• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • ستیہ پال آنند کی نظم،”مجاز مرسل کی حد کہاں ہے” نظم اور اس کا تجزیہ ناصر عباس نیر کے قلم سے (۱۹۰۵)

ستیہ پال آنند کی نظم،”مجاز مرسل کی حد کہاں ہے” نظم اور اس کا تجزیہ ناصر عباس نیر کے قلم سے (۱۹۰۵)

مجاز مرسل کی حد کہاں ہے
ہزاروں، لاکھوں ہی سیڑھیاں ہیں
نشیب میں سب سے نچلی سیڑھی پہ میں کھڑا ہوں
تھکا ہوا، بے امان، درماندہ، بے سہارا
مگر ارادے میں سر بکف، ولولے میں پا مرد، دPھن کا پکا
یہ عزم بالجزم ہے، جنوں ہے، کہ بے خودی ہے
یہ میں نہیں جانتا، مگر سب سے نچلی سیڑھی پہ پاؤں رکھے
مدام آنکھیں فلک کی جانب اٹھائے
گردن میں بل دئے، اونچے نردبانوں کو دیکھتا ہوں
بلندیوں پر جو ایستادہ ہیں
بادلوں کے دبیز پردوں میں منہ چھپائے۔۔۔۔
میں خود سے کہتا ہوں، یہ شروع سفر ہے ، آدم
چلو چڑھو اپنی اگلی سیڑھی
تمہیں بہر نوع چڑھتے رہنا ہے، جانتے ہو؟
تمہارا معبود آخری سیڑھی پر تمہارا ہی منتظر ہے
چلو چڑھو! آخری وسیلہ یہی ہے، جس سے
فرار ممکن نہ ہے، نہ ہو گا
نہ جانے عمروں کے کتنے زینے چڑھے ہیں میں نے
مسافتوں کے ہزار قرنوں میں میرے پاؤں
اک ایک زینے پہ ڈ گمگائے ہیں ماندگی سے
مگر مرا عزم مستقل صرف ایک امید سے ہمیشہ اٹل رہا ہے
کہ آخری سیڑھی پر کوئی میرا منتظر ہے
پہنچ گیا ہوں ۔۔۔۔
بس ایک لمحہ بڑی محبت سے اپنے ٹوٹے ہوئے بدن کو
دریدہ پیروں کو دیکھتا ہوں
نظر اٹھاتا ہوں
اونچی سیڑھی پہ روشنی کے مجسمے پر نظر جماتا ہوں
پھر اپنے خستہ بدن کے ملبوس سے نکل کر
وقار و صولت سے لیس ہو کر
عقیدت و احترام سے، پر بڑے تحمل سے پوچھتا ہوں
’’اگر میں عابد ہوں بندگی میں
تو میں ہی معبود بھی ہوں، مولا
مجھے بتاؤ، مجازِ مرسل کی حد کہاں ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(2005)
ڈاکٹر ناصر عباس نیّر
نظم کا تنقیدی جائزہ
ستیہ پال آنندؔ کی یہ نظم استعارہ اور مجازِ مرسل کی ہم قرینی کے عمل کو پیش کرتی ہے۔ کہیں استعارہ مجازِ مرسل کی جگہ لے لیتا ہے اور کہیں اس کے الٹ ہوتا ہے۔ استعارہ اور مجازِ مرسل کی یہ آنکھ مچولی پوری نظم میں موجود ہے‘ محض نظم کے معنی اور خیال میں نہیں، اس کی اسلوبی ساخت میں بھی مشاہدہ کی جا سکتی ہے۔ قابلِ غور بات یہ ہے کہ استعارہ اور مجازِ مرسل کی آنکھ مچولی کو لحاظ میں رکھے بغیر نہ تو نظم کے بنیادی مفہوم اور اس مفہوم کو جنم دینے والے تجربے کو سمجھا جا سکتا ہے اور نہ نظم کے ترسیلی وسائل  کا جواز سمجھ میں آ سکتا ہے۔ مثلاً ایک لمحے کے لیے بھول جائیے کہ اس نظم میں مذکورہ آنکھ مچولی موجود ہے۔ دیکھیے  کہ نظم کا مفہوم کیا بنتا ہے۔ اس صورت میں نظم:’’انسانی ارتقا کی کہانی پیش کرتی ہے۔ یہ ارتقا ایک جست میں نہیں‘ قدم بہ قدم ہوا ہے اور ارتقا کے مشکل سفر کو آخری سیڑھی پر موجود معبود سے ملنے کی امید نے ممکن اور آسان بنا دیا ہے۔ جب یہ سفر مکمل ہوتا اور انسان اپنے معبود کے رُو بہ رُو ہوتا ہے تو اس میں بے نشان ہونے کی بجائے اپنے نشان اور اپنی شناخت کا سوال اٹھاتا ہے۔‘‘

بہ ظاہر یہ مفہوم ٹھیک ٹھاک نظر آتا ہے‘ مگر کیا نظم کا مفہوم محض اتنا ہے؟ اگر نظم کے مفہوم کو اس طور بیان کرنا ممکن ہے تو پھر یہ تسلیم کرلینا چاہیے کہ نظم میں کافی فاضل مواد ہوتا ہے۔ قاری کا کام بس یہ رہ جاتا ہے کہ وہ نظم کے فاضل مواد کے پنجے سے نظم اوراس کے مفہوم کو آزاد کرائے۔ ظاہر ہے اس بات کو تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ نظم (کم از کم جدید نظم) خود کو ایک نامیاتی وجود کے طور پر پیش کرتی ہے۔ اس کا ہرانگ اس کے پورے وجود سے زندہ اور ناگزیر رشتہ رکھتا ہے۔ نیز اگر ہم یہ فرض کر بھی لیں کہ نظم کا محض یہی مفہوم ہے تو کیا اس مفہوم کا جواز ہمیں نظم میں مل جاتا ہے؟

ذرا ان سوالات پر غور کیجیے:
1- اگر نظم انسانی ارتقا کی کہانی کو پیش کرتی ہے تو نشیب کی سب سے نچلی سیڑھی پر کھڑے انسان کے بے امان و بے سہارا ہونے کی وجہ تو سمجھ میں آتی ہے مگر تھکے اور درماندہ ہونے کا کیا جواز ہے؟ اپنے سفر کے پہلے قدم پر ہی وہ تھکا اور درماندہ کیسے ہو گیا

2-پہلی ہی سیڑھی پر کھڑے کھڑے اسے آخری سیڑھی کیسے نظر آ گئی؟ اور کیوں کر وہ یہ یقین حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا کہ آخری سیڑھی پر اس کا معبود اس کا منتظر ہے اور وہی آخری وسیلہ ہے؟
3-ارتقا کے لیے سیڑھی کا امیج ہی کیوں استعمال کیا گیا؟ معبود تک قدم بہ قدم ارتقائی سفر کے ذریعے پہنچا جا سکتا ہے یا محض ایک جست قصہ تمام کر دیتی ہے؟

یہ سوالات نظم کی ہمہ جہت تفہیم میں کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔ نظم کا مذکورہ مفہوم ان سوالات کا کوئی جواب مہیا نہیں کرتا۔ ان کے جوابات استعارہ اور مجازِ مرسل کی ہم قرینی کے عمل میں تلاش کیے جا سکتے ہیں۔
رومن جیکبؔ سن کے بہ قول استعارہ مماثلت اور مجازِ مرسل قربت کی ’’منطق‘‘ کو بروئے کار لاتا ہے۔ روایتی طور پر استعارہ تشبیہی تعلق (جو مماثلت ہی ہے) کی بنا پر وجود میں آتا ہے اور مجازِ مرسل تشبیہ کے علاوہ کسی دوسرے تعلق کی وجہ سے رونما ہوتا ہے۔ یہ جزو سے کُل‘ سبب سے مسبب‘ ظرف سے مظروف‘ خاص سے عام اور اس سب کے بر عکس صورتوں میں اور ان کے علاوہ متعدد صورتوں میں اپنا اظہار کرتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں مماثلت و تشبیہ کے لازمی تعلق کی وجہ سے استعارہ کی حدِ مقرر قرار دی جا سکتی ہے‘ مگر مجازِ مرسل کی حد مقرر نہیں ہے اور یہ اپنی جگہ بنیادی سوال ہے کہ آخر مجازِ مرسل کی حد کہاں ہے؟

مجازِ مرسل اور استعارہ محض زبان کے مجازی استعمال کی صورتیں نہیں ہیں۔ یہ مخصوص نوع کی جمالیات کی تشکیل بھی کرتے ہیں ۔مجازِ مرسل چوں کہ قربت کی منطق پر اُستوار ہے‘ اس لیے یہ حقیقت نگاری کی جمالیات کی تشکیل کرتا ہے اور استعارہ مماثلت کی منطق رکھنے کی وجہ سے رومانوی جمالیات کے لیے موزوں ہے۔ حقیقت نگاری میں متن حقیقت کے قریب رہتا ہے اور رومانویت میں متخیّلہ کسی نئی حقیقت کی تشکیل کرتی ہے اور ہر نئی حقیقت پہلے سے موجود حقیقتوں کے مماثل ہوتی ہے‘ ساخت یا اپنے ظہور کے اعتبار سے۔
ان معروضات کی روشنی میں نظم پر غور کریں تو کھلتا ہے کہ نظم حقیقت نگاری اور رومانوی جمالیات‘ مجازِ مرسل اور استعارہ کی ہم قرینی سے عبارت ہے۔ پہلے مجازِ مرسل اور حقیقت نگاری کی مظہر چند لائنیں دیکھیے:
تھکا ہوا‘ بے امان‘ درماندہ‘ بے سہارا
مگر ارادے میں سر بکف‘ ولولے میں پامرد‘ دُھن کا پکا
تمھیں بہ ہر نوع چڑھتے رہنا ہے‘ جانتے ہو؟
نہ جانے عمروں کے کتنے زینے چڑھے ہیں میں نے
مگر مرا عزم مستقل صرف ایک امید سے ہمیشہ اٹل رہا ہے
اب استعارہ اور رومانوی جمالیات کے نمائندہ چند مصرعے ملاحظہ کیجیے:
ہزاروں لاکھوں ہی سیڑھیاں ہیں
نشیب میں سب سے نچلی سیڑھی پہ میں کھڑا ہوں
مدام آنکھیں فلک کی جانب اٹھائے
گردن میں بل دیے‘ اونچے نرد بانوں کو دیکھتا ہوں
بلندیوں پر جو ایستادہ ہیں
بادلوں کے دبیز پردوں میں منہ چھپائے
میں خود سے کہتا ہوں‘ یہ شروعِ سفر ہے آدم
مسافتوں کے ہزار قرنوں میں میرے پاؤں
اک ایک زینے پہ ڈگمگائے ہیں ماندگی سے
نظر اٹھاتا ہوں کچھ جھجک کر
پھر اونچی سیڑھی پہ روشنی کے مجسّمے پہ نظر جماتا ہوں۔۔دیکھتا ہوں
پھر اپنے خستہ بدن کے ملبوس سے نکل کر
عقیدت و احترام سے پر‘ بڑے تحمل سے پوچھتا ہوں
اگر میں عابد ہوں بندگی میں
مجھے بتاؤ مجازِ مرسل کی حد کہاں ہے؟

۲۳ مصرعوں اور چار ٹکڑوں پر مشتمل اس نظم کے دو تہائی مصرعے استعارہ اور باقی مجاز مرسل کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اب اگر یہاں استعارہ کو متخیّلہ اور مجازِ مرسل کو ’’عقلِ عامہ‘‘ کا ترجمان قرار دینے کی ہمت کر لیں تو ہمیں ان سوالات کے جوابات مل جائیں گے جو ابتدا میں قائم کیے گئے تھے۔۔۔ یہ نظم انسانی ارتقا کی کہانی کو نہیں‘ ارتقا کے ’’عقلِ عامہ‘‘ کے ذریعے قائم کیے گئے تصور کی تخیّلی تشکیل کرتی ہے۔ متخیّلہ کا عمل باز آفرینی نہیں (باز آفرینی یاداشت کا عمل ہے) ایک نئی آفرینش ہوتاہے‘ تاہم یہ نئی آفرینش پہلے سے موجود تصورات کی بنیاد پر ہی ہوتی ہے۔ لہٰذا نظم میں ارتقا کے تصور کی باز آفرینی نہیں کی گئی‘ اس تصور کی مدد سے اور اس کی بنیاد پر ایک نئے تصور کی آفرینش کی گئی ہے۔

نشیب کی پہلی سیڑھی پر نظم کا متکلم اس لیے تھکا اور درماندہ ہے کہ وہ ارتقا کے عقلِ عامہ کے ذریعے قائم کیے گئے تصور تک پہنچنے کے لیے لمبا سفر طے کر کے آ رہاہے۔ نظم کا متکلم اس اوّلین انسان کا نمائندہ نہیں جس نے ابھی سفرکا آغاز کیا تھا‘ اس جدید انسان کا ترجمان ہے جو ارتقا کے طویل سفر کی پیداوار بھی ہے اس سفر کا تاریخی شعور بھی رکھتا ہے۔ غور کریں تو تاریخی شعور کی کارکردگی استعارہ اور مجازِ مرسل کے مماثل ہے۔ ایک سطح پر تاریخی شعور ’’ہو چکے واقعات‘‘ کا علم ہے۔ اس سطح پر تاریخی شعور ان واقعات سے قربت کا رشتہ رکھتا ہے جو مجازِ مرسل کا عمل ہے۔ دوسری سطح پر تاریخی شعور ’’ہو چکے واقعات‘‘ کی تعبیر ہے۔ تاریخی واقعات انسانی شعور میں بغیر تعبیر کے وجود نہیں رکھتے اور تعبیر کسی واقعہ کی گویا تشکیلِ نو ہے۔ جو نوعیت کے اعتبار سے استعاراتی عمل ہے۔ پہلی صورت میں تاریخی شعور اجتماعی ہے تو دوسری صورت میں انفرادی ہے۔ انسانی ارتقا کی تاریخ کی ایک سطح اجتماعی ہے اور دوسری سطح (جو تعبیر کی ہے) انفرادی ہے۔ دوسرے لفظوں میں اس نظم میں ارتقائے انسانی کی انفرادی تعبیر کی گئی ہے اور اس کے لیے سیڑھی کا استعارہ وضع کیا گیا ہے۔ خود یہ استعارہ شاعر کی تخلیقی فعالیت کی انفرادی سطح کو پیش کرتا ہے۔ اس استعارے کے ذریعے انسانی ارتقا کی تعبیر یہ کی گئی ہے کہ ارتقا بہ تدریج تمام درجوں سے مربوط اور رفتہ رفتہ ہوا ہے۔ ارتقا کی تمام کڑیاں ایک دوسرے سے جڑی ہیں۔ ظاہر ہے ارتقا کی یہ تعبیر ارتقا کے تقلیبی تصور کے الٹ ہے جس کے مطابق بسا اوقات ارتقا جست کے ذریعے اور اچانک بھی ہوتا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ارتقا کے تاریخی شعور کی یہ دونوں سطحیں اجتماعی اور انفرادی یا مجازِ مرسل اور استعارے کا عمل ساتھ ساتھ چلتے ہیں مثلاً ان مصرعوں میں یہ د ونوں سطحیں بہ یک وقت موجود ہیں۔
میں خود سے کہتا ہوں‘ یہ شروعِ سفر ہے آدم
چلو چڑھو اپنی اگلی سیڑھی
تمھیں بہ ہر نوع چڑھتے رہنا ہے ، جانتے ہو؟

ان مصرعوں میں آدم اور جدید انسان کے خاکے ایک دوسرے میں پیوست ہو گئے ہیں۔ ابتدائی انسان نے اپنا سفر یقیناًنشیب سے شروع کیا تھا مگر وہ خود شعوریت اور خود کلامی کی صلاحیت نہیں رکھتا تھا۔ یہ صفات بہ تدریج اور بہت بعد میں حاصل کی گئی ہیں۔ ابتدائی انسان ارد گرد سے وحدت کا رشتہ رکھتا تھا۔ وہ اپنے باہر اور اپنے اندر کسی ’’دوسرے‘‘ وجود کا شعور نہیں رکھتا تھا۔ خود شعوریت اور خود کلامی ’’دوسرے‘‘ کے شعور کا ہی نتیجہ ہیں۔ لہٰذا یہ جدید انسان ہے جو اپنے اندر قدیمی انسان کے پیکر کو دیکھتا‘ اس کے سفر کا تصور کرتا اور اس سفر کی مخصوص معنویت قائم کرتا ہے۔ جدید انسان کو ہی معلوم ہے کہ اسے مسلسل آگے بڑھنا ہے اور یہ جدید انسان کا تصورِ ارتقا ہے جو اپنے سفر کی آخری منزل پر اپنے معبود کو منتظر محسوس کرتا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ یہ آخری سیڑھی کہاں ہے؟ اور آخری سیڑھی موجود ہے بھی کہ نہیں؟ آخری سیڑھی کا تصور کہیں سفر کو جاری رکھنے اور سفر کے مصائب کو جھیلنے کے سہارے کے طور پر محض تشکیل تو نہیں دیا گیا؟

ہر چند یہ بڑے تیقّن سے کہا گیا ہے کہ
’’تمہارا معبود آخری سیڑھی پر تمھارا ہی منتظر ہے؍ چلو‘ چڑھو‘ آخری وسیلہ وہی ہے جس سے؍ فرار ممکن نہ ہے نہ ہوگا‘‘
مگر جب آخری سیڑھی پر نظم کا متکلم پہنچتا اور روشنی کے مجسّمے کے رُو برُو ہوتا ہے تو اسے آخری وسیلے سے فرار کا امکان سوجھتا ہے۔ وہ نور کے مجسّمے سے ’’وصالِ کامل‘‘ (جو فنائے خود کے مترادف ہے) کے بجائے اپنا اثبات چاہتا ہے۔ اور اثباتِ ذات بھی اس بلند ترین سطح پر جو ’’روشنی کے مجسّمے‘‘ سے مخصوص ہے۔ اس سے یہ باور کیا جا سکتا ہے کہ طویل ترین سفر انسان نے کسی اور کے لیے نہیں بلکہ خود اپنے لیے طے کیا ہے اور انسان کے ارتقا کا نقطۂ کمال عابد سے ’’معبود‘‘ کے درجے کو پہنچتا ہے مگر یہ نقطہ امکان ایک امکان اور تصور ہے۔ نظم کے ضمن میں اہم ترین نکتہ یہ ہے کہ اس امکان کو مجازِ مرسل کی حد کے سو ال کے ذریعے ابھارا گیا ہے۔ مجازِ مرسل کی رو سے جزو کل کی اور کل جزو کی نمائندگی کر سکتا ہے۔ عابد کی سطح پر آدمی ’جزو‘ ہے اور معبود’ کل‘ ہے۔ نظم کا متکلم سوال اٹھاتا ہے کہ کیا مجازِ مرسل کے اس ’’اصول‘‘ کا اطلاق یہاں ہو سکتا ہے؟ کیا مجازِ مرسل کی حد مابعدالطبیعاتی منطقے کو بھی مس کرتی ہے؟

Advertisements
julia rana solicitors london

ظاہر ہے یہ سوال وحدت الوجودی مہابیانیے پر تشکیک سے عبارت ہے جس کے مطابق جز کا کمال کل میں ضم ہو جانا ہے۔ (ویسے روشنی کے مجسّمے کا امیج یہ باور کراتا ہے کہ معبود کا تصور ایک مخصوص نشانیاتی نظام’ جس میں انسان کو مرکزیت حاصل ہے‘ کے تحت کیا گیا ہے) اپنی انفرادیت کی نفی کرنا ہے۔
غور کریں تو جز اور کل کے رشتے کی نوعیت استعاراتی ہے… جز اس لیے کل میں ضم ہو نا چاہتا ہے کہ وہ کل کا بچھڑا ہوا حصہ‘ اس کی مانند اور مماثل ہے۔ اگر ایساہے تو نظم میں جز اور کل کے رشتے کا ایک نیا مہا بیانیہ پیش کیا گیا ہے جس کی بنیاد مجازِ مرسل پر ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply