گنگا میّا۔۔بھیرو پرسادگپت(4)۔۔ہندی سے ترجمہ :عامر صدیقی

دو تین سال کے اندر ہی مٹرو کی کٹیا بڑی ہو گئی۔ دودھ کیلئے جمناپاری بھینس اور ایک جوڑی بیل دروازے پر جھومنے لگے۔ مٹرو کا حوصلہ بڑھا۔ اس نے کھیتوں میں پھیلاؤ  اور بھی بڑھا دیا اور اپنے ایک جوان سالے کو بھی اپنے پاس ہی بلا لیا۔ خوب ڈٹ کر محنت کی اور محنت کا پسینہ سونے کا پانی بن کر فصلوں پر لہرا اٹھا۔

زمیں داروں کے کانوں میں یہ خبر پہنچی، تو وہ کسمسائے۔ انہیں کیا خبر تھی کہ وہ زمین بھی اس طرح سونا اگل  سکتی ہے۔ وہ تو جھاؤں اور سرکنڈوں کو ہی بہت سمجھتے تھے۔ ترواہی کے کسانوں کی زبان سے بھی چھاتی چھاتی بھر ربیع کی فصل دیکھ کر رال ٹپکنے لگی۔ لیکن ان میں مٹرو کی طرح جرات تو تھی نہیں کہ آگے بڑھتے، جنگل صاف کرتے اور فصل اگاتے۔ وہ زمیں داروں کے یہاں پہنچے اور لمبی چوڑی لگان دے کر انہوں نے کھیتی کرنے کیلئے زمین مانگی۔ زمیں داروں کو جیسے بن مانگے ہی وردان ملے۔ انہیں اور کیا چاہیے تھا! انہوں نے دنادن دونی چوگنی رقمیں سلامی لے لے کر کسانوں کے نام زمین بندوبست کرنی شروع کر دی۔

مٹرو کو اس کی خبر لگی، تو اس کا ماتھا ٹھنکا۔ وہ گاؤں میں جا جاکر کسانوں کو سمجھانے لگا کہ وہ یہ کیسی بیوقوفی کر رہے ہیں۔ گنگا میا کی چھوڑی زمین پر زمیں داروں کا کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ اس پر سلامی اور لگان لیں؟ جس کو جوتنابونا ہو، وہ خوشی سے آئے اور اسی طرح جنگل صاف کرکے جوتے بوئے۔ زمیں داروں سے بندوبست کرانے کی کیا ضرورت ہے؟ وہ کیوں ایک نئی رِیت نکال رہے ہیں اور زمیں داروں کا من بگاڑ رہے ہیں ۔۔۔

کسانوں کو یہ کہاں معلوم تھا؟ وہ تو مٹرو ہی سے سب سے زیادہ ڈرتے تھے۔ سوچتے تھے کہ کہیں مٹرو نے روک دیا تو؟ انہیں کیا معلوم تھا کہ مٹرو ان کے استقبال کرنے کو تیار ہے۔ جب انہیں معلوم ہوا، تو انہوں نے پچھتاکر پوچھا،’’اب تو سلامی اور لگان تین تین سال کی ایڈوانس دے چکے، مٹرو بھائی! پہلے معلوم ہوتا تو ۔۔۔‘‘

’’ اب بھی کچھ نہیں بگڑا ہے،’’مٹرو نے سمجھایا،’’تم لوگ اپنی رقمیں واپس مانگ لو۔ صاف کہہ دو کہ ہمیں زمین نہیں لینی، یہی ہوگا نہ کہ ایک فصل نہیں بو پاؤ گے۔ اگلے سال تو تمہیں کوئی روکنے والا نہ ہوگا۔ گنگا میا کی گود تمام کسانوں کے لئے کھلی پڑی ہے۔ وہاں بھلا زمین کی کوئی کمی ہے کہ خواہ مخواہ تم لوگوں نے لے دے مچا دی؟ یہ یاد رکھو کہ ایک بار اگر زمیں داروں کو تم نے چسکا لگادیا، تو تم ہی نہیں تمہارے بال بچے بھی ہمیشہ کے لئے ان کے شکنجے میں پھنس جائیں گے۔ انکی لالچ کی زبان، سرسا کی طرح بڑھتی جائے گی اور ایک دن سب کو نگل جائے گی۔ اسکے الٹ اگر ہم لوگ اطمینان میں رہیں اور زمیں داروں کا منہ نہ دیکھیں بلکہ خود ہی اس زمین پر اپنا حق جما لیں، تو یہ زمیندار ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ گنگا میا پر کوئی ان کا آبائی حق نہیں ہے۔ اسکے پانی کی ہی طرح اس کی زمین پر ہم سب کا برابر حق ہے۔ اپنے اس قدرتی حق کو زمیں داروں کا سمجھنا ،خود اپنے گلے پر چھری چلانا ہے۔ تم لوگ میرا کہا مانو اور میرا پورا پورا ساتھ دو۔ دیکھیں گے کہ زمیندار ہمارا کیا بگاڑ لیتے ہیں۔‘‘

کسانوں نے بہانے بنا کر زمیں داروں سے روپے واپس مانگے، تو وہ مسکرائے۔ زمیندار کی تحویل میں پڑے روپے کی وہی حالت ہوتی ہے جو سانپ کے منہ میں پڑے چوہے کی۔ چوہا لاکھ چیں چیں کرے، جھٹپٹائے، لیکن ایک بار منہ میں پھنس کر نکلنا ناممکن ہے۔ بیچارے کسان چیں چیں کرنے کے سوا کر ہی کیا سکتے تھے؟ زمیں داروں نے ڈانٹ کر بھگا دیا۔ کوئی رسید وسید تو تھی نہیں، کسان کرتے بھی تو کیا؟ ہاں، اس کا نتیجہ اتنا ضرور ہوا کہ دوسرے کسانوں نے زمین بندوبست کرانا بند کر دیا۔

اس طرح آمدنی رکتے اور کسانوں کو زمین لینے سے بچتے دیکھ کر زمیں داروں کے غصے کا ٹھکانا نہ رہا۔ پتہ لگانے پر جب انہیں معلوم ہوا کہ مٹرو اس کی تہہ میں ہے، تو ایک دن کئی زمیں داروں نے اکٹھا ہوکر مٹرو کو بلا بھیجا۔

مٹرو دِیّر میں ابھی تک جنگل کے ایک شیر کی طرح رہا تھا۔ زمیں داروں کی یہ ہمت نہ تھی کہ اسے سیدھے طریقے سے چھیڑیں۔ جوار میں یہ دھاک جمی تھی کہ مٹرو پہلوان کے پاس سینکڑوں لٹھیت ہیں۔ جب وہ چاہے دن دہاڑے لٹوا سکتا ہے۔ یہی بات تھی کہ سارے جوار میں اسکا دبدبہ تھا۔ ادھرسے گزرنے والا کوئی بھی اسے بغیر سلام کئے نہ جاتا۔

بلاوا سن کر مٹرو اکڑ گیا۔ اس نے صاف لفظوں میں کہلوا بھیجا کہ مٹرو کسی زمیندار کا کوئی آسامی نہیں ہے۔ جسے غرض ہو، وہی اس سے آکر ملے۔

ایسے موقعوں پر کام لینا زمیں داروں کو خوب آتا ہے۔ انہوں نے پڑھا لکھاکر اپنے ایک چلتے پرزے کارندے کو مٹرو کے پاس بھیجا۔

کارندے نے خوب جھک کر ’’ جے گنگاجی‘‘ کہہ کر سلام کیا۔ پھر دونوں ہاتھ کو الجھاتا، بڑی لجاجت سے منہ بنا کر بولا،’’پار جا رہا تھا۔ سوچا، پہلوان جی کوجے گنگاجی کہتا چلوں۔‘‘

صبح کا وقت تھا، ماگھ کا مہینہ۔ دریا پر گہرے بھاپ کا دھوں اٹھ رہا تھا۔چاروں جانب کہرے کی دھندلی چادر پھیلی ہوئی تھی۔ اسی میں سورج کی کمزور کرنیں اٹک کر رہ گئی تھیں۔ گندم کی چھاتی بھر اگی فصل نگاہوں کی حد تک چاروں طرف پھیلی ہوئی تھی۔ کہرے سے جمے موتی انکے پتوں پر چمک رہے تھے۔ بالیوں نے شکل لے لی تھی۔ اب اوس پی پی کر خوش ہو رہی تھیں۔

مٹرو ،گاڑھے کی لنگی اور کرتہ پہنے بیلوں کی ناندوں کے پاس کھڑا تھا۔ کرتے کی آستینیں بازوؤں پر چڑھی ہوئی تھیں۔ داہنا ہاتھ کہنی کے اوپر تک سانی سے بھیگا تھا۔ ابھی ابھی اس نے ناندوں میں چاولوں کی کھدّی ملائی تھی۔ آنکھیں تک منہ ڈبوئے بیل بھڑ بھڑ کی آواز کرتے کھا رہے تھے۔ ایک کے پچھواڑے پر بایاں ہاتھ رکھ کر مٹرو نے نگاہ اٹھا کرکارندے کی طرف دیکھ کر کہا،’’گھاٹ چھوٹنے میں ابھی دیر ہے، چلم پیوگے؟‘‘ یہ کہہ کر وہ کَوڑے کے پاس آ بیٹھا۔

کارندہ بھی اس کی بغل میں پتلوں کی چٹائی پر بیٹھ گیا۔ مٹرو نے پاس سے کھودنی اٹھا کر آگ بڑھا دی۔ پھر دونوں ہاتھ پاؤں پھیلا کر تاپنے لگا۔ مٹرو نے آواز دی،’’لکھنا، ذرا تماکو چلم دے جانا۔‘‘

لکھنا ،مٹرو کا بڑا لڑکا تھا۔ عمر چار سال، ننگ دھڑنگ، وہ ایک ہاتھ میں چلم اور دوسرے میں تمباکو لیے جھونپڑے سے باہر نکل کر دوڑا دوڑا آیا اور کاکا کے ہاتھ میں چلم تمباکو تھماکر وہیں بیٹھ گیا اور انہی کی طرح ہاتھ پاؤں پھیلا کر آگ تاپنے لگا۔

مورت کی طرح سڈول، سانولے خوبصورت لڑکے کی طرف دیکھ کرکارندہ بولا،’’کیوں رے، تجھے جاڑا نہیں لگتا؟‘‘

لڑکے نے ایک بار آنکھیں جھپکاکر اس کی طرف دیکھا، پھر مسکرا کرسر جھکا لیا۔

مٹرو ہی بولا،’’کچھ پہنتا اوڑھتا نہیں۔ سوئے میں بھی کچھ اوڑھاؤ تو پھینک دیتا ہے۔‘‘

’’ تمہارا ہی تو لڑکا ہے، پہلوان جی !‘‘ کارندے نے لاسا لگایا۔

’’ ہاں، پانچ سال پہلے تک میں نے بھی نہ سمجھا کہ کپڑا کیا ہوتا ہے۔ ایک لنگوٹا اور لنگی کافی ہوتی تھی۔ گنگا میا کی مٹی اور پانی کا اثر ہی کچھ ایسا ہے کہ سردی گرمی، روگ سوگ کوئی سامنے نہیں آتا۔ کیا کروں، سانس کی بیماری سے بدن اکھڑ گیا۔‘‘کہہ کر چلم پر مٹرو انگارے رکھنے لگا۔

’’ برا ہو اس دشمن کا! ۔۔۔‘‘پھردرمیان ہی میں بات روک کر بولا،’’چھوڑو بھائی، اس بات کو، تماکو پیو۔ بھگوان سب کا بھلا کریں!‘‘

’’ ہاں بھائی،’’چلم منہ لگاتے ہوئے کارندہ بولا،’’آدمی ہو تو تمہاری طرح، جو دشمن کا بھی بھلا منائے۔‘‘کہہ کر کارندہ چلم سلگانے لگا۔

’’ کس گاؤں کے رہنے والے ہو؟ کایستھ معلوم ہوتے ہو؟‘‘ مٹرو نے پوچھا۔

’’ ہاں، رہنے والا تو بالوپور کا ہوں، لیکن کام جنداپور کے زمیندار کے یہاں کرتا ہوں۔‘‘دھوئیں کا بادل چھوڑکر، مطلب پر آکرکارندے نے صاف صاف ہی کہا،’’سنا تھا زمیں داروں نے تمہیں بلایا تھا، تم نے جانے سے انکار کر دیا۔‘‘

مٹرو کے ماتھے پر بل آ گئے۔ اس نے تیکھی نظروں سے کارندے کی طرف دیکھ کر کہا،’’ہم کسی کے تابع ہیں،جو ۔۔۔‘‘

’’ نہیں، بھائی، نہیں، میرا مطلب یہ نہیں تھا،’’ کارندہ درمیان میں ہی بول اٹھا،’’کون نہیں جانتا کہ تم بادشاہ آدمی ہو۔ تم نے اپنے قابل ہی کام کیا۔ لیکن وہاں سننے میں یہ بھی آیا ہے کہ تمام زمیندار، جن کا دِیّر میں حصہ ہے، مل کر تمہارے نام ایک بہت بڑا کھاتہ لکھ دینے کی سوچ رہے ہیں۔ تم۔۔۔‘‘

’’ لکھنے والے وہ کون ہوتے ہیں؟‘‘ مٹرو تاؤ میں آکر بولا،’’یہاں تو صرف گنگا میا کی عملداری ہے۔ انکے سوا تو میں نے آج تک کسی کو نہیں جانا۔ اور سن لو، طبیعت چاہے تو ان سے کہہ بھی دینا کہ دِیّر میں کوئی زمیندار کابچہ نظرآ گیا، تو بغیر اسکی ٹانگ توڑے نہ چھوڑوں گا!‘‘

’’ ارے، بھائی، تم تو بیکار ناراض ہو رہے ہو۔ مجھے کیا پڑی ہے یہ سب کسی سے کہنے کی؟ مگر، بات چلی تو میں نے کہہ دی۔ یہ بھی سننے میں آیا تھا کہ پہلوان چاہیں تو سلامی اور لگان کی رقم میں بھی ان کا حصہ مقرر کر دیا جائے ۔۔۔‘‘

مٹرو ہنس پڑا۔ پھر آنکھیں چڑھا کر بولا،’’مٹرو پہلوان حرام کا نہیں کھاتا۔ گنگا میا کے سوا اس نے کسی کے سامنے کبھی ہاتھ نہیں پھیلایا۔ دیکھیں گے کہ اب کیسے کسی کسان سے سلامی اور لگان لیتے ہیں اور یہاں کی زمین پر قبضہ دلاتے ہیں! گنگا میا کی قسم لے کر کہتا ہوں، لالا، کہ ۔۔۔‘‘

’’ بھائی، میں تو غلام آدمی ٹھہرا۔ بھلا تم جیسے بادشاہ آدمی کے سامنے کچھ کہنے کی ہمت ہی کیسے کر سکتا ہوں؟ زمیں داروں کے جوتے سیدھے کرتے ہی میری عمر گزر گئی۔ برا نہ ماننا، یہ زمیندار بڑے ظالم شیطان ہوتے ہیں۔ تمہاری طرح کے سیدھے سادے آدمی کیلئے ان سے الجھنا ٹھیک نہیں۔ وہ اونچ نیچ، جھوٹ سچ، مکر فریب کچھ نہیں دیکھتے۔ عمالوں کے ساتھ روز کا ان کا اٹھنا بیٹھنا ہوتا ہے۔ بھلا تم ان سے کیسے پار پاؤ گے؟ پھر کاغذ پتر پر بھی ان کا نام درج ہے۔ قانون قاعدے کے پینترے میں ہی وہ تم کو نچا ماریں گے۔‘‘

’’ قانون قاعدے کی بات وہ گھر بیٹھے بگھارا کریں۔ مجھے کوئی پرواہ نہیں۔ میں تو یہی جانتا ہوں کہ یہ زمین گنگا میاکی ہے۔ جو چاہے آئے، محنت کرے، کمائے، کھائے! زمیں داروں نے اگر ادھر آنکھیں اٹھائیں تو میں ان کی آنکھ پھوڑ دوں گا! کہاں رکھا تھاقاعدہ قانون اب تک! میں نے محنت کی، فصل اگائی، تو دیکھ کر دانت گڑ گئے۔ چلے ہیں اب زمینداری کا حق جتانے! آئیں نہ ذراہل کندھے پر لے کر! دل لگی ہے یہاں کھیتی کرنا! بھولے کسانوں کو بیوقوف بنا کر روپے اینٹھ لئے۔ بیچارے وہ محنت کریں گے اور مسند پر بیٹھے گل چھرے اڑائیں گے تمہارے زمیندار۔ یہاں میں نہیں چلنے دوں گا یہ سب! ان سے کہہ دینا کہ یہاں گنگا میا کی عملداری ہے۔ کسی نے پاؤں بڑھائے، تو دیکھتے ہو وہ دھارا! ایک کی بھی جان نہ بچے گی۔ جاؤ، اب تو محاذ کھل جائے گا۔‘‘

کارندہ اپنا سا منہ لے کر اٹھ کھڑا ہوا۔ مٹرو بڑبڑائے جا رہا تھا،’’ہوں! چلے ہیں گنگا میا کی چھاتی پر مونگ دلنے!‘‘

دِیّر میں مٹرو اور اسکے لٹھیتوں سے پار پانا ،ممکن نہیں، یہ زمیندار بھی جانتے تھے اور پولیس بھی۔ یہ بالکل ویسا ہی تھا، جیسے جان بوجھ کر سانپ کے بل میں ہاتھ ڈالنا۔

میلوں لمبے وسیع جھاؤں  اور سرکنڈے کے گھنے جنگلوں کے درمیان کوئی باقاعدہ راستہ نہ تھا۔ اجنبی کوئی وہاں کہیں پڑ جائے، تو پھنس کررہ جائے۔ جانے بوجھے لوگ ہی جنگل کے درمیان سے ہوکر گھاٹ تک جانے والی ٹیڑھی میڑھی، ویران، پوشیدہ اورچھپی ہوئی پگڈنڈیوں کو جانتے تھے۔ پھر بھی شام ہوتے ہی کسی کی ہمت اس پر چلنے کی نہ ہوتی۔ لوگوں کا تو یہ بھی کہنا تھا کہ ان جنگلوں میں کتنے ہی ڈاکوؤں کے گروہوں کے اڈے ہیں۔ وہاں مٹرو سے لوہا لینے کا مطلب جان گنوانے کے سوا کچھ نہ تھا۔ سو، موقع کی بات سمجھ کر زمیندارانہ فنکاری شروع ہوگئی، پولیس سے ساٹھ گانٹھ چلتی رہی اور موقع کی تیاری ہوتی رہی۔

ہمیشہ کی طرح جیٹھ چڑھتے چڑھتے فصل کاٹ کوٹ، دان مس کر مٹرو نے اناج اور بھوسا سسرال پہنچا دیا۔ بال بچوں کو بھی بھیج دیا۔خانہ بدوشی کے دن سر پر آ گئے تھے۔ کیا ٹھکانہ کب گنگا میا پھولنے لگیں! رات بھر میں لگاتارپانی بڑھتا ہے۔لہریں مارتی ہوئی ندی کی طرف سے بچ کر کٹیا اوپر ہٹانا جتنی تیزی کا کام تھا، اتنا ہی خطرے کا بھی۔ ایسی حالت میں بال بچوں کو ساتھ رکھنا ٹھیک نہ رہتا۔ اکیلی جان لے کر مٹرو رہتا تھا۔ سسر تو اس سے بھی چلے آنے کو کہتے، لیکن مٹرو کو جب تک دریا کی ہوا نہ چھوئے، نیند نہ آتی تھی۔ اسکی خودمختار روح کو گنگا میا کی لہر ایک لمحے کو بھی چھوڑناقبول نہ تھا۔ کنوئیں کا پانی اسے رَچتا نہ تھا۔

اب کی ایک بات اور مٹرو نے کر ڈالی۔ اس نے جوار میں یہ خبر بھیج دی کہ جو چاہے جھائوں، سرکنڈے کاٹ کر لے جائے، زمیں داروں سے خریدنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ گنگا میا کی دولت پر سب کا برابر کا حق ہے۔

چاروں جانب سے کسانوں، مزدوروں اور غریبوں نے جٹ کر ہلا بول دیا۔ جسے دیکھو، وہی سر پر جھاؤں  یا سرکنڈے لیے بھاگا جا رہا ہے۔
زمیں داروں نے یہ سنا تو جل بھن کر رہ گئے۔ ہزاروں کے خسارے کا سوال ہی نہیں تھا، بلکہ ہر سال کی مستقل آمدنی کی مدبھی ختم ہونے جا رہی تھی۔ انہوں نے پولیس سے رائے لی کہ کیا کرنا چاہئے، لیکن پولیس نے انہیں چپ چاپ بیٹھے رہنے کی صلاح دی۔ اس وقت کچھ کرنے کا مطلب صرف مٹرو ہی سے بھڑنا نہ تھا، بلکہ ان ہزاروں لاکھوں کسانوں، مزدوروں اور غریبوں کا مقابلہ کرنا بھی تھا، جنہیں اس صورت حال میں فائدہ ہو رہا تھا۔ تھانے پر مشکل سے لگ بھگ ایک درجن بندوقیں ہوں گی۔ ان میں اتنی طاقت کہاں کہ ہزاروں لاکھوں لاٹھیوں کے مقابلے میں اٹھ سکیں۔ پھر جگہ ٹھہری ویران، ایک بار پھنس کر نکلنا ناممکن۔ اُن کا تو چپہ چپہ چھانا ہوا ہے۔ ہاں، ضلع سے گارد بلایا جا سکتی ہے۔ لیکن ایسا کرنے سے زمیں داروں کو جو نقصان ہوا سو تو ہوا ہی، اوپر سے گارد کے اخراجات بھی سر پر آ پڑیں گے۔ اس پر بھی کیا ٹھیک ہے کہ اجنبی گارد ہی وہاں آ کر کچھ کر لے گی۔ جنگل میں کہیں کسی کا پتہ لگا لینا کیا کھیل ہے؟ ابھی مٹرو کو چھیڑنا کسی بھی حالت میں ٹھیک نہیں۔ وقت آنے دو، پھر دیکھنا کہ کیسے لاٹھی بھی نہیں ٹوٹتی اور سانپ بھی مر جاتا ہے۔

کیا کرتے زمیندار؟کڑوا گھونٹ پی کر رہ گئے۔

ادھر مٹرو گھوم گھوم کر جنگل کٹوا رہا تھا۔ آج کسانوں کو یہ معلوم ہو گیا تھا کہ مٹرو جو کہتا ہے، وہی ٹھیک ہے۔ یہاں کسی کی زمینداری ومیداری نہیں ہے۔ ورنہ کیا زمیں داروں کے حمایتیوں کا کوئی بیٹا بھی یہاں دکھائی نہ دیتا؟ چاروں جانب’’گنگا میا کی جے‘‘ گونج رہی تھی۔ دریا کی لہریں کھلکھلاکر ہنسے جا رہی تھیں۔

اس سال ہزاروں کسانوں، مزدوروں اور غریبوں کی کٹیا پر نئی چھاجن ہو گئی اور سال بھر کے لئے لاون گھر میں آ گیا۔ مٹرو کو لوگ دل سے دعائیں دے رہے تھے۔

جیٹھ کی دسہرا آتے آتے ندی پھولنے لگی۔ پھر اب کے کچھ پہلے ہی اتنے زور سے بارش شروع ہو گئی کہ دن میں دو دو، تین تین بار مٹرو کو کٹیا ہٹانی پڑنے لگی۔ زوروں سے پانی بڑھا آ رہا تھا۔ گھنٹے میں دس دس، بیس بیس ہاتھ ڈبو دینا معمولی بات تھی۔

دن کی تو کوئی بات نہ تھی، لیکن رات کو مٹروسو نہ پاتا۔ ندی کا یہ حال، کون جانے کب کٹیا ڈوب جائے۔ مٹرو بیٹھے بیٹھے ٹکٹکی باندھے چمکتے پانی کی طرف دیکھا کرتا۔ اوپر بادل گرجتے، بجلی کڑکتی۔ نیچے دھاراؤں  کے چلنے کی بھیانک آوازیں گونجتی۔ رہ رہ کرکناروں کے ٹوٹ کر گرنے کا چھپاک چھپاک ہوتا رہتا۔ جھینگروں کی مانوس آوازیں اور مینڈکوں کی ٹرر ٹرر چاروں سمتوں میں مسلسل ایسے گونتی رہتی تھیں، جیسے ان میں مقابلہ چھڑا ہو۔ چاروں جانب چھائے گھنے اندھیرے میں کبھی ادھر تو کبھی اُدھر بھک سے کچھ جل اٹھتا۔ اور مٹرو بیٹھا بیٹھا گنگا میا کا یہ بھیانک روپ دیکھ کر سوچتا ہے کہ جو ماں پیار سے بھر کر بیٹے کو سینے دودھ پلاتی ہے، وہی کبھی غصہ ہوکر کیسے بیٹے کے گال پر تھپڑ بھی مار دیتی ہے۔

ساون چڑھتے چڑھتے مٹرو کی کٹیا کنارے ایک گاؤں کے پاس آ لگی۔ یہ دن مٹرو کوبری طرح کھلتے۔ اسے ایسا لگتا جیسے غصے میں آکر ماں کدھیڑتی جا رہی ہو اور دھمکی دے رہی ہو کہ’’اگر پکڑے گئے تو چھٹی کا دودھ یاد کرا دوں گی۔‘‘اسے تو کوار سے شروع ہونے والے دن اچھے لگتے، جب آگے آگے ماں بھاگتی ہوتی اور پیچھے پیچھے وہ پیار اور احترام سے ہاتھ پھیلائے اسے پکڑنے کو دوڑتا ہوتا کہ کب پکڑ لیں اور اس آنچل میں منہ چھپا کر، رو کر اس سے پوچھیں،’’ماں، اتنے دن تم ناراض کیوں رہی؟‘‘ ماں بیٹے کا یہ بھاگ دوڑ بھراکھیل ہر سال ہوتا ہے۔ کبھی ماں دوڑاتی، تو بیٹا بھاگتا، کبھی ماں بھاگتی تو بیٹا دوڑاتا۔ اس کھیل میں کتنا مزہ آتا تھا!

آخر ندی جب سمندر بن گئی اور کسی بھی کنارے مٹرو کیلئے جگہ نہ بچی، تو لاچار ہو، ماں کا دامن چھوڑکر، اسے رہائش کیلئے گاؤں کے کنارے کٹیا کھڑی کرنی پڑی۔ مہاجرت کے ان دنوں میں مٹرو آنکھوں میں آنسو بھرے راستے پر بیٹھا گھنٹوں ندی کے روپ میں پھیلتے ماں کے آنچل کو دیکھا کرتا۔ طوفانی رفتار سے دھارا بانسوں اچھلتی کودتی، قیامت کا شور کرتی بھاگتی جاتی۔ بیچ بیچ میں کہیں کہیں تھوڑا سا ابھر کر خاموش ہو جاتی۔ کہیں بھنور میں پھنس کر کسی درخت کا تنا اس طرح ناچنے لگتا، جیسے کوئی انگلیوں پر نچا رہا ہو۔ مٹرو کے من میں ایک بچے کی طرح خیال اٹھتا کہ وہ دھارا میں کودکر اسے چھین لے اور اپنی انگلیوں پر اسے نچاتا دھارا میںگھوماکرے۔ ماں کی طاقت سے بیٹے کی طاقت کیا کم ہے؟ کبھی کسی کٹیا کو بہتے جاتے دیکھتا، تو تڑپ کر کہتا،’’ماں، یہ تو نے کیا کیا؟ کسی بیٹے کا بسیرا اجاڑتے تجھے درد نہ لگا؟ ایسا غصہ بھی کیا، ماں؟‘‘

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

عامر صدیقی
لکھاری،ترجمہ نگار،افسانہ نگار،محقق۔۔۔ / مائکرو فکشنسٹ / مترجم/شاعر۔ پیدائش ۲۰ نومبر ۱۹۷۱ ؁ ء بمقام سکھر ، سندھ۔تعلیمی قابلیت ماسٹر، ابتدائی تعلیم سینٹ سیوئر سکھر،بعد ازاں کراچی سے حاصل کی، ادبی سفر کا آغاز ۱۹۹۲ ء ؁ میں اپنے ہی جاری کردہ رسالے سے کیا۔ ہندوپاک کے بیشتر رسائل میں تخلیقات کی اشاعت۔ آپ کا افسانوی مجموعہ اور شعری مجموعہ زیر ترتیب ہیں۔ علاوہ ازیں دیگرتراجم و مرتبہ نگارشات کی فہرست مندرجہ ذیل ہے : ۱۔ فرار (ہندی ناولٹ)۔۔۔رنجن گوسوامی ۲ ۔ ناٹ ایکیول ٹو لو(ہندی تجرباتی ناول)۔۔۔ سورج پرکاش ۳۔عباس سارنگ کی مختصرسندھی کہانیاں۔۔۔ ترجمہ: س ب کھوسو، (انتخاب و ترتیب) ۴۔کوکلا شاستر (ہندی کہانیوں کا مجموعہ ) ۔۔۔ سندیپ میل ۵۔آخری گیت اور دیگر افسانے۔۔۔ نینا پال۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۶ ۔ دیوی نانگرانی کی منتخب غزلیں۔۔۔( انتخاب/ اسکرپٹ کی تبدیلی) ۷۔ لالٹین(ہندی ناولٹ)۔۔۔ رام پرکاش اننت ۸۔دوڑ (ہندی ناولٹ)۔۔۔ ممتا کالیا ۹۔ دوجی میرا (ہندی کہانیوں کا مجموعہ ) ۔۔۔ سندیپ میل ۱۰ ۔سترہ رانڈے روڈ (ہندی ناول)۔۔۔ رویندر کالیا ۱۱۔ پچاس کی دہائی کی بہترین ہندی کہانیاں(۱۹۵۰ء تا ۱۹۶۰ء) ۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۱۲۔ ساٹھ کی دہائی کی بہترین ہندی کہانیاں(۱۹۶۰ء تا ۱۹۷۰ء) ۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۱۳۔ موہن راکیش کی بہترین کہانیاں (انتخاب و ترجمہ) ۱۴۔ دس سندھی کہانیاں۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۱۵۔ قصہ کوتاہ(ہندی ناول)۔۔۔اشوک اسفل ۱۶۔ ہند کہانی ۔۔۔۔جلد ایک ۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۱۷۔ ہند کہانی ۔۔۔۔جلد دوم۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۱۸۔ ہند کہانی ۔۔۔۔جلد سوم ۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۱۹۔ہند کہانی ۔۔۔۔جلد چہارم ۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۲۰۔ گنگا میا (ہندی ناول)۔۔۔ بھیرو پرساد گپتا ۲۱۔ پہچان (ہندی ناول)۔۔۔ انور سہیل ۲۲۔ سورج کا ساتواں گھوڑا(مختصرہندی ناول)۔۔۔ دھرم ویر بھارتی ۳۲ ۔بہترین سندھی کہانیاں۔۔۔ حصہ اول۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۲۴۔بہترین سندھی کہانیاں ۔۔۔ حصہ دوم۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۲۵۔سب رنگ۔۔۔۔ حصہ اول۔۔۔۔(مختلف زبانوں کی منتخب کہانیاں) ۲۶۔ سب رنگ۔۔۔۔ حصہ دوم۔۔۔۔(مختلف زبانوں کی منتخب کہانیاں) ۲۷۔ سب رنگ۔۔۔۔ حصہ سوم۔۔۔۔(مختلف زبانوں کی منتخب کہانیاں) ۲۸۔ دیس بیرانا(ہندی ناول)۔۔۔ سورج پرکاش ۲۹۔انورسہیل کی منتخب کہانیاں۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۳۰۔ تقسیم کہانی۔۔۔۔حصہ اول۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۳۱۔سورج پرکاش کی کہانیاں۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۳۲۔ذکیہ زبیری کی بہترین کہانیاں(انتخاب و ترجمہ) ۳۳۔سوشانت سپریہ کی کہانیاں۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۳۴۔منتخب پنجابی کہانیاں ۔۔۔۔حصہ اول۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۳۵۔منتخب پنجابی کہانیاں ۔۔۔۔حصہ دوم۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۳۶۔ سوال ابھی باقی ہے (کہانی مجموعہ)۔۔۔راکیش بھرامر ۳۷۔شوکت حسین شورو کی سندھی کہانیاں۔حصہ اول۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۳۸۔شوکت حسین شورو کی سندھی کہانیاں۔حصہ دوم۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۳۹۔شوکت حسین شورو کی سندھی کہانیاں۔حصہ سوم۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) تقسیم کہانی۔ حصہ دوم(زیرترتیب ) گناہوں کا دیوتا(زیرترتیب ) منتخب پنجابی کہانیاں حصہ سوم(زیرترتیب ) منتخب سندھی کہانیاں حصہ سوم(زیرترتیب ) کبیر کی کہانیاں(زیرترتیب )

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply