گنگا میّا۔۔بھیرو پرسادگپت(3)۔۔ہندی سے ترجمہ :عامر صدیقی

چار

پِتا جی اب سچ مچ بوڑھے ہو گئے۔ دونوں بیٹے کیا ان سے بچھڑ گئے، ان کے دونوں ہاتھ ہی ٹوٹ گئے! دل کے سارے رس کو درد کی آگ نے جلا دیا۔ کوئی جوش و خروش، امید نہیں رہ گئی ان کی زندگی میں۔ بہوؤں کا درد دیکھ کر وہ آٹھوں پہر کڑھتے رہتے۔ کھانا پینا، کام دھام کچھ اچھا نہ لگتا۔ بہوؤں کا بڑا بھائی آکر کھیتی، گرہستی کا بھی انتظام کر جاتا۔

ماں کا حال بھی بے حال تھا۔ بیٹھی بیٹھی وہ آنسو بہاتی رہتی یا اپنے لالوں کو یاد کرکرکے سسکتی رہتی۔ چھوٹی بہو کے دل میں جو ایک بارتر شول چبھا، تو اس کا چین ہمیشہ کیلئے ختم ہو گیا۔ وہ بڑی ہی کومل اور جذباتی مزاج کی تھی۔ دنیا کے دکھوں اورپریشانیوںکا اسے کوئی تجربہ نہ تھا۔ دفعتاً جو آفت کا پہاڑ اس کے سر پر آ گرا، تو وہ اس میں دب دباکر چور چور ہو کر رہ گئی۔ اس نے چارپائی پکڑ لی۔ کھانا پینا چھوڑ دیا، دن بدن سوکھنے لگی۔ ساس سسر اپنے دکھوں کو پی کر اسے سمجھاتے، بھائی اور دوسری عورتیں اسے خودکو سنبھالنے کو کہتے، لیکن جیسے اس کے کانوں میں کسی کی بات ہی نہ پڑتی۔

ایک دن باپ رات کو واپس آ رہا تھا ، تو انہیں زور کی سردی لگ گئی۔ دوسرے دن بخار لے کر پڑ گئے۔ وہ ایسا بخار تھا کہ ہفتوں پڑے رہے۔ کھانسی کا الگ زور تھا۔ جو دوا دارو ممکن تھا ، کیا گیا ۔ گھر کی ایسی تتر بتر حالت تھی کہ ان کی خدمت عمدہ طریقے  سے نہیں ہو سکتی تھی۔ چھوٹی بہو نے تو پہلے ہی چارپائی پکڑ لی تھی۔ بڑی بہو کو اپنے دکھ سے ہی فرصت نہ تھی۔ اکیلی دکھیاری بوڑھی کیا کیا کرتی، کیسے کیسے کرتی؟ نتیجہ یہ ہوا کہ بوڑھے کچھ سنبھلے، تو ان دونوں گھٹنوں کو گٹھیا نے پکڑ لیا۔ کچھ دنوں تک تو وہ لاٹھی کا سہارا لے کر ہلتے ڈلتے، کچھ کچھ چل پھر لیتے تھے۔ پھر اس سے بھی مجبور ہو گئے۔ اب برآمدے کے ایک کونے میں چارپائی پر پڑے پڑے ایڑیاں رگڑ رہے ہیں۔

لوگ اس کے گھر کی یہ بگڑی حالت دیکھتے ہیں اور آہ بھر کر کہتے ہیں،’’اوہ، کیا تھا اور کیا ہو گیا!‘‘

آخر بڑی بہو کو خیال آیا کہ گھر کی اس دن بدن گرتی حالت کی اگر روک تھام نہ ہوئی، تو یہ کہیں کا نہیں رہ جائے گا۔ خود کیلئے اب سوچنے ہی کو کیا رہ گیا تھا؟ اس کی زندگی تو تباہ ہو ہی گئی تھی۔ اسکے ساتھ ہی اگر یہ گھرانہ بھی تباہ ہو گیا، تو اسکی زندگی کے اس سخت ترین دورکے کتنے بھیانک نتائج برآمد ہوں گے! نہیں، نہیں، وہ گھر کی بڑی بہو ہے، اسے اپنی ذمہ داری کا احساس ہونا چاہئیے۔اگر سبھی اپنے اپنے غموں میں نڈھال ہوکر پڑے رہیں گے، تو کام کیسے چلے گا؟ اور اب اس کی زندگی کا مقصد ساس، سسر، دیور اور بہن کی خدمت کے سوا رہ ہی کیا گیا ہے؟ اسکی بدقسمتی کی وجہ سے ہی تو اس گھر کی یہ حالت ہو گئی ہے۔ ساس، سسر، دیور، بہن سب کے سب اسی کی وجہ سے تو اس حال میں پہنچے ہیں۔ پھر کیا اپنے مصائب میں ہی ڈوب کر انکے تئیں اسکی جو ذمہ داریاں ہے، اسے وہ بھلا دے گی؟ نہیں، اب اس کی زندگی انہی کیلئے تو ہے۔ ان کی خدمت وہ دل پر پتھر رکھ کر بھی کرے گی۔ دکھوں کی چڑھتی ندی ایک نہ ایک دن تو اترے گی ہی!

اس دن سے جیسے وہ رحم کی دیوی بن گئی اور دکھی اور جلتی ہوئی روحوں پر وہ خدمت گذاری، پیار اور لگن کا کومل سایہ بن کر چھا گئی۔نہا کرکے بہت سویرے ہی وہ پوجا کرتی۔ پھر ساس، سسر اور بہن کی خدمتوں میں جٹ جاتی۔

سسر اسکی سونی مانگ، سونی کلائی اور سفید کپڑوں میں لپٹے ہوئے اسکے کملائے بدن کو دیکھ کر دل ہی دل رو پڑتے۔ ان سے کچھ کہتے نہ بنتا۔ وہ انہیں سہارا دے کر چارپائی سے اٹھاتی، ان کا ہاتھ منہ دھلاتی، سامنے بیٹھا کر انہیں کھانا کھلاتی۔ سسر کاٹھ کے پتلے کی طرح سب کرتے اور دل میں صرف ایک تڑپ کا طوفان لیے، جب تک وہ ان کے سامنے رہتی خاموش ہوکر اسکے اداس مکھڑے کی طرف ٹکرٹکر تکا کرتے۔

ساس کو کچھ اطمینان ہوا کہ چلو، یہ اچھا ہوا تھا کہ بڑی بہو خودکو یوں کاموں میں الجھائے رکھنے لگی۔ ایسا کرنے سے وہ دکھ کو بھلائے رہے گی اور اس کا دل بھی بہلا رہے گا۔

چھوٹی بہن کی تو وہ ماں ہی بن گئی۔ پہلے وہ اس سے ایک بہن کی طرح محبت کرتی تھی، لیکن اب اسے بہن کی محبت کے ساتھ ساتھ ماں کے پیار، ممتا،خدمت اورسرشاری کی بھی ضرورت تھی۔ بڑی بہو نے اسے وہ سب کچھ دینا شروع کر دیا۔ وہ اسے بچے کی طرح گود میں بٹھا کر دوا پلاتی، کھلاتی، اس کے کپڑے تبدیل کرتی، اس کے بال سنوارتی، چوٹی گونتی۔ پھر سیندوردان اس کے سامنے رکھ کر کہتی، ’’لے، اب مانگ تو ٹھیک کر لے۔‘‘

یہ سن کر چھوٹی بہن کی ویران آنکھیں اپنی   بہن کی سونی مانگ کی طرف اٹھ جاتیں۔ اسکے کلیجے میں ایک ہوک اٹھتی اور ڈبڈبائی آنکھیں ایک طرف پھیر کر کہتی،’’رکھ دے، بہن۔‘‘

بڑی بہن اسے گود میں لے کر،آہ و بکا کرتے دل کو قابو میں کرکے کہتی،’’ایسا نہ کہہ، میری بہن! میری مانگ لٹ گئی، تو کیا ہوا؟ تیری مانگ کا سیندور بھگوان قائم رکھے! اسے ہی دیکھ دیکھ کر میں یہ دکھوں بھری زندگی کاٹ لوں گی! لے، بھر تو لے مانگ۔‘‘

چھوٹی بہن، بڑی بہن کی گود میں منہ ڈال کر پھوٹ پھوٹ کر رو پڑتی۔ بڑی بہن کی آنکھوں سے بھی ٹپ ٹپ آنسوؤں کی بوندیں گر پڑتیں۔ لیکن اگلے ہی لمحے ہی وہ خود کو سنبھال کر کہتی،’’ایسا نہیں کرتے، میری لاڈلی!‘‘ کہہ کر وہ اس کی آنکھوں کو اپنے آنچل سے پونچھ دیتی۔ پھر کہتی،’’لے اب سیندور لگا لے، میری اچھی بہن!‘‘

چھوٹی بہن آنکھوں میں امڈتے ہوئے آنسوؤں کا طوفان لیے کانپتی انگلیوں سے سلاکا اٹھا کرسیندور کی ڈبیا سے سیندور اٹھاتی۔ بڑی بہن اس وقت نہ جانے کیسا اینٹھتا درد، دل میں لئے اپنی بھری آنکھیں دوسری طرف پھیر لیتی۔

گوپی کی بھابھی کو اپنے شوہر کی یاد بہت ستاتی۔ ہر گھڑی اسکی بھری بھری آنکھوں کے سامنے شوہر کی طرح طرح کی تصویریں جھلملایاکرتیں ۔پوجا کرنے بیٹھتی تو ہمیشہ یہی دعا کرتی، ’’ اے بھگوان، مجھے بھی ان کے چرنوں میں پہنچا دو!‘‘

کبھی کبھی اسے اپنے دیور کی اور اپنے ہنسی مذاق اور خوشیوں بھرے قہقہوں کی بھی یاد آتی۔ اس وقت اسے لگتا کہ وہ سب ایک خواب تھا۔ آہ، یہ کون جانتا تھا کہ وہ ہنسی خوشی کی باتیں ایک دن اس طرح ہمیشہ کیلئے ختم ہو جائیں گی اور ان کی باز گشت روح کے ذرے ذرے میں ایک درد بن کر رہ جائے گی؟ پھر اسے خیال آتا کہ کیسے دیور نے بھائی کے قتل کی وجہ سے غم سے پاگل ہو کر اپنے سکھ کی بَلی چڑھا دی۔ اسی لمحے بھر کیلئے اس کی آنکھیں چھوٹی بہن کی طرف اٹھ جاتیں، جسکے دامن سے دیور کی زندگی کا سکھ دکھ بندھاہواتھا۔ وہ دیکھ رہی تھی کہ اس کی ہر طرح کی خدمت گذاری کے باوجود دن دن وہ پھول کی طرح مرجھائی چلی جا رہی ہے۔ وہ اسے ہر طرح سے سمجھانے بجھانے کی کوشش کرتی ہے، لیکن جیسے وہ کچھ سمجھتی ہی نہیں۔ دیور جب لوٹ کے آئے گا اور اسے اس حالت میں دیکھے گا، تو اس کیا حالت ہوگی؟

آہستہ آہستہ دکھ جھیلتے جھیلتے وہ سخت جان بن گئی۔ بہن کی خدمت وہ اور بھی جی جان سے کرنے لگی۔ اسے لگتا کہ وہ صرف اس کی بہن ہی نہیں ہے، بلکہ اس کے پیارے دیور کی انمول امانت بھی ہے۔ اس امانت کی حفاظت کرنا اس کا سب سے بڑا فرض ہے۔

لیکن اس کی اتنی خدمتوں کا بھی کوئی اثر اس کی بہن پر پڑتادکھائی نہ دیتا۔ اس کا دل کبھی کبھی ایک بھیانک خدشے سے کانپ اٹھتا۔ وہ ٹھاکر کی مورتی کے سامنے گڑگڑاکر منت کرتی،’’اے بھگوان! اب تو رحم کرتُو اس بدنصیب گھرپر اور اگر تجھے اتنے پر بھی اطمینان نہیں ہے تو مجھ ابھاگن کو ہی اٹھا لے اور اپنے غصے کو ٹھنڈا کر لے!‘‘

لیکن بھگوان نے تو جیسے اپنی نظرکرم اس خاندان سے پھیر لی تھی۔ چھوٹی بہن کی حالت نہ سدھرنی تھی، نہ سدھری۔ آخر اس کی حالت جب دن دن بگڑتی ہی گئی، تو اس کا بھائی ایک دن اسے اپنے گھر لے گیا۔ خیال تھا کہ شاید ہوا بدلنے سے، وہاں ماں،بھابھی اوراپنی سکھی سہیلیوں کے درمیان رہ کر خوش ہونے سے اور طبیعت بدلنے سے وہ صحت مند ہو جائے۔ وہ تو اپنی بڑی بہن کو بھی کچھ دنوں کیلئے لے جانا چاہتا تھا، لیکن اس گھرکا اسکے بغیر کیسے کام چلے گا، یہی سوچ کر اسے نہ لے جا سکا۔ پالکی پر چڑھنے سے پہلے چھوٹی بہو خوب بلک کر روئی اور ساس اور بہن سے ایسے لپٹ کر ملی، جیسے ان سے آخری رخصت لے رہی ہو۔ سسر کے پاؤں کو اس نے آنسوؤں سے دھو دیا۔ بوڑھے سسر ہاتھوں سے آنکھیں ڈھک کر ایک بچے کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رو پڑے۔

کون جانتا تھا کہ حقیقت میں وہ اسکی آخری رخصت تھی؟ ماں، باپ، بھائی، بھاوج نے کچھ بھی اٹھا نہ رکھا۔ روپے پیسے پانی کی طرح بہا دیئے۔ لیکن ہوا وہی جو ہونا تھا۔ وہ تر شول جو ایک دن اس نرم جان میں چبھا تھا، اس نے جان لے کر ہی دم لیا۔

یہ خبر جب ساس سسر اور بہن کو ملی، تو ان کی کیا حالت ہوئی، اس کا بیان نہیں ہو سکتا۔ یہ تو کچھ ایسا ہی ہوا، جیسے ان کے دل کے ناسور میں ایک تیر اور آن چبھاہو۔

پانچ

جیل میں شروع شروع میں گوپی کے باپ اس سے ہر ماہ ایک بار ملتے رہے۔ پھر جب چلنے پھرنے سے مجبور ہو گئے، تو اسکے سسر اور سالا برابر اس سے ملنے جایا کرتے۔ گوپی ہر بار اپنے ماں باپ اور بھابھی کے بارے میں پوچھتا، گھر گرہستی کے بارے میں پوچھتا۔ وہ کچھ گول مول اسے بتا دیتے۔ ہچکچاہٹ میں نہ گوپی اپنی بیوی کے بارے میں کچھ پوچھتا، نہ وہ بتاتے۔ قید کا دکھ ہی کیا کم ہوتا ہے، جو وہ اس سے کوئی دل پر چوٹ پہنچانے والی بات کہہ کر اس کے دکھ کو مزید بڑھاتے؟

گوپی کو جیل میں سب کی یاد ستاتی، لیکن بھابھی کے دکھ کی اسے جتنی فکر تھی، اتنی اور کسی بات کی نہ تھی۔ بھابھی کی بیوگی کی تصویر ہمیشہ اس کی آنکھوں میں گھوما کرتی۔ جس پیاری بھابھی کو پاکر، جس دل کی ممتابھری محبت سے سیر ہوکر، ایک دن وہ نہال ہو اٹھا تھا، اسی بھابھی کو بیوہ کے روپ میں وہ کن آنکھوں سے دیکھ سکے گا؟ وہ سونی مانگ، وہ سونی کلائیاں، وہ مرجھایا مکھڑا ۔۔۔

جیل کی کڑی مشقت سے اس نے کبھی جی نہ چرایا۔ محنتی جسم پر سخت محنت کا بھی کیا اثرپڑنا تھا؟ گھر کی طرح کھانے پینے کو ملتا، بے فکری کی زندگی ہوتی تو جیل میں بھی گوپی جیسے کا تیسا رہتا۔ لیکن گھی دودھ کے پالے جسم کا اب خشک روٹی اور کنکر ملی دال سے پالا پڑا تھا۔ اوپر سے بھابھی کی فکر چوبیسوںپہر کی۔ گوپی سوکھ کر کانٹا ہو گیا۔ پھر بھی ڈھانچہ ایک پہلوان کا تھا۔ سڑاہوا تیلی بھی ایک ادھیلی۔ کس کی مجال تھی کہ آنکھ دکھا دے! پھر براہ راست گوپی سے کسی کو الجھنے کا موقع بھی کیسے ملتا؟ وہ دن رات اپنی ہی مصیبت میں الجھا رہتا۔ اتنی بڑی جیل بھی جیسے تنہائی کے گھیرے میں ہی اس کیلئے محدود بنی رہی۔

مقدمے کے دوران وہ ضلع اسپتال میں پڑا رہا تھا۔ پسلی کی چوٹ خطرناک تھی۔ درد جاتا ہی نہ تھا۔ چھوٹے ہسپتال میں ایکسرے وغیرہ تھا نہیں۔ پھر کسی کے لئے کوئی کیوں زحمت اٹھائے؟ جیسے تیسے دوا ہوتی رہی اور مقدمہ چلتا رہا۔ اور پھر اسے حوالات میں بھیج دیا گیا۔ سزا پاکر گوپی جب بنارس ضلع جیل میں بھیج دیا گیا، تو بھی اس کی وہی حالت تھی۔ وہ تو قوت برداشت اس میں اتنی تھی کہ وہ سب جھیلے جا رہا تھا۔

بنارس ضلع جیل کے ہسپتال میں اسکی خوش قسمتی سے ایک اچھا کمپوڈر مل گیا۔ وہ بھی اسی کے جوارکا تھا۔ جیل کے ہسپتالوں میں کوئی خاص دوائیں نہیں رکھی جاتیں۔ وہ تو کمپوڈر کی تیمارداری اور گوپی کے خون کی طاقت تھی کہ درد کم ہونے لگا۔ وہیں اس کی ملاقات مٹرو سنگھ سے ہوئی۔ وہ گھاگھرا کے دِیّر کا ایک نامی گرامی پہلوان تھا۔ ایک ہی برادری کے اورہم پیشہ ہونے کی وجہ سے دونوں ایک دوسرے سے پہلے ہی سے واقف تھے۔ گوپی کا گاؤں دِیّر سے قریب پانچ میل ہی پر تھا۔ مٹرو ایک کٹیا بنا کر گھاگھرا کے کنارے چٹیل میدانوں کے درمیان اپنے بال بچوں کے ساتھ رہتا تھا۔ جوار میں ایک کہانی مشہور ہے کہ مٹرو کی ہاتھی کی طرح بڑھتی ہوئی طاقت کو دیکھ کر کسی پہلوان نے حسد میں نہ جانے پان میں اسے کیا کھلا دیا کہ مٹرو کی سانس اکھڑ گئی۔ اسے دمہ ہو گیا۔ اس نے بہت علاج کرایا، لیکن اسکی سانس کی بیماری نہ گئی۔ کیا کرتا، مجبور ہوکر پہلوانی چھوڑ دی اور بیاہ کرکے ایک عام کسان کی طرح زندگی گزارنے لگا۔ اب اس کے تین لڑکے بھی تھے۔

ایک طرح سے وہ دِیّر کا بادشاہ ہی سمجھا جاتا تھا۔ کنارے میلوں تک اس کی اکلوتی حکومت تھی۔ گھاگھرا ندی کے ساتھ ہی اس کا بھی’’محل‘‘ اٹھتا اور گرتا تھا۔ برسات میں جوں جوں گھاگھرا اوپر اٹھتی جاتی، توں توں مٹرو کی کٹیا بھی۔ یہاں تک کہ بھادوں میں جب گھاگھرا ابل کر سمندر بن جاتی، تو مٹرو کی کٹیا کنارے کے کسی گاؤں میں پہنچ جاتی۔ اور پھر جوں جوں سیلاب اترنے لگتا، مٹرو کی کٹیا بھی اترنے لگتی اور کارتک مہینہ لگتے لگتے پھر اپنی پرانی جگہ پر پہنچ جاتی۔ مٹرو اسی طرح’’گنگا میا‘‘ کا آنچل ایک لمحے کو بھی نہیں چھوڑتا، جیسے بچے ماں کا۔

پہلے ندی کے ہٹنے پر جو میلوں ریت پڑتی، اس پر جھاؤں  اور سرکنڈے کے جنگل اگ آتے۔ بیساکھی جیٹھ میں جب یہ جنگل جوانی پر ہوتے تو زمیندار انہیں کٹواکر فروخت کرتے۔ لوگ لاون اور کھپریل لگانے کے لئے خرید لیتے۔ پھر برسات شروع ہو جاتی اور سب طرف سیلاب امڈنے لگتا۔

مٹرو جب تک پہلوانی میں مست رہا، اسے کسی بات کی فکر نہ تھی۔ گھاٹ سے ہی اسے اتنی آمدنی ہو جاتی، اتنا دودھ، دہی اور کھانے پینے کا سامان مل جاتا کہ خوب مزے سے دن کٹ جاتے۔ کوئی گوالا اسے دودھ دیئے بغیر کشتی پر نہ چڑھتا۔ کوئی بنیا مٹرو کی’’چنگی‘‘ چکائے بغیر ادھر سے نہ گزر جاتا۔ مٹرو کے لئے اتنا بہت تھا۔ کھانے،ڈنڈ پیلنے اور گھاٹ پر اینٹھ اینٹھ کر کسرتی بدن دکھانے کے سوا کوئی کام نہ تھا۔

لیکن جب پہلوانی چھوٹ گئی، گرہستی بس گئی، تو حرام کی روٹی بھی چھوٹ گئی۔ اس نے کٹیا کے آس پاس کا جنگل صاف کیا۔ سسر سے بیل اورہل لے کر کھیتی شروع کر دی۔ دریا کی چھوڑی ہوئی کنواری زمین جیسے ہل کے پھل کا ہی انتظار کر رہی تھی۔ اس نے وہ فصل اگلی کہ لوگوں نے دانتوں تلے انگلی دبا لی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

عامر صدیقی
لکھاری،ترجمہ نگار،افسانہ نگار،محقق۔۔۔ / مائکرو فکشنسٹ / مترجم/شاعر۔ پیدائش ۲۰ نومبر ۱۹۷۱ ؁ ء بمقام سکھر ، سندھ۔تعلیمی قابلیت ماسٹر، ابتدائی تعلیم سینٹ سیوئر سکھر،بعد ازاں کراچی سے حاصل کی، ادبی سفر کا آغاز ۱۹۹۲ ء ؁ میں اپنے ہی جاری کردہ رسالے سے کیا۔ ہندوپاک کے بیشتر رسائل میں تخلیقات کی اشاعت۔ آپ کا افسانوی مجموعہ اور شعری مجموعہ زیر ترتیب ہیں۔ علاوہ ازیں دیگرتراجم و مرتبہ نگارشات کی فہرست مندرجہ ذیل ہے : ۱۔ فرار (ہندی ناولٹ)۔۔۔رنجن گوسوامی ۲ ۔ ناٹ ایکیول ٹو لو(ہندی تجرباتی ناول)۔۔۔ سورج پرکاش ۳۔عباس سارنگ کی مختصرسندھی کہانیاں۔۔۔ ترجمہ: س ب کھوسو، (انتخاب و ترتیب) ۴۔کوکلا شاستر (ہندی کہانیوں کا مجموعہ ) ۔۔۔ سندیپ میل ۵۔آخری گیت اور دیگر افسانے۔۔۔ نینا پال۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۶ ۔ دیوی نانگرانی کی منتخب غزلیں۔۔۔( انتخاب/ اسکرپٹ کی تبدیلی) ۷۔ لالٹین(ہندی ناولٹ)۔۔۔ رام پرکاش اننت ۸۔دوڑ (ہندی ناولٹ)۔۔۔ ممتا کالیا ۹۔ دوجی میرا (ہندی کہانیوں کا مجموعہ ) ۔۔۔ سندیپ میل ۱۰ ۔سترہ رانڈے روڈ (ہندی ناول)۔۔۔ رویندر کالیا ۱۱۔ پچاس کی دہائی کی بہترین ہندی کہانیاں(۱۹۵۰ء تا ۱۹۶۰ء) ۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۱۲۔ ساٹھ کی دہائی کی بہترین ہندی کہانیاں(۱۹۶۰ء تا ۱۹۷۰ء) ۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۱۳۔ موہن راکیش کی بہترین کہانیاں (انتخاب و ترجمہ) ۱۴۔ دس سندھی کہانیاں۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۱۵۔ قصہ کوتاہ(ہندی ناول)۔۔۔اشوک اسفل ۱۶۔ ہند کہانی ۔۔۔۔جلد ایک ۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۱۷۔ ہند کہانی ۔۔۔۔جلد دوم۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۱۸۔ ہند کہانی ۔۔۔۔جلد سوم ۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۱۹۔ہند کہانی ۔۔۔۔جلد چہارم ۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۲۰۔ گنگا میا (ہندی ناول)۔۔۔ بھیرو پرساد گپتا ۲۱۔ پہچان (ہندی ناول)۔۔۔ انور سہیل ۲۲۔ سورج کا ساتواں گھوڑا(مختصرہندی ناول)۔۔۔ دھرم ویر بھارتی ۳۲ ۔بہترین سندھی کہانیاں۔۔۔ حصہ اول۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۲۴۔بہترین سندھی کہانیاں ۔۔۔ حصہ دوم۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۲۵۔سب رنگ۔۔۔۔ حصہ اول۔۔۔۔(مختلف زبانوں کی منتخب کہانیاں) ۲۶۔ سب رنگ۔۔۔۔ حصہ دوم۔۔۔۔(مختلف زبانوں کی منتخب کہانیاں) ۲۷۔ سب رنگ۔۔۔۔ حصہ سوم۔۔۔۔(مختلف زبانوں کی منتخب کہانیاں) ۲۸۔ دیس بیرانا(ہندی ناول)۔۔۔ سورج پرکاش ۲۹۔انورسہیل کی منتخب کہانیاں۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۳۰۔ تقسیم کہانی۔۔۔۔حصہ اول۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۳۱۔سورج پرکاش کی کہانیاں۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۳۲۔ذکیہ زبیری کی بہترین کہانیاں(انتخاب و ترجمہ) ۳۳۔سوشانت سپریہ کی کہانیاں۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۳۴۔منتخب پنجابی کہانیاں ۔۔۔۔حصہ اول۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۳۵۔منتخب پنجابی کہانیاں ۔۔۔۔حصہ دوم۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۳۶۔ سوال ابھی باقی ہے (کہانی مجموعہ)۔۔۔راکیش بھرامر ۳۷۔شوکت حسین شورو کی سندھی کہانیاں۔حصہ اول۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۳۸۔شوکت حسین شورو کی سندھی کہانیاں۔حصہ دوم۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۳۹۔شوکت حسین شورو کی سندھی کہانیاں۔حصہ سوم۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) تقسیم کہانی۔ حصہ دوم(زیرترتیب ) گناہوں کا دیوتا(زیرترتیب ) منتخب پنجابی کہانیاں حصہ سوم(زیرترتیب ) منتخب سندھی کہانیاں حصہ سوم(زیرترتیب ) کبیر کی کہانیاں(زیرترتیب )

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply