گنگا میّا۔۔بھیرو پرسادگپت(5)۔۔ہندی سے ترجمہ :عامر صدیقی

بستی کی ہوا اسے اچھی نہ لگتی، جیسے ہرپل اسکا دم گھٹتا رہتا۔ جنگلی پھول کی طرح بستی میں مرجھایا مرجھایا سا رہتا۔ تمام وقت اس میدان، اس صاف ہوا، اس نرم مٹی، اس مفت دھوپ اور اسکی محبت کیلئے اسکا تڑپتا رہتا۔ کبھی تو وہ اتنا گھبراتا کہ اس کے جی میں آتا کہ اچانک ہی کود پڑے اور اتنا تیرے کہ تن من ٹھنڈا ہو جائے اور پھر دھاراؤں  کی سیج پر ہی سو جائے۔ لیکن تبھی اسے اپنی پیاری بیوی اور ننھے منے بچوں کی یاد آ جاتی اور وہ جانے کیسا من کیلئے کنارے پر سے اٹھ جاتا۔ اس وقت اسے ایسا لگتا کہ کہیں وہاں بیٹھے رہ کر سچ مچ وہ کود نہ پڑے۔

ان دنوں کبھی کبھی بہت اصرار پر وہ سسرال جاتا، تو ایک آدھ رات سے زیادہ نہ رہ پاتا۔ اسے لگتا جیسے ماں اسے پکار رہی ہو۔ وہ لوٹ کر جب تک گھنٹوں دھارا میں نہ لوٹ لیتا، اسے  چین نہ ملتا۔

اس رات کنارے پر بیٹھے بیٹھے اس کی پلکیں جب جھپکنے لگیں، تو اٹھ کر وہ کٹیا کے دروازے پر پڑی پتلوں کی چٹائی پر لیٹ گیا۔ بڑی سہانی، ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ دھارائیں جیسے لوری گا رہی تھیں اور الّو رہ رہ کر تال دے رہے تھے۔ مٹرو کو بڑی میٹھی نیند آ گئی۔

نیند میں ہی اچانک اسے ایسا لگا، گویا چھاتی پر منوں بوجھ اچانک آ پڑا ہو۔ اس نے کسمساکر آنکھیں کھولیں تو سینے پر ٹارچ کی روشنیوں میں دو جوانوں کو چڑھا پایا۔ ہاتھوں کا سہارا لے وہ زور لگا کر اٹھنے کو ہوا، تو زنجیریں جھنجھنا اٹھیں۔ معلوم ہوا کہ ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔ گھبرا کر اس نے ادھر ادھر دیکھا، تو چاروں جانب بھالے سے لیس کانسٹیبل دکھائی پڑے۔ اس کی سمجھ میں سب آ گیا۔ غصے اور نفرت سے کانپتا وہ دانت پیس کر رہ گیا۔

جب سے وہ کگار کی بستی میں آیا تھا، پولیس اس کے پیچھے کھڑی تھی۔ آج موقع پاکر اس نے اسے دبوچ لیا تھا۔ رات ہی رات مٹرو کو ہتھکڑی بیڑی ڈال کر ضلع کی حوالات میں پہنچا دیا گیا اور گاؤں والوں پر اتنی سختی کی گئی کہ کوئی چوں تک نہ کر سکا۔

رپٹ مقدمہ، گُرگواہی، سب کچھ پہلے ہی سے تیار تھا۔ مٹرو کے سسر خبر لینے تھانے پر پہنچے، تو انہیں معلوم ہوا کہ مٹرو ڈاکے کے جرم میں گرفتار ہوا ہے۔ پولیس نے مٹرو کی کٹیا میں چھاپہ مار کر جو زیور مال برآمد کئے ہیں، وہ جنداپور کے زمیں دار نتھنی سنگھ کے ہیں، ایک ایک چیز پہچان لی گئی ہے۔ جلد ہی کچہری میں مقدمہ چلے گا۔ استغاثہ تیار ہو رہا ہے۔

جس نے یہ سنا، آنکھیں پھاڑکر رہ گیا،کوئی دکھ سے، تو کوئی حیرت سے۔ لیکن اس دوران جوار میں پولیس کی سختی اتنی بڑھا دی گئی تھی کہ کسی کی ہمت پولیس یا زمیندار کے خلاف ایک بات بھی زبان پر لانے کی نہ ہوئی۔ شور یہ مچایا گیا کہ مٹرو سردار کے گروہ کے قریب پچاس ڈاکو فرار ہیں۔ پولیس ان کی گرفتاری کے لئے سرگرمی سے دوڑ لگا رہی ہے۔ دوسرے تیسرے دن یہ بھی افواہ بھی گاؤں میں پھیل جاتی کہ آج دو ڈاکو گرفتار ہوئے، تو آج تین۔ ایک عجب ہنگامہ مچا دیا پولیس نے چاروں طرف۔

مہینوںرچ رچ کر تمام حربوںہتھیار وںکے ساتھ جو مقدمہ تیار کیا گیا تھا، اس میں بال کی کھال نکالنے پر بھی کوئی نقص نکال لینا مشکل تھا۔ پھر چھوٹے سے لے کر ضلع کے بڑے بڑے افسران تک کی مٹھیاں اتنی گرما دی گئی تھیں کہ سب کے سب کچھ بھی کھڑے کا کھڑا نگل جانے کو تیار تھے۔

ڈپٹی صاحب کی کچہری سے ہوکر مقدمہ سیشن کے سپرد ہوا۔ سالے اور سسر سے جو بھی کرتے بنا، انہوں نے کیا۔ لیکن نتیجہ وہی نکلا جو پہلے ہی سیل مہر میں بند کرکے رکھ دیا گیا تھا۔

مٹرو کو تین سال کی سخت سزا ہو گئی اور تین دن کے اندر ہی رات کی گاڑی سے بنارس ضلع جیل کو اس کاچالان بھیج دیا گیا۔

چھ

بھابھی کی زندگی ایک خاموشی بھری زندگی بن گئی۔

کلیجے میں شوہرکی چبھتی ہوئی یادیں دبائے ،وہ رات دن خود کو کسی نہ کسی کام میں مصروف رکھتی۔ آنکھوں سے ٹپ ٹپ خون کے آنسو ٹپکا کرتے اور ہاتھ کام کرتے رہتے۔ ساس سسر خاموشی سے سب دیکھتے! ایک بات بھی ان کے منہ سے نہ نکلتی۔ ایسی بیوہ کیلئے تسلی کی کونسی بات کہیں؟ کوئی بچہ ہوتا، تو اس کا منہ ہی دیکھ کر اسے جینے کی، صبر کرنے کی، بات کہی جاتی۔ یہاں تو وہ بھی حیلہ بھی نہ تھا، کوئی کیا کہتا؟ ایسی بیوہ کی زندگی ایک ٹھونٹھ کی ہی طرح ہوتی ہے، جس پر کبھی ہریالی نہیں آنے کی، کبھی پھل پھول نہیں لگنے کے، بیکار، بالکل بیکار، زمین کا بیکار بوجھ! ہاں، ٹھونٹھ کا صرف ایک استعمال ہے۔ اسے کاٹ کر لاون میں جلا دیا جاتا ہے، گرہست جیون میں شاید ایسی بیوہ کا استعمال لاون کی ہی طرح ہے، زندگی بھر جلتے رہنا، جل کر گرہستی کی خدمت کرنا، جس خدمت کے پھل کا مزہ دوسرے لوٹیں اور خود وہ راکھ ہو کر رہ جائے ۔

یہی حال بھابھی کا تھا۔ وہ سب کام کرتی۔ بوڑھی ساس کونے میں بیٹھی اپنے بیٹوں کو بسور بسور کر رات دن رویا کرتی۔ اپاہج سسر کے دل دماغ کو اچانک ایک پر دوسری پڑی بپتائوں کی وجہ سے لقوہ مار گیا تھا۔ وہ گہری ذہنی اذیت میں ڈوبے رہتے،یہ کیا ہو گیا؟ کیا تھا اور کیا ہو گیا؟ انہیں جب اپنا ہرا بھرا چمن یاد آتا، تو چپکے چپکے ہی کڑھنے لگتے وہ ۔۔۔آہ، آہ رام! تو نے یہ کیا کر دیا! ایسا کون سا گناہ میں نے کیا تھا، جو یہ دن دکھایا؟

کبھی کبھی ایسا ہوتا کہ تینوں لوگ ایک دوسرے کو تسلی دینے جمع ہو جاتے۔ اور پھر باتوں ہی باتوں میں جانے کیا ہو جاتا کہ تینوں ایک ساتھ ہی شرمندگی اورلحاظ چھوڑکر رونے لگتے، ایک دوسرے سے لپٹ جاتے۔ مشترکہ درد کی تڑپ جیسے انہیں ایک کر دیتی۔ اس وقت پاس پڑوس کے عورت مرد جمع ہو کر انہیں سمجھا بجھا کر زبردستی الگ کرتے اور آنسو پونچھ کر خاموش کراتے۔ پھر سب کچھ مسان کی طرح شانت ہو جاتا۔ جیسے وہاں کوئی زندہ آدمی ہی نہ رہتا ہو۔ درد کی موجودگی اندر اندر ہی خون سکھاتی رہتی۔ لیکن ہونٹ نہ ہلتے۔ لوگ وہاں سے جانے لگتے، تو ان کی سانسیں بھی آہ بن جاتیں۔ اوہ، کیا تھا اور کیا ہو گیا؟ بیچارہ گوپی چھوٹ کر آ جاتا، تو انہیں کچھ ڈھارس بندھتی۔

بھابھی کو کبھی ٹھیک طرح سے نیند نہ آتی۔ کبھی جھپکی آ جاتی، تو جیسے کوئی خوفناک خواب دیکھ کرچونک اٹھتی اور چپکے چپکے رونے لگتی۔ ایک ایک یاد ابھرتی اور ایک ایک ہوک اٹھتی۔ رات کا سناٹا اور اندھیرا جیسے پوری تاریخ کھول دیتے۔ بھابھی بے چین ہو ہو کروٹیں بدلتی اور ایک ایک ورق الٹتا جاتا۔ آخر جب برداشت نہ ہو پاتا، تو اٹھ کر باورچی خانے کے برتن باسن اٹھاتی اور آنگن میں لا کر مانجنے دھونے لگتی۔ ساس برتنوں کا بجنا سنتی، تو سوئے سوئے ہی بولتی،’’ارے بہو، ابھی سے اٹھ گئی؟ ابھی تو بڑی رات معلوم دیتی ہے۔ سو جا، ابھی سوجا۔‘‘

بھابھی گلا صاف کرکے کہتی،’’کہاں رات ہے اب؟اجالا اگ آیاہے اماں جی!‘‘

’’ ابھی میری ایک بھی نیند پوری نہیں ہوئی ہے اور تو کہتی ہے کہ اجالا اگ گیا ہے؟ سو جا، بہو، سوجا، کون کھانے پینے والا ہے، جو اسی وقت برتن بھاڑا لے کر بیٹھ گئی؟ سو جا، بہو، سوجا۔‘‘

بھابھی کوئی جواب نہ دیتی۔ ساس رک رک کر کروٹ بدلتی اور بڑبڑاتی،’’اے رام، اے رام!‘‘ اور نیند میں غوطہ لگا جاتی۔

دھیرے دھیرے بغیر کوئی آوازنکالے بھابھی برتن مانجھ دھوکر اٹھتی، آہستہ آہستہ چوکا لگاتی۔ پھر نہاکرکے کپڑے بدلتی اور ٹھاکر گھر صاف کرکے،دیپ جلاتی، مورتی کے سامنے بیٹھ کر، رامائن کھول کر ہونٹوں ہی میں ہل ہل کر پڑھنے لگتی۔ اس کی سمجھ میں کچھ نہ آتا۔ وہ پڑھی لکھی بالکل نہیں تھی۔ بچپن میں ایک دو مہینوں کیلئے بھائی کے ساتھ کھیل کھیل میں اسکول گئی تھی۔ اسی دوران کھیل کھیل میں اس نے حروف تہجی اور گنتی سیکھ لی تھی۔ پھر ماں نے اسے اسکول جانے سے روک دیا تھا۔لڑکیوں کو پڑھنے لکھنے کی بھلا کیا ضرورت ہے؟ پھر سب کچھ بھول گئی۔ اب، جب وقت کاٹے نہ کٹتا، تو اس نے پھر سالوں بعد اس حروف تہجی کو آہستہ آہستہ تازہ کیا۔ گھر میں رامائن کے سوا اور کوئی کتاب نہ تھی۔ وہ اسی پر عمل کرنے لگی۔ ایک ایک چوپائی میں اس کے منٹوں گزر جاتے۔ حر ف حر ف ملا کر وہ لفظ بناتی۔ پھر کئی بار دہراکر آگے بڑھتی۔ پھر دو الفاظ کو کئی بار دہراکر آگے بڑھتی۔ اس طرح ایک چرن ختم کر کے وہ اسے بیسوں بار دہراتی۔

اس میں وقت کاٹنے کے ساتھ ہی، کچھ بھی نہ سمجھتے ہوئے بھی، اسے ایک روحانی خوشی اور تسلی ملتی۔ اس کا خیال تھا کہ آہستہ آہستہ مشق ہو جانے پر وقت کاٹنے کا ایک اچھا ذریعہ بن جائے گا۔ دکھی لوگوں کیلئے وقت کاٹنے کے مسئلے سے بڑھ کر کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ اور وہ تو ایسی دکھی تھی، جسے ساری زندگی ہی اسی طرح کاٹنا تھا۔ بیوہ کی زندگی میں خوشیوں کے ایک لمحے کابھی تصور کیسے کیا جا سکتا ہے؟

صبح ساس سسر کے اٹھنے سے پہلے ہی وہ سارا گھر بُہارکر صاف کر لیتی؟ ہلوایا آتا، تو اس سے بھینس دُہواتی، اسکی ناندوں میں ڈالنے کیلئے بھوسا گھر سے بھوسا نکال کر دیتی۔ پھر ضروری سامان دے کر اسے کھیت پر بھیج دیتی۔ پرانا ہلوایا بڑا ہی نمک حلال تھا۔ اسی پر آج کل پوری کھیتی کابوجھ چھوڑ دیا گیا تھا۔ گھر کے آدمی کی طرح وہی سب کچھ کرتا اور بھابھی کو پورا پورا حساب دیتا۔

سسر کی نیند کھلتی، تو وہ بہو کو پکارتے۔ بھابھی جلدی جلدی آگ تیار کرکے حقہ بھر کر ان کے ہاتھ میں تھما آتی۔ ساس نے کچھ اس طرح بدن چھوڑ دیا تھا کہ بھابھی کو سسر کے تمام کام سبھی لاج شرم چھوڑکر کرنے پڑتے تھے۔

چارپائی پر ہی وہ ان کے ہاتھ منہ دھلاتی، دودھ گرم کرکے پلاتی۔ پھر حقہ تازہ کرکے ان کے ہاتھ میں دیتی، دوا کی مالش کرنے لگتی۔ سسر حقہ گڑگڑاتے رہتے۔ کہیں کسی جوڑ پر بہو کا ہاتھ ذرا زور سے لگ جاتا، تو چیخ کر کہتے،’’ارے بہو، سنبھال کرمل! اوہ، آہ!‘‘

پھر وہ گھر کے کام میں لگ جاتی۔ پھٹکنے پچھوڑنے،کوٹنے پیسنے سے لے کر کھلانے پلانے تک کے تمام کام وہ کرتی۔ ساس بسور بسورکر کسی کونے میں بیٹھی روتی رہتی یا ٹکر ٹکر بہو کو کام کرتے دیکھا کرتی۔

بھابھی اب پہلے سی بھابھی نہیں رہ گئی-نہ وہ روپ، نہ رنگ، نہ وہ جوانی، نہ وہ بدن۔ اب تو وہ جیسے پہلے کی بھابھی کی ایک چلتی پھرتی پرچھائیں رہ گئی تھی۔ دبلی پتلی،سوکھا بدن، بے آب زرد چہرہ، اداس، آنسوؤں میں ہمیشہ تیرتی سی آنکھیں، مرجھائے پتھریلے ہونٹ، روئیں روئیں سے جیسے ہمدردی ٹپک رہی ہو، ایک زندگی کی طرح مردہ تصویر ہو، یا جیسے ایک مردہ زندہ ہوکر چل پھر رہا ہو۔

ہائے، وہ کیوں زندہ ہے؟ آہ، اس کے بھی جان انہی کے ساتھ کیوں نہ نکل گئی! بہن نے کیسا کام کیا تھا کہ اسے بھگوان نے بلا لیا! ہائے، وہ کیسی مہاپاپن ہے کہ نرک جھیلنے کو رہ گئی؟ اس نرک سے وہ کب نکلے گی، اس اذیت سے آخر کب چھٹکارا ملے گا؟

مہینوں بعد درد کی برساتی دھارا ،جب آہستہ آہستہ دھیمی ہوکر خاموش ہوئی اور جب بھابھی آہستہ آہستہ سب کچھ کرنے سہنے کی عادت ہو گئی، تو اس کی زندگی کی بے ثمری اورلامتناہی مایوسی ،کے جوروح کے چور چور ہو جانے سے آئی تھی، اسکے ڈنک بھی کند ہونے لگے۔ اب بھابھی کبھی کبھار کچھ سوچتی تھی، اب کبھی کبھی اس کے دل میں زندگی کے ان خوشیوں کے شگوفے پھر ابھرتے ہوئے محسوس ہوتے، جنہیں ایک بار وہ اپنی زندگی میں پھل پھول سے لدے دیکھ چکی تھی۔ شوہر کی یاد سے بھی اب کبھی کبھار اس کے من میں انہی کومل جذبات کااظہار ہوتا، جو اس کے ساتھ رہنے میں اسے ملے تھے۔ اب بار بار اس کے دل کے سات پردوں میں دبے مقام سے سوال اٹھتا،’’کیا زندگی میں وہ دن پھر کبھی نہیں آئیں گے؟ کیا وہ سکھ پھر کبھی نہ ملے گا؟ وہ، وہ ۔۔۔‘‘اور اس کے منہ سے ایک دبی ہوئی ٹھنڈی سانس نکل جاتی۔ جان میں جانے کیسی اینٹھ اور درد محسوس ہوتا۔ وہ کچھ پریشان سی ہو اٹھتی کاش ۔۔۔

ایسے موقع پر جانے کیسے اس کا دھیان اپنے دیور کی طرف چلا جاتا۔ وہ سوچتی کہ اس کی حالت بھی تو ٹھیک اسی کی جیسی ہو گی۔ اسکی بھی تو خوشیوں بھری دنیا اسی کی طرح اجڑگئی۔ اس کے دل میں بھی تو آج ٹھیک اسی کی طرح کے جذبات اٹھتے ہوں گے۔ وہ بھی تو اسی کی طرح تڑپتاہوگا کہ کاش ۔۔۔

اور تبھی جیسے کوئی اس سے کہہ جاتا،’’وہ تو مرد ہے۔ جیسے ہی وہ جیل سے لوٹے گا، اس کا دوسرا بیاہ ہو جائے گا اور پھر اس کی ایک نئی زندگی شروع ہوگی، جس میں پہلے ہی سا سکھ ۔۔۔‘‘

اور وہ متنفر ہو اٹھتی۔ اس کے ہونٹ چپک سے جاتے، جیسے اس میں ایک نفرت، ایک ناراضگی بھراکا تاثر ہو اور یہ سوال اسکی روح کی تڑپ میں لپٹ کر اٹھ پڑتا ہو،’’ایسا کیوں، ایسا کیوں ہوتا ہے؟ یہ فرق کیوں؟ کیوں ایک کو اپنی اجڑی دنیا کو گلے سے لپٹائے پل پل جل کر راکھ ہو جانے پر مجبور ہونا پڑتا ہے اور دوسرے کو اپنی اجڑی ہوئی دنیا دوبارہ بساکر سکھ چین سے زندگی گزارنے کا حق حاصل ہے؟‘‘

اور وہ تلملا اٹھتی؟ نہیں، ایسا نہیں ہونا چاہئے، ہرگز نہیں! اسے بھی حق ہونا چاہئے کہ ۔۔۔

یہ کیسی باتیں اٹھنے لگی ہیں من میں؟ بھابھی کو جب ہوش آتا، تو اسے خود پر حیرت ہوتی۔ ابھی کل کی ہی تو بات ہے کہ شوہر کے سوگ میں تڑپ کر وہ مر جانا چاہتی تھی۔ لیکن آج، آج یہ کیا ہو رہا ہے کہ وہ ایک دم بدل گئی ہے، ایسی ایسی باتیں سوچ رہی ہے، ایسے ایسے خیالات ذہن میں اٹھتے ہیں، ایسی ایسی خواہشیں اندر سر اٹھا رہی ہیں اور وہ ابھی کل کی ہی اپنی ذہنی حالت کی بات سوچ کر خود ہی کے سامنے آج شرمندہ ہو اٹھتی ہے۔ کہیں کسی کو آج اس کے دل میں اٹھنے والے جذبات معلوم ہو جائیں تو؟ نہیں، نہیں، نہیں! لوگ کیا کہیں گے؟ لوگ اسے کتنی گنہگار سمجھیں گے؟ لوگ اسے کیا کیا طعنے دیں گے کہ شوہر کو مرے ابھی دو تین سال بھی نہ ہوئے اور یہ کلموہی ایسی ایسی باتیں سوچنے لگی! یہ بیوگی بھری زندگی کی پاکیزگی آگے کیا قائم رکھ سکتی ہے؟ اوہ، زمانہ کتنا بگڑ گیا ہے۔ دیکھو نہ، کل کی بیوہ آج ۔۔۔

اور وہ مجبوری اوربے حاصلی سے تڑپ اٹھتی۔ وہ اپنے اس دل کو کیا کرے؟ وہ کیسے ان ناپاک جذبات کو دبائے۔ وہ ٹھاکر گھر میں آج کل پرارتھنا کرتی ہے،’’بھگوان، مجھے طاقت دے کہ میں رِیت پر قائم رہوں!من میں اٹھتے ناپاک جذبات پر قابو پا سکوں! بیوگی کی زندگی پر کلنک نہ لگنے دوں!‘‘ لیکن بھگوان سے اسے وہ طاقت نہیں مل رہی تھی۔ دماغ ہرن کی طرح جب تب چھلانگیں مارنے لگتا۔ وہ مجبور ہوکر شوہر کو یاد کرتی۔ سوچتی کہ جب تک ان کی یاد باقی رہے گی، وہ نہ ڈگمگائے گی۔ لیکن اب اُنکی یاد بھی دھندلی پڑتی جا رہی تھی۔ بہت کوشش کرتے ہوئے بھی وہ بہت دیر تک ان یادوں میں نہ گزار پاتی۔ نہ جانے کب یادیں اپناروپ بدل دیتیں! درد پیدا کرنے والی یادیں، ان بیتی خوشیوں کویاد دلانے والی بن جاتیں، جو اسے اپنے شوہر سے ملی تھیں۔ اور پھر ان خوشیوں کو یاد کر کے انہیں دوبارہ حاصل کرنے کی چاہ دل میں نمودار ہوجاتی۔بالآخر ایک میٹھی کپکپی سے بدن بھرجاتا۔ اور جب اسے اس کا خیال آتا، تو وہ خود کو سمجھانے لگتی۔ اس طرح ایک عجیب پراسراردوہراپن اسکے دل میں بس گیا۔ اور وہ جان بوجھ کر بھی اسکاتجربہ کرتی رہی کہ کون سا فریق جیت رہا ہے، اورکون سا ہار رہا ہے۔

اب پہلی سی حالت اس کی نہ رہی تھی۔ اب گھر میں کام کاج، ساس سسر کی خدمت میں اس کی وہ دلچسپی نہ دکھتی تھی۔ اب جیسے وہ سب بجھے من سے کرتی، اب کبھی کبھی ساس کسی کام میں دیر ہونے پر اسے ڈانٹتی، تو وہ جواب بھی دے دیتی،’’دو ہی ہاتھ ہیں میرے! کیوں نہیں تم ہی کر لیتیں؟ لونڈی کی طرح رات دن توگھس رہی ہوں! پھر بھی یہ نہیں ہوا، وہ نہیں ہوا! سنتے سنتے میرے کان پک گئے۔۔۔‘‘

ساس سنتی، تو بڑبڑانے لگتی۔ اناپ شناپ جو بھی منہ میں آتا، کہہ جاتی۔ بھابھی میں اب بھی اس سے زبان لڑانے کی ہمت نہ تھی۔ پھر بھی منہ ہی منہ میں بڑبڑانے سے اب وہ بھی باز نہ آتی۔

آہستہ آہستہ دونوں پریشان ہو گئیں اور جھلا جھلاکر باتیں کرنے لگیں۔ ایک دکھ بھرا سناٹا، جو اتنے دنوں گھر میں چھایا رہا تھا، وہ اب ختم ہو گیا۔ اب تو محلے والو ںکے کانوں تک بھی اس گھر کی باتیں پہنچنے لگیں۔ یہ باتیں دو مایوس، بیمارزندگیوں کی تھی،تنک مزاجی، غصے، بے چینی اور چڑچڑے پن سے بھری۔

ایک دن صبح بھوسا گھر سے کھانچی میں بھوسا نکال کر دالان میں کھڑے ہلواہے کو دینے بھابھی آئی تو کھانچی ہاتھ میں لیتے ہوئے ہلواہے نے کہا،’’چھوٹی مالکن، کئی دنوں سے ایک بات کہنے کو جی ہوتا ہے، برا تو نہ مانیں گی؟‘‘

کپڑے پر پڑے بھوسے کے تنکوں کو صاف کرتے ہوئے بھابھی بولی،’’کیا بات ہے؟ تجھے کچھ چاہئے؟‘‘

’’ نہیں، مالکن۔‘‘ ہلواہے نے آنکھوں میں ننگاپن اور ہونٹوں پر سچا موہ لاکر، بڑی ہی ہمدردی کے لہجے میں کہا،’’مالکن، آپ کا بدن دیکھ کر مجھے بڑا دکھ ہوتا ہے! ابھی آپ کی عمر ہی کیا ہے؟ اسی عمر سے اس طرح آپ کی زندگی کیسے کٹے گی؟ اتنے ہی دنوں میں آپ کا سونے کے سا بدن کیسے مٹی ہوگیا؟ مالکن، آپ کو اس روپ میں دیکھ کر مجھے بڑا دکھ ہوتا ہے!‘‘ کہتے کہتے ایسا لگا کہ وہ رو دے گا۔

بھابھی کے چہرے کے اداس سائے اور بھی گہرے ہو گئے۔ وہ بولی،’’کیا کریں، بلرا، قسمت کے آگے کس کا بس چلتا ہے؟ بیوگی نے سیندور مٹا دیا، کرم پھوڑ دیا، تو اب اس طرح رو دھو کر ہی تو زندگی کاٹنی ہے۔ تو دکھ کاہے کو کرتا ہے؟ جنم کا ساتھی کون ہوتا ہے؟ جب موت سے ہی میرا سکھ نہ دیکھا گیا، تو ۔۔۔‘‘وہ آنکھوں پر آنچل رکھتے ہوئے سسک پڑی۔

ایک ٹھنڈی سانس لے کر بلرا بولا،’’یہ کیسا رواج ہے مالکن، آپکی برادری کا؟ اس معاملے میں تو ہماری ہی برادری بہترہے ،جس میں کوئی بیوہ اس طرح اپنی زندگی خراب کرنے پر مجبور نہیں۔ میری ہی دیکھئے نہ۔ بھیا، بھابھی کو چھوڑکر گزر گئے، تو بھوجی کا بیاہ مجھ سے ہو گیا۔ مزے سے زندگی کٹ رہی ہے۔ اور آپ اونچی برادری میں کیا پیدا ہوئیں کہ آپکی زندگی ہی خراب ہو گئی ۔۔۔کیا کہوں مالکن،من میں اٹھتا تو ہے کہ چھوٹے مالک سے اگر آپ ؎ کابیاہ ہو جاتا ۔۔۔‘‘

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

عامر صدیقی
لکھاری،ترجمہ نگار،افسانہ نگار،محقق۔۔۔ / مائکرو فکشنسٹ / مترجم/شاعر۔ پیدائش ۲۰ نومبر ۱۹۷۱ ؁ ء بمقام سکھر ، سندھ۔تعلیمی قابلیت ماسٹر، ابتدائی تعلیم سینٹ سیوئر سکھر،بعد ازاں کراچی سے حاصل کی، ادبی سفر کا آغاز ۱۹۹۲ ء ؁ میں اپنے ہی جاری کردہ رسالے سے کیا۔ ہندوپاک کے بیشتر رسائل میں تخلیقات کی اشاعت۔ آپ کا افسانوی مجموعہ اور شعری مجموعہ زیر ترتیب ہیں۔ علاوہ ازیں دیگرتراجم و مرتبہ نگارشات کی فہرست مندرجہ ذیل ہے : ۱۔ فرار (ہندی ناولٹ)۔۔۔رنجن گوسوامی ۲ ۔ ناٹ ایکیول ٹو لو(ہندی تجرباتی ناول)۔۔۔ سورج پرکاش ۳۔عباس سارنگ کی مختصرسندھی کہانیاں۔۔۔ ترجمہ: س ب کھوسو، (انتخاب و ترتیب) ۴۔کوکلا شاستر (ہندی کہانیوں کا مجموعہ ) ۔۔۔ سندیپ میل ۵۔آخری گیت اور دیگر افسانے۔۔۔ نینا پال۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۶ ۔ دیوی نانگرانی کی منتخب غزلیں۔۔۔( انتخاب/ اسکرپٹ کی تبدیلی) ۷۔ لالٹین(ہندی ناولٹ)۔۔۔ رام پرکاش اننت ۸۔دوڑ (ہندی ناولٹ)۔۔۔ ممتا کالیا ۹۔ دوجی میرا (ہندی کہانیوں کا مجموعہ ) ۔۔۔ سندیپ میل ۱۰ ۔سترہ رانڈے روڈ (ہندی ناول)۔۔۔ رویندر کالیا ۱۱۔ پچاس کی دہائی کی بہترین ہندی کہانیاں(۱۹۵۰ء تا ۱۹۶۰ء) ۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۱۲۔ ساٹھ کی دہائی کی بہترین ہندی کہانیاں(۱۹۶۰ء تا ۱۹۷۰ء) ۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۱۳۔ موہن راکیش کی بہترین کہانیاں (انتخاب و ترجمہ) ۱۴۔ دس سندھی کہانیاں۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۱۵۔ قصہ کوتاہ(ہندی ناول)۔۔۔اشوک اسفل ۱۶۔ ہند کہانی ۔۔۔۔جلد ایک ۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۱۷۔ ہند کہانی ۔۔۔۔جلد دوم۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۱۸۔ ہند کہانی ۔۔۔۔جلد سوم ۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۱۹۔ہند کہانی ۔۔۔۔جلد چہارم ۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۲۰۔ گنگا میا (ہندی ناول)۔۔۔ بھیرو پرساد گپتا ۲۱۔ پہچان (ہندی ناول)۔۔۔ انور سہیل ۲۲۔ سورج کا ساتواں گھوڑا(مختصرہندی ناول)۔۔۔ دھرم ویر بھارتی ۳۲ ۔بہترین سندھی کہانیاں۔۔۔ حصہ اول۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۲۴۔بہترین سندھی کہانیاں ۔۔۔ حصہ دوم۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۲۵۔سب رنگ۔۔۔۔ حصہ اول۔۔۔۔(مختلف زبانوں کی منتخب کہانیاں) ۲۶۔ سب رنگ۔۔۔۔ حصہ دوم۔۔۔۔(مختلف زبانوں کی منتخب کہانیاں) ۲۷۔ سب رنگ۔۔۔۔ حصہ سوم۔۔۔۔(مختلف زبانوں کی منتخب کہانیاں) ۲۸۔ دیس بیرانا(ہندی ناول)۔۔۔ سورج پرکاش ۲۹۔انورسہیل کی منتخب کہانیاں۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۳۰۔ تقسیم کہانی۔۔۔۔حصہ اول۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۳۱۔سورج پرکاش کی کہانیاں۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۳۲۔ذکیہ زبیری کی بہترین کہانیاں(انتخاب و ترجمہ) ۳۳۔سوشانت سپریہ کی کہانیاں۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۳۴۔منتخب پنجابی کہانیاں ۔۔۔۔حصہ اول۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۳۵۔منتخب پنجابی کہانیاں ۔۔۔۔حصہ دوم۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۳۶۔ سوال ابھی باقی ہے (کہانی مجموعہ)۔۔۔راکیش بھرامر ۳۷۔شوکت حسین شورو کی سندھی کہانیاں۔حصہ اول۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۳۸۔شوکت حسین شورو کی سندھی کہانیاں۔حصہ دوم۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۳۹۔شوکت حسین شورو کی سندھی کہانیاں۔حصہ سوم۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) تقسیم کہانی۔ حصہ دوم(زیرترتیب ) گناہوں کا دیوتا(زیرترتیب ) منتخب پنجابی کہانیاں حصہ سوم(زیرترتیب ) منتخب سندھی کہانیاں حصہ سوم(زیرترتیب ) کبیر کی کہانیاں(زیرترتیب )

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply