• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • ستیہ پال آنند کی ایک نظم اور عملی تنقید کے اصولوں پر مبنی اس کا تجزیہ(تیسرا زخم)۔۔ڈاکٹر عائشہ الجدید

ستیہ پال آنند کی ایک نظم اور عملی تنقید کے اصولوں پر مبنی اس کا تجزیہ(تیسرا زخم)۔۔ڈاکٹر عائشہ الجدید

  Culpa Mia کے عنوان سے یہ نظم پہلے انگریزی میں لکھی گئی

سنبھل جاؤ، ٹھہرو
رُکو،عفو و رحمت کو سمجھو
کہ بخشش کا در تو ہمیشہ کھلا ہے
مرے دونوں شانوں پہ بیٹھے ہوئے دو فرشتے
مجھے میرے خالق کی رحمت کے بارے میں سمجھا رہے ہیں
مگر میرا پندار
جو کل تلک خود پرستی تھا
اب خود پرستی نہیں ہے
انابت ہے
خود سے بغاوت ہے …
اب آسماں کی طرف مٹھّیاں بھینچ کر
دیکھنے کی سبھی جرآتیں مر چکی ہیں
بہت لڑ چکا ہوں
خدا سے
فرشتوں سے
تقدیر کے کاتبوں سے
مری منطقی باز خواہی کے سارے علم سر نگوں ہیں
کوئی العطش کی صدا تک نہیں ہے!
میں نظریں اٹھاتا ہوں
اشکوں سے لبریز ساغر اسے پیش کر کرتا ہوں
جو میرا خالق ہے
کہتا ہوں، ’’کلپا میا! …
میں غلط راہ پر تھا
میں بخشش نہیں چاہتا، میرے مالک!
سزا چاہتا ہوں
یہ سینہ کھلا ہے مرا
تیسرا زخم کھانے کو بے تاب ہے!مرے مولا!‘‘
مری التجا میں کوئی باغیانہ ارادہ تو شاید نہیں ہے
مگر میرا لہجہ یقیناًتوانا ہے، دھیما نہیں ہے
’’سزا میر ا حق ہے،
مجھے تیسرازخم بھی اب عطا ہو !!‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر عائشہ الجدید
دعائیہ احتجاج
(نظم کے انگریزی متن پر یہ مضمون بھی انگریزی میں Protest and Prayerکے زیر عنوان لکھا گیا)
سٹیفن سپینڈر Stephen Spender نے جدید اور قدیم شاعروں کی ایک قدر تفریق یہ بھی بیان کی ہے کہ جدید شاعر کے پاس وہ الوحی انا نہیں ہے جو اسے عیسائی راہبوں ، پیروں اور صاحب فکر اہلِ دین کے برابر کھڑا کر سکے۔ اس کے قول کے مطابق جدید شاعر اپنی حساسیت کو اس حد تک محدود کر دیتا ہے کہ وہ کبھی Purgatory کا مصنف دانتےؔ یا Paradise Lost کا مصنف ملٹنؔ نہیں بن پاتا۔
سٹیفن سپینڈر اردو نہیں جانتا تھا اور اقبال کی شہرت اس کی اپنی زندگی میں برِ صغیر کے اندر بھی صرف اردو دان طبقے تک ہی محدود تھی۔ ورنہ وہ اقبال کے فلسفہ ٔ خودی کے حوالے سے شاید اپنی رائے میں کچھ ترمیم و تخفیف کرنے پر مجبور ہو جاتا۔
ستیہ پال آنند کی نظم ’’تیسرا زخم‘‘ جہاں God۔ Reaffirmationکی سطح پر ایک دعائیہ نظم ہے وہاں نظم کے واحد متکلم کا بخشش پانے سے انکار کرنا اور سزا کا طلبگار ہونا (’’سزا میرا حق ہے!‘‘) اسے دعائیہ احتجاج کی ایک مختلف اور بلند و بالا سطح پر لا کھڑا کرتا ہے۔ شاید اقبال کی نظم ’’شکوہ‘‘ کو بھی اس صنف کی نظم تسلیم کیا جائے۔ ایک مختلف تناظر میں ستیہ پال آنند نے خود لکھا ہے کہ ’’شکوہ‘‘ ایک عظیم نظم ہے ، اس کے مقابلے میں ’’جوابِ شکوہ‘‘ اقبال جیسے ’معتبرشاعر‘ کے دل کی گہرائی سے نکلی ہوئی نظم قطعاً نہیں ہے، بلکہ after-thought rationalization کے قماش کی کمزور اور ’نا معتبر‘ کوشش ہے جو ’’شکوہ‘‘ کی اہمیت کو بھی کم کر دیتی ہے۔‘‘

نظم باہم ضم ہوتی ہوئی تین movements کے امتزاج سے ترتیب پاتی ہے۔ بہاؤ کی پہلی لہر ڈرامائی انداز میں نظم کے واحد متکلم کے شانوں پر بیٹھے ہوئے دو فرشتوں کا انتباہ ہے جو اسے (یعنی متکلم کو) آگے بڑھنے اور کوئی قدم اُٹھانے سے پہلے سنبھلنے اور عفو و رحمت کے فلسفے کو سمجھنے کی تلقین کر رہے ہیں۔ رُکو، ٹھہر جاؤ، سنبھل جاؤ، یہ الفاظ نصیحت اور عبرت کا درس تو دیتے ہیں ہیں، سر زنش اور فہمائش کے حامل بھی ہیں۔ ان ڈرامائی انداز کے ،یعنی فرشتوں کے متنبہ کرنے والے الفاظ سے نظم کی شروعات جہاں ایک طرح کی مخلصانہ اور بزرگانہ نصیحت ہے وہاں عفو و رحمت کو سمجھنے اور بخشش کے در کے ہمیشہ وا ہونے (یا بصورت دیگر بند ہو جانے) کی تنزیہہ بھی ہے۔ خصوصاً یہ الفاظ جب ان فرشتوں کی زبان سے کہلوائے گئے ہوں جو قبر میں اتارے جانے کے بعد پہلے دنوں میں متوفی کے اعمال کا لیکھا جوکھا کرتے ہیں۔ اس لیے ان میں تحکم کا لہجہ نمایاں ہے۔

تحکم کے اس لہجے کے فوراً بعد نظم کی دوسری لہر اس کے بہاؤ کے رُخ کو کچھ دیر کے لیے ایک مختلف سمت الراس کی طرف موڑتی ہے۔ یہ نظم کے واحد متکلم کا ’’اقبالی بیان‘‘ ہے۔ فرشتوں کے الفاظ کے نہائیت اثر گیر انتخاب اور ان کی ادائیگی کے تجدیدی اور تحکمانہ آہنگ نے پہلے ہی اسے ایک ملزم کی طرح کٹہرے میں کھڑا کر دیا ہے، لیکن اس کا اقبالی بیان جن الفاظ سے شروع ہوتا ہے ان میں عجز و انکسار نہیں ہے۔ گردن جھکا کر آنکھیں فرش پر گاڑے ہوئے اپنا جرم قبول کرنے اور گناہ بخشوانے کا اعادہ نہیں ظاہر کرتا۔ صرف اپنی شکست کا اعتراف و اعلان ہے۔ اپنی پسپائی اور ہزیمت کی قبولیت کا اقرار ہے۔ میدان جنگ میں سینہ سپر دو برابر کی ٹکر والی فوجوں کے مابین گھمسان کا رن پڑنے کے بعد ہاری ہوئی فوج کے سپہ سالار کا ایسا surrender ہے، جو با عزت پیش کیا جاتا ہے اور بہ وقار قبول کیا جاتا ہے۔

نظم کی اس موومنٹ کی ابتدائی سطریں وضاحت اور قبولیت کے ایک خوبصورت احوال نامے کو شروع کرتی ہیں، جو confession بھی ہے اور اس کا logical reason یعنی منطقی جواز بھی ہے۔
مگر میرا پندار
جو کل تلک خود پرستی تھا
اب خود پرستی نہیں ہے
بغاوت ہے!
اب آسماں کی طرف مٹھّیاں بھینچ کر
دیکھنے کی سبھی جراتیں مر چکی ہیں
بہت لڑ چکا ہوں
خدا سے
فرشتوں سے
تقدیر کے کاتبوں سے!

قبولیت میں بھی رمزیت اور ’’ردِ قبولیت‘‘ کا عنصر بہت خوبصورتی سے ملفوف کر کے رکھ دیا گیا ہے۔ انابت کا اقرار کرنے کے فوراً بعد ’’خود سے بغاوت ہے‘‘ کا اعلامیہ اس بات کا مظہر ہے کہ میری انا تو اب بھی قائم و دائم ہے، لڑنے کے لیے تیار ہے، لیکن میں ،نہ چاہتے ہوئے بھی، خود سے بغاوت کر رہا ہوں۔ یعنی میرا ’’مَیں‘‘ اب بھی کلیتاً انابت کے لیے تیار نہیں ہے، لیکن اگر خودسے بغاوت کرنے کو انابت سمجھ لیا جائے، تو اے فرشتو، میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میں اپنی’’ توبہ منکر انا‘‘ سے ’’توبہ‘‘ کی طرف لوٹ رہا ہوں۔ اس لیے مجھے تنبیہہ یا فہمائش کرنا غیر ضروری ہے۔
’’فرشتوں‘‘ یا ’’تقدیر کے کاتبوں‘‘ جیسے الفاظ کی کلاسیکی بازگشت سے قطع نظر ۔۔
پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پرناحق
آدمی کوئی ہمار ا دم ِ تحریر بھی تھا ۔؟

ان سطروں کی طرف توجہ ضروری ہے جو جنگ سے پہلے ، جنگ کے دوران اور جنگ کے بعد کے منظر نامے کو ترتیب دیتی ہیں۔ جنگ کا بگل بجنے سے پہلے یا لڑائی کے دوران تو نظم کے واحد متکلم کا پندار یقیناً خود پرستی تھا۔ منطقی سطح پر استدلال کی روشنی میں یہ ’’باز خواہی تھا جسے (‘‘ Bureaucracy )یعنی انتظامیہ کی اصطلاح میں Calling for explanation کہا جاتا ہے،لیکن ملزم کا جواب  یہ ہے کہ اس کی خود نگاہی ہر حالت میں Self-oriented تھی، لیکن اب جبکہ شکست ایک مسلمہ امر ہے ، اسے یہ احساس ہے کہ ہارا ہوا سپہ سالار یا تو رحم کی بھیک مانگ سکتا ہے یا پھر روبرو کھڑا ہو کر عزت سے اپنے ہتھیار ڈال کر سزا کا طالب ہو سکتا ہے۔

نظم کے اس حصے میں میدانِ جنگ کا استعارہ ہے۔ زمانۂ قدیم کی دو افواج کے درمیان ہوئے معرکے کے مختلف مناظر graphic detail کے ساتھ ابھرتے ہیں۔
مری منطقی باز خواہی کے سارے عمل سر نگوں ہیں
مری خود نگاہی کے لشکر زمیں پر پڑے ہیں
کوئی العطش کی صدا تک نہیں ہے!

شکست کے اس اظہار میں بھی ایک تمکنت ہے، وجاہت ہے، جلال ہے، جیسے سپ سالار کہہ رہا ہو۔ میرے سپاہیوں کے قدم نہیں اُکھڑے، میرے جانباز میدان جنگ میں پسپا نہیں ہوئے۔ وہ بہادری سے لڑے ہیں اور کھیت رہے ہیں۔ یہاں تک کہ جاں کنی کی حالت میں پڑے ہوئے بھی کوئی پانی نہیں مانگتا، مبادا ’العطش‘ کی صدا کو بزدلی سمجھ لیا جائے۔
’’میں نظریں اٹھاتا ہوں‘‘ اس سطر کو دوسری موومنٹ کی اس سطر کے تناظر میں پڑھا جائے تو مزہ دو چند ہو جاتا ہے ، ’’اب آسماں کی طرف مٹھّیاں بھینچ کر ؍ دیکھنے کی سبھی جراتیں مر چکی ہیں‘‘۔ یعنی نظریں اب پھر اٹھی ہیں لیکن اشکوں سے لبریز ساغر (اشکبار آنکھیں) پیش کرنے کے لیے ہی، مٹھیاں بھینچ کر دیکھنے کے لیے نہیں۔

ٹوٹا ہو ا شخص، اپنی شکست سے پریشان، بے حال، بد حال، ہزیمت خوردہ شخص، آخر کار اپنی ہار مان لیتا ہے، کہتا ہے، ’’کلپا میا! میری غلطی تھی۔ میں ہی شاید غلط راہ پر تھا۔ مجھے بخشش نہیں چاہیے، سزا چاہیے۔ غلطی۔۔ Culpa ؟بنظر غو ر دیکھیں تو ’’کلپا میا‘‘ میں بھی ایک رمز پوشیدہ ہے۔ لاطینی میں ادا کی گئی ہردعا ان الفاظ سے شروع کی جاتی ہے، یعنی انسان ہر’ کردہ ‘ یا ’ نا کردہ‘ گناہ کا اعتراف’ کردہ گناہ‘ کے طور پر کرتا ہے۔ یہ غلطی کیا تھی؟ کیا یہ غلطی خدا کے خلاف جہاد کی تھی؟ یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ ’’اکبر‘‘ ہے، مقدور بھر لڑتے رہنے کی تھی؟

کون ہے یہ شخص؟ کیا یہ ملٹن کی جنتِ گم شدہ Paradise Lost کا ابلیس ہے؟ جو دوزخ میں جھونکے جانے کے بعد بھی اپنی شکست تسلیم نہیں کرتا اور کہتا ہے کہ مقابلہ تو میں نے خوب کیا۔خوب گھمسان کا رن پڑا! میرے قدم بے شک اُکھڑے لیکن اس لیے نہیں کہ میں کمزور تھا۔ اب بھی کچھ نہیں بگڑا، مجھے اس جنگ کو بہر حال جاری رکھنا ہے، اگر fair means سے نہیں تو foul means سے ہی۔ مجھے لڑتے رہنا ہے۔

لیکن نہیں، ستیہ پال آنند کی نظم کا واحد متکلم ملٹنؔ کا ابلیس نہیں ہے۔ نسل آدم کا ایک خود دار فرد ہے، جس سے ’تقدیر کے کاتبوں‘ نے نا انصافی کی ہے، اس کے نوشتۂ تقدیر کو بگاڑ کر رکھ گیا اور نتیجے کے طور پر اسے یہ جنگ لڑنے پر مجبور ہو جانا پڑا۔ اب اسے ایک حوصلہ مند، خود دار و خود بین شخص کی طرح بخشش کی نہیں، سزا کی طلب ہے۔
یہ سینہ کھلا ہے مرا
تیسرا زخم کھانے کو بے تاب ہے۔

یہ تیسرا زخم کیا ہے؟ کچھ مذاہب میں سزا کے تصور کو جراحت کے عمل سے تشبیہہ دی گئی ہے۔ زندگی بھر کے گناہوں کا فاسد مادہ جو روح کو غلاظت سے بھرتا رہتا ہے، صرف اسی حالت میں خارج ہو سکتا ہے، اگر روح سزا کی بھٹی میں تپ کر ایک بار پھر اپنی پاکیزگی اور طہارت حاصل کر لے۔ کچھ مذاہب کے عقئد کے مطابق اس کے لیے جسم اور روح دونوں کی اذیت رسانی ضروری ہے۔ یہ اذیت ایک اذیت ناک موت کی صورت میں بھی قبول کی جا سکتی ہے۔

’’تیسرا زخم‘‘ بطور اصطلاح اہل یہود کی مقد س کتاب تورۃ (تورائت) سے مستعار ہے، جس میں پیدائش کو پہلا زخم مانا گیا ہے۔ زندگی اور گناہ تو لازم و ملزوم ہیں ، اس لیے اس ترتیب سے موت کو دوسرا زخم کہا گیا ہے، اس بات سے قطع نظر کہ شاعر نے سزا کے ناگزیر ہونے کے نظریے کو تورائت سے یا بُدھ مت سے مستعار لیا ، یہ ضروری ہے کہ اس طرف ایک بار پھر توجہ دی جائے کہ سزا کو بخشش کے مقابل پلڑے میں رکھ کر تولنے میں اسے سزا کا پلڑا بھاری دکھائی دیا اور قابلِ قبول نظر آیا۔ یقناً شاعر یا واحد متکلم کی جرآت انتخاب پر حیرت ہوتی ہے اور ’’الاماں‘‘ کہتے ہوئے توبہ کے لیے ہاتھ اُٹھانے کو جی بھی چاہتا ہے۔
’’مجھے تیسرا زخم بھی اب عطا ہو ‘‘

Advertisements
julia rana solicitors

ضروری نوٹ!مراقش نژاد ڈاکٹر عائشہ الجدید نے میری رہنمائی میں ساؤتھ ایسغٹرن یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ ان کا موضوع تقابلی ادب کے زمرے میں ٹیگور اور خلیل جبران کے ادب میں انسانی قدروں کی مطابقت کا تھا۔ انگریزی میں کچھ نظموں کی عملی تنقید ان کے پری ریسرچ اسائمنٹ کا ایک جزو تھیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply