ہے، فارسی زدہ اردو میں ’’طوائف الملوکی‘‘ہو گا، لیکن’’ نراج ‘‘ تو سو فیصد لوگ سمجھیں گے،’’طوائف الملوکی‘‘ شاید ایک فیصد بھی نہیں۔
خوب چلاؤ، گلا پھاڑو سب
پنبہ در گوش ہے زیست
ہم بندھے بیٹھے ہیں خود اپنی ہی تاویلوں میں
زور سے بولے تو ناموسِ وفا جائے گی
لب ہلائے تو ہر اک کہنہ روایت، رشتے
سالہا سال کی تاریخ کے تابندہ، سنہری اوراق
یوں بکھر جائیں گے اک پُرزہ ملے گا نہ کہیں
خواجہ نے ایسی بہت باتیں اُڑا رکھی ہیں
ہم مگر خواجہ نہیں ڈر ہمیں کس بات کا ہو
ذرّہ جب ٹوٹا تھا ، تخلیق ہوئی تھی یہ زمیں
پنبہ در گوش ہے زیست
سانس کی نالی کو اک دھونکنی سمجھو، چیخو
اتنا چلّاؤ کہ اک شور سے بھر جائے فضا
گونج الفاظ کی کانوں میں دھواں سا بن جائے
اک دُھنی روئی سی بن جائیں عقائد سارے
فلسفے، مذہب و اخلاق، سیاست، ہر چیز
ایسے گُتھ جائیں ہر اک اپنی حقیقت کھو دے
ایسا اک شور بپا کر دو کوئی بات بھی واضح نہ رہے
خود کو کم مایہ نہ سمجھو، اٹھو، توڑو یہ سکوت
پھر نئے دور کا آغاز ہو تاریکی سے!
’’یعنی، واقعی۔۔‘‘ میں کچھ کہتے کہتے رک گیا۔ لیکن اختر میرے منشا کو فوراً سمجھ گئے۔ بولے، ’’ہاں، واقعی۔سُن لیتے تو ناراض تو نہ ہوتے بس یہی کہتے کہ اختر ، تم بلند بانگ شاعر ہو، میرا لہجہ دھیما ہے۔۔لیکن تب میں بھی ترکی بہ ترکی جواب دیتا، لہجے کو مارو گولی، میں اس شعری اسلوب یعنیpoetic parlance کی بات کر رہا ہوں، جو آپ نے استعاروں، تشبہیوں، اشاروں اور کنائیوں میں برتی ہے، اور جو اشرافیہ اہل ذوق کی لغت سے اخذ کی گئی ہے۔‘‘
(ڈائری کا اندراج: بمبئی ، نومبر 1967ء)

اختر الایمان صاحب نے سید سجادظہیر کے ایک خط کا ذکر کیا، جس کے بارے میں مجھے کوئی علم نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ فیض صاحب کی منٹگمری جیل میں سکونت کے دوران ان کے جیل کے ایک ساتھی سید سجاد ظہیر کو ان کا تازہ کلام بھجواتے تھے، جو ان کی وساطت سے اخبارات اور رسائل میں چھپ جاتا تھا۔ ایک نکتے کی وضاحت کرتے ہوئے ان کو جواب میں سجاد ظہیر نے 21-2-1954 کو اپنے خط میں لکھا (یہ خط بھی کچھ رسائل میں شائع ہوا)۔ ’’تم نے اپنے گذشتہ خط میں اس کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اب انہیں (فیض کو)ہمت کر کے ایک جست لگانی چاہیے۔ تاکہ ان کی شاعری میں خوشبوؤں، گل بیزیوں کے علاوہ خلقِ خدا کے اس مبارک پسینہ اور خون کی حرارت کی آمیزش بھی ہو جس سے فی الحقیقت زندگی بنتی، بدلتی اور سنورتی ہے۔‘‘ سجاد ظہیر نے اس خیال سے اتفاق کرتے ہوئے یہ لکھا ۔’’میں ان کو ایسا کرنے کے لیے دھّکا نہیں دینا چاہتا۔ان امید افزا اعلامات کے سبب سے جو حالیہ نظموں اور غزلوں میں خود ہی نظر آ رہی ہیں، جو کہ صحیح سمت کا پتہ دے رہی ہیں، میرے خیال میں وہ خود اس نکتہ کو سمجھتے ہیں۔‘‘

اختر الایمان صاحب سے میرے دوستانہ مراسم ان کی وفات تک، یعنی میرے ان کے دولت کدے پر قیام کے بعد اکتیس برسوں تک رہے۔ پہلے خط و کتابت سے اور پھر فون سے ان کے ساتھ رابطہ رہا، لیکن ان کے ساتھ مل کر بیٹھنے کا موقع نہ مل سکا۔ میرے پاؤں میں ایک چکر تھا اور اگر میں باہر کے ملکوں کے لیے فلائٹ لیتا بھی تو دہلی سے ہی۔ پھر جب باہر جا کر بس گیا تو آہستہ آہستہ ان سے فون پر بات چیت میں بھی کچھ خلل پڑنے لگا، تو بھی اس دوران میں انہوں نے میرے تیسرے شعری مجموعہ ’’لہو بولتا ہے‘‘ کا پیش لفظ لکھا ۔ میں نے بھی السٹریٹڈ ویکلی آف انڈیا کے لیے اپنے کالم میں ان پر ایک مضمون لکھا، جس کے لیے انہوں نے خود مجھ سے فرمائش کی تھی، عینیؔ آپا پر ہوتا تو شاید رد کر بھی دیتیں، لیکن ویکلی کے مدیر خشونت سنگھ میری کسی لکھت کو رد نہیں کرتے تھے۔ جو پیش لفظ انہوں نے ’’لہو بولتا ہے‘‘ میں لکھا، اس کے چند اقتباسات یہ ہیں:

’’کچھ برس پہلے میں نے اپنی ایک کتاب کے پیش لفظ میں یہ لکھا تھا کہ اردو شاعری کے ساتھ ایک بڑی مشکل یہ پیش آئی ہے کہ یہ ابھی تک غزل کی فضا سے نہیں نکلی۔ اور اس سلسلے میں اپنی دو نظموں ’’کارنامہ‘‘ اور ’’خمیر‘‘ کا ذکر کیا تھا، جن کے بارے میں میرے غزل گو دوستوں کا خیال تھا کہ ان کی زبان میں وہ رچاؤ اور غنایت نہیں ہے جس کا ہونا وہ شاعری کے لیے ضروری سمجھتے ہیں۔

اس وقت بھی مجھے اس حقیقت کا احساس تھا اور ستیہ پال آنند کے بارے میں یہ سطریں لکھتے ہوئے آج بھی ہے کہ ہم میں سے بیشتر نقاد صفت شاعر جب نظم کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہیں تو غزل کے لوازمات کو پیمانہ بنا لیتے ہیں۔ مجھے یہ بھی شکایت ہے کہ غزل اور بے غزلی کی بحث میں پڑنا ادب اور بے ادبی کی بحث میں پڑنے کے مترادف سمجھ لیا گیا ہے۔ میں تو صلح کُل انسان ہوں اس لیے میں نے اس بحث کو طول دینا مناسب نہیں سمجھا۔

ستیہ پال آنند مرد میدان ہیں اور چونکہ اپنی بات سیدھے اور چبھتے ہوئے الفاظ میں کہتے ہیں اس لیے اس عتاب کے حقدار بھی ہیں، جو ان پر نازل ہو رہا ہے۔ستیہ پال آنند کی نظمیں مجھے پسند ہیں کیونکہ یہ اسی خمیر سے اٹھی ہیں، جو میری نظموں کا خاصہ بھی ہے۔ ان کے مجموعوں میں اس بچے کے بارے میں نظمیں بھی ہیں جو اختر الایمان یا ستیہ پال آنند کے اندر چھپا ہوا ہے۔ اور بار بار اپنے توتلے لفظوں کی باز گشت میں شاعر سے مخاطب ہوتا ہے، جو سفر زادہ ہے۔ جو بالک بانی بولتا ہے اور آج تک تارے اور موتی اپنی مٹھی میں دبائے پھرتا ہے۔ وہ نظمیں بھی ہیں جس میں خود احتسابی شاعر کا اعمال نامہ بنتی ہے، اور پھر خود نوشت سرگذشت میں تبدیل ہوتی چلی جاتی ہے۔ وہ نظمیں بھی ہیں جن میں کتھا سامگری ہے اورمہاتما بدھ اپنے چیلے بھکشو آنند کے ساتھ بیٹھے گفتگو کرتے ہوئے ذات اور کائنات کی گرہیں کھولتے چلے جاتے ہیں۔ وہ نظمیں بھی ہیں جن میں مشرقی اور مغربی فلسفیوں اور اہلِ دانش کے اقوال کو شاعری کے فریم میں جڑ کرتصویر کی طرح آویزاں کیا گیا ہے۔ وہ نظمیں بھی ہیں، جو وقتی، ذاتی اور تاثراتی نوعیت کی ہوتے ہوئے بھی اس سے اوپر اُٹھ کر پوری زندگی کا احاطہ کرتی ہیں۔ اور وہ نظمیں بھی ہیں جن میں زبان و بیان کا کھردرا پن کانٹوں کی سی چبھن اور لذّت دیتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ان نظموں کے بارے میں میرے رائے وہی ہے جو میرا ؔ جی نے میری ’’نا رس‘‘ کی نظموں کے بارے میں دی تھی، یعنی ان کو دیکھنے کے بعد ایک چلتی پھرتی بلکہ بعض اوقات بولتی ہوئی حیات ذہنی کا نقشہ ابھر آتا ہے۔لیکن زبان و بیان کی سطح پر ان سب نظموں میں ایک قدر مشترک واضح طور پر اُبھر کر سامنے آتی ہے۔ یہ نظمیں اس غزل کی لفظیات، استعارات اور زبان سے چپک جانے والی مٹھاس سے یکسر پاک ہیں، جس کی تفسیر یہ دی گئی تھی، ’’بازی کردن محبوب و حکایت کردن و حکایت کردن از جوانی و حدیثِ محبت و عشقِ ِ زناں‘‘ اور جو آج تک نہ صرف مشاعروں میں پڑھی جاتی ہے، بلکہ شعرا اسے اپنے مجموعوں کی زینت بناتے ہیں اور نقاد حضرات اس کے بارے میں مضامین لکھتے ہیں۔‘‘
[صفحہ ۲۰۹ تا ۲۱۵]

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply