لما تقالون ما لا تفعلون۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

اِّن اللہ جمیل و یَحِب ُّ الجَمال

جو سوال میرے ذہن میں اکثر اٹھتا  ہے وہ یہ ہے کہ کیا وحدت الوجود اور وحدت الشہود قطبینی مجموعہ الضدین ہیں؟ ’’تذکرہ غوثیہ‘‘ میں وجود اور شہود کے مابین فرق کو اس طرح واضح کیا گیا ہے۔ ’’وجود یعنی ہستی حقیقی واحد ہے لیکن ایک ظاہرہ وجود ہے اور ایک باطن۔۔باطن وجود ایک نحو ہے جو جملہ عالم کے لیے بمنزلہ ایک جان کے ہے۔ اسی نور ِ باطن کا پرتو ظاہرہ وجود ہے جو ممکنات کی صورت میں نظر آتا ہے۔ ہر اسم و صفت و فعل کے  عالم ظاہر میں ہے، ان سب کی اصل وہی وصف ِ بطن ہے اور حقیقت اس کثرت کی وہی وحدت ِ صرف ہے۔ جیسے امواج کی حقیقت میں ذات دریا ہے۔ حاصل یہ کہ جملہ افراد ِ کائنات تجلیات ِ حق ہیں۔ سبحان الذی خلق الاشیاء  ہو عینھا ۔۔۔ اور اس کثرت اعتباری کا وجود اس وحدتِ حقیقت سے ہے۔ الحق محسوس و الحق معقول ۔ یہ خلاصہ وحدت الوجود کا ہے اور وحدت الشہود کا بیان یہ ہے کہ وجود ِ کائنات اور ظہور آثارو صفات مختلف و واحد ِ مطلق کی ذات و صفات کاظل و عکس ہے جو عدم میں منعکس ہو رہا ہے اور یہ ظِل عین صاحب ِظل نہیں ہے بلکہ محض ایک مثال ہے ۔ (ستیہ پال ا ٓنند)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔

کہو کہتے تو ہو ، لیکن
کبھی چلتے بھی ہو، اے آب و گِل کے خوشنما   پُتلے
تم اپنے د ل کی با توں پر؟
فقط یہ رمز پہچانو۔۔۔

(یقیناً خوب صورت ہے خدا، حسن و جمال و خوش نمائی چاہتا بھی ہے)

تمہاری رہنمائی کے لیے یہ قول تو موجود تھا، لیکن
نہ جانے کیوں ہمیں بد وضع شکلوں میں گھڑا تم نے
ہمیں سونے کے بچھڑوں ، ڈھور ڈنگر جیسے سینگوں سےسنوارا
بیلوں، گھوڑوں اور خنزیروں کی شکلوں میں
ہمیں پوجا

کہا تم نے
تمہارا ذہن موجوداتِ صوری سے مرتب ہے۔
یہ سالک ذہن کثرت کے مراتب سے
کبھی آگے نہیں بڑھتا
تمہارے ذہن کو تو شاہدِمقصود رب لم یزل کی شکل کی خاطر
عناصر سے مرتب (آب و باد و خاک و آتش ) کی ضرورت تھی۔

کہا تم نے ۔۔۔مگر شاید کہا سچ ہی
کہ تم اک ایشور کا
ان عناصر سے مرتب جسم سے عاری تصور کر نہیں سکتے
کہ لا یعنی ہے لا صورت
کہ صورت ہو تو معنی ہے وگرنہ اک ہیولٰہ  ہے

کہا تم نے، مگر سچ ہی کہا تم نے
تمہاری چشم ِ ظاہر بین معروضی تھی
موجودات کی خاطر

فقط اک سیدھا سادہ راستہ تھا جو تمہیں سوجھا
کہ موجودات میں اُس جلوہ ء  حق
ذات ِ باری کو عیاں دیکھو
کہ جو اسمائے حسنیٰ کا خزینہ ہے
کہ جو حسن ِِ مثالی ہے
کہ جو موہن ہے، سندر ہے
تمہارے ذہن کا یہ خوشنما پُتلا
منیر و دِلبر و دلکش۔۔۔۔یہی میں ہوں۔

Advertisements
julia rana solicitors

کہا تم نے
تو پھر اب کیا ضرورت ہے مجھےپتھر سے
لکڑی، دھات سے گھڑ کر بنانے کی ؟
اناالحق کا لگا کر ایک نعرہ اپنے اندر ہی مجھے دیکھو
۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک وضاحتی نوٹ۔اہل ہنود کے کئی طبقے، مثلاً شمالی ہند میں آریہ سماج، مورتی پوجا (بُت پرستی) کودرست تسلیم نہیں کرتے

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply