لایموت: ایک خود نوشت۔۔راشد شاز/مبصر:محمد ارشد

پروفیسر راشد  شاز کا شمار  ان روایت شکن مصنفین میں ہوتا ہے جو مشہور و مقبول ہیں  اور  متنازع و مطعون بھی۔ انہیں عام ڈگر پر چلنا قطعاً پسند نہیں۔ اپنی خود نوشت لایموت لکھتے ہوئے بھی شاز صاحب نے جعفر تھانیسری، سررضا، آل احمد سرور، اخترالایمان، جوش ملیح آبادی، عبدالماجد دریاآبادی اور خود اپنے استاذ مسعود حسین خان جیسے علما ادب کی پیروی نہیں کی ہے بلکہ اپنی الگ راہ نکالی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لایموت محض ایک خود نوشت نہیں، ایک ایسی تاریخی دستاویز ہے جس میں 1947ء سے 1990ء تک کی ہر وہ سیاہ تاریخ، خوفناک دن اور وحشتناک راتیں رقم ہیں جو اس ملک کے مسلمانوں پر گزری۔ یہ آپ بیتی کے رنگ میں لکھی گئی ایسی جگ بیتی ہے جسے پڑھتے ہوئے ہر قاری یہ محسوس کرتا ہے کہ ان کا بھی سلسلہ عقوبت گاہ کے ان مسلمانوں سے جڑا ہے زندگی نے جنہیں اتنا رلایا کہ موت کو ان پر رحم آگیا۔

54 مضامین پر مشتمل 428 صفحات کی اس کتاب کے مطالعہ میں مجھے ایک عشرہ لگ گیا حالانکہ آگ کا دریا جیسا ضخیم ناول میں نے 4 دن میں پڑھ ڈالے، اس کی وجہ شاید یہی ہے کہ لایموت کوئی ناول، افسانوی مجموعہ یا روایتی طرز کی خودنوشت نہیں ہے اسے پڑھتے ہوئے قاری کو ہر صفحے یا مضمون کے اختتام پر رک کر سوچنا پڑتا ہے کہیں لبوں پر مسکراہٹ بکھرتی ہے اور اکثر مقامات پر آنکھیں بے ساختہ چھلک پڑتی ہیں۔ یہ احمد آباد، مرا آباد، فیروز آباد، بنارس، علی گڑھ، ترکمان گیٹ(دہلی) ہاشم پورہ، ملیانہ، میرٹھ، نیلی اور بھاگلپور جیسے دیگر شہروں میں ایک رانی اور شہزادے کی سرپرستی میں ہونیوالی مسلم کشی (جنہیں فرقہ وارانہ فسادات کا نام دیا گیا) کا ایک ایسا البم ہے جس میں مسخ شدہ لاشیں، جلے کٹے جسم، خون میں لتھڑے کپڑے جابجا بکھرے نظر آتے ہیں۔ اس کتاب میں بھی واقعات وحادثات وہی ہیں جو ہم بچپن سے سنتے اور پڑھتے چلے آرہے ہیں لیکن مصنف کا کمال یہ ہے کہ انہوں واقعات کی کڑیوں کو نہ صرف یہ کہ بڑی ہنر مندی کے ساتھ ایک دوسرے سے جوڑا ہے بلکہ نکبہ، ہولوکاسٹ اور ہندوستان میں مسلمانوں کی نسل کشی کی وجوہات میں جو مماثلت پائی جاتی ہے اس پر مدلل گفتگو کی ہے۔ اور اس دلچسپ پیرائے میں کی ہے کہ قاری کی طبیعت پل بھر کے لئے بھی بوجھل نہیں ہوتی۔ مصنف چونکہ علی گڑھ میں انگریزی ادب کے طالب علم رہے ہیں، سوڈان سے عربی کی تعلیم حاصل کی ہے اس لئے جابجا انگریزی و عربی کتب کے حوالے ملتے ہیں۔ آپ فی الوقت علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے مرکز تعلیم وثقافت مسلمانان ہند میں پروفیسر، عالمی ادارہ ایسسکو کے سفیر اور انڈیا انٹرنیشنل کے سربراہ کے عہدے پر فائز ہیں بایں وجہ مختلف مذاہب ومسالک کے تعلیم یافتہ افراد سے گہرے روابط ہیں جس کی جھلک بھی اس کتاب میں دیکھنے کو ملتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ایک جگہ یہ جملہ نظر سے گزرا وہ یہ کہ جب شاز صاحب کی تصنیف “غلبہ اسلام” منظر عام پر آئی تو ایک صاحب نے کہا کہ اب شاز صاحب بھی صاحب کتاب ہوگئے ہیں تو سامنے بیٹھے کسی بزرگ نے ارشاد فرمایا؛ صاحب کتاب نہیں، اہل کتاب ہوگئے ہیں۔
پیش نظر کتاب میں جدت طرازی کا رنگ بڑا گہرا ہے۔ صاحب کتاب نے خود نوشت کی عام روایت سے انحراف کرتے ہوئے رسم بسم اللہ، آباء واجداد، معاشقہ اور نکاح جیسے عناوین سے نہ صرف احتراز برتا ہے بلکہ اپنی تاریخ ولادت لکھنے سے بھی گریز کیا ہے۔

مصنف کی زندگی کی یہ سچی کہانی بچپن کی دھندلی یادوں سے شروع ہوتی ہے۔ اہل خانہ، عزیز وا قارب، گاؤں کا مدرسہ، ابو کا مکتبہ، مکتبہ میں اہل علم کی آمدورفت، بزرگوں کا عالمی اور ملکی مسائل پر اظہارِ خیال، سقوط ڈھاکہ، ملک میں جشن کا سماں، گاؤں میں ہندو مسلم فساد کی آہٹ، ڈراؤنے خواب، ایمرجنسی کا نفاذ، مکتبہ میں چھاپہ ماری اور والد کی گرفتاری کے ساتھ پے درپے آنیوالے مسائل میں گھر کر چڑیوں کا شکار کرنے اور گاؤں کے تمام پھلدار درختوں پر مشترکہ حق سمجھنے والے اس معصوم بچے کے اندر شرارت کی جگہ سنجیدگی لے لیتی ہے۔ تغافل تدبر وتفكر میں بدلتا ہے۔ اب سیاسی اور سماجی معاملات پر گہری نظر پڑتی ہے۔ اپنے اسکول کے دوستوں اور مکتبہ میں آنے والے اہل علم سے عالمی اور ملکی مسائل پر مکالمہ اور مباحثہ کا آغاز ہوتا ہے۔ عمر کے ساتھ ساتھ تجسس اور تشنگی بڑھتی ہے جو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے علمی وادبی فضاء تک کھینچ لاتی ہے۔ شیخ علی گڑھ (احمد سورتی) کی مجلس سے فیضیاب ہونے کا موقع ملتا ہے۔ علی گڑھ میگزین کی ادارت سے تحریری صلاحیت نکھرتی ہے۔ سید حامد (سابق شیخ الجامعہ) تک رسائی ہوتی ہے۔ مولانا علی میاں ندوی سے خط وکتابت کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ کئی دفعہ مولانا سے ملاقات کی تقریب بھی نکلتی ہے۔زمانہ طالب علمی سے ہی ہند وپاک میں منعقد ہونیوالے سیمنار و کانفرنس، مسلم پرسنل لاء بورڈ اور مجلس مشاورت کی میٹنگوں اور جلسوں میں شرکت کا موقع ملتا ہے۔

بلاد عرب اور برطانیہ سمیت دیگر بیرونی ممالک کے بحری اور ہوائی اسفار میں ایک بیگ نما پوٹلی کے ساتھ چند کتابیں رفیق سفر ہوتی ہیں۔ صاحب کتاب جہاں بھی تشریف لے جاتے ہیں ایک فکر دامن گیر رہتی ہے کہ آخر قوم مسلم کی زبونحالی کی وجوہات کیا ہیں؟ کیا وجہ تھی کہ ماضی میں قلیل عددی تناسب کے باوجود اقصائے عالم میں جس قوم کا ڈنکا بجتا تھا آج وہ ایسی تعذيب گاہوں میں قید ہے جہاں موت آتی ہے اور نہ ہی زندگی کی رمق ان میں باقی ہے۔ کبھی عالم خواب تو کبھی حالت بیداری میں مختلف سوالات مصنف کے ذہن کو کچوکے لگاتے ہیں جس کا جواب وہ کبھی خدا کی بارگاہ میں تو کبھی مقدس ہستیوں کی خانقاہ میں تلاش کرتے ہیں۔ از اول تا آخر مصنف کا انداز بیان مکالماتی ہے۔ ہرمقام پر چند کردار عالمی وملکی مسائل پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں جہاں صاحب کتاب کی حیثیت محور ومركز کی ہوتی ہے، وہ کبھی سامنے والوں سے اختلاف تو کبھی اتفاق رائے کا اظہار کرتے ہوئے جس مدلل اور مفصل انداز میں مباحثہ کو تکمیل تک پہنچاتے ہیں ہم موصوف کی وسعت مطالعہ، قوت یاد داشت اور امیجری کی داد دئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ البتہ اس بیانیہ کا ایک نقص یہ ہے کہ قاری کو کبھی کبھی یوں محسوس ہوتا ہے جیسے صاحب کتاب نے اپنی نظریات کی وضاحت اور اپنی سوچ وفکر کو الفاظ کا جامہ پہنانے کے لئے کرداروں کا سہارا لیا ہے؛ لیکن اس کی خوبی یہ ہے کہ قاری پر اکتاہٹ طاری نہیں ہوتی ہے خود کو وہ اس محفل کا حصہ سمجھتا ہے۔ کسی بھی امر پر اٹھنے والے تمام ممکنہ سوالات اور ان کے جوابات سے انہیں کما حقہ واقفیت ہوجاتی ہے۔

ڈاکٹر راشد شاز یوں تو خشک اور مشکل نثر، غیر مانوس تراکیب کے استعمال اور ایک مخصوص اسلوب بیان کے لئے مشہور ہیں، بعض جملے ان کے اتنے طویل اور بھاری بھرکم ہوتے ہیں کہ عام قاری کی قوت فہم اس کا وزن برداشت نہیں کرسکتی؛ لیکن زیر تبصرہ کتاب اس معنی میں منفرد ہے کہ اس کی نثر بڑی سلیس، شستہ اور سحر انگیز ہے۔ تشبیہات وتلمیحات کا فنکارانہ استعمال اور خوبصورت منظرنگاری کتاب کے اختتام تک قاری کو جکڑے رہتی ہے۔ شاز صاحب کی حس ظرافت بھی کہیں کہیں پھڑکتی ہے۔

جب وہ کسی مہہ جبیں کا ذکر کرتے ہیں جو “دے دو پیار دے دو، دے دو پیار دے دو ” والا نغمہ انہیں سناتی ہیں اور جب کرکٹ میچ جیتنے کی خوشخبری سننے پر وہ اپنے کلاس میٹس سے پوچھتے ہیں کہ کتنے گول سے تم لوگوں کی جیت ہوئی تو قاری قہقہہ لگانے پر مجبور ہوجاتا ہے؛ لیکن جب مراد آباد فساد کے متاثرین میں سے حلیم بھائی کے الفاظ نقل کرتے ہیں۔ اور دیگر شہروں میں ہونیوالے یک طرفہ پولیس حملوں میں اپنے اہل وعیال اور گھر بار گنوا دینے والوں کی روداد رقم کرتے ہیں تو روح کانپ جاتی ہے۔

فاضل مصنف نے ان حملوں کے مجرمین کا محاکمہ بھی بڑی جرات مندی کے ساتھ کیا ہے اور جرم پر خاموش رہنے والے سیاسی اور مذہبی قائدین /کاپوؤں پرطنز بھی کیا ہے اور ان کی چپی پر سوالیہ نشان بھی لگائے ہیں۔ جہاں مذہبی قائدین، جمعیت و جماعت کا ذکر آتا ہے شاز صاحب کا طنز وہاں شدت اختیار کرلیتا ہے۔ شاید اس لئے کہ اپنوں سے گلے شکوے زیادہ ہوتے ہیں ورنہ تو حکومت وقت کا جرم اتنا عظیم ہے کہ ان کے سامنے کسی اور مجرم کی کوئی حیثیت نہیں۔

بابری مسجد میں مورتی رکھوانے، تالا کھلوانے سے لیکر مسجد کی شہادت تک کانگریس نے کس طرح میٹھی چھری سے مسلمانوں پر وار کیا ہے اور کیسے مذہبی قائدین کے مقدس کندھے پر سیاسی بندوق رکھ کر چلایا ہے اسے سمجھنے کے لئے قارئین کو لایموت کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔ میں نے آغاز میں ہی لکھا ہے کہ یہ کتاب محض خود نوشت نہیں ایک تاریخی دستاویز ہے۔ جسے پڑھنے کے بعد آپ کو اندازہ ہوگا کہ آج بھی سیاست اور قیادت کی دنیا میں کچھ تبدیل نہیں ہوا ہے محض کردار بدلے ہیں مگر ناٹک پرانا چل رہا ہے۔

پروفیسر راشد شاز لائق مبارکباد ہیں کہ اس دھڑ پکڑ کے دور میں بھی بڑی بیباکی کے ساتھ انہوں نے حقائق پر سے پردہ اٹھایا ہے۔ آج سے دوسال قبل جب پورے ملک میں NRC, CAA کا ہنگامہ کھڑا کیا گیا تھا۔ مسلمانوں پر خوف کا عالم طاری تھا یونیورسٹیز کے طلباء علم احتجاج بلند کررہے تھے۔ پروفیسران اور دانشوران کی اکثریت ذاتی نقصان کے خوف سے خاموش تھی اس وقت جب شاز صاحب اپنی ملازمت کی پرواہ نہ کرتے ہو ئے طلباء کے ساتھ کھڑے نظر آئے (جس کی قیمت بھی انہیں چکانی پڑی) تو بات کچھ سمجھ میں نہیں آئی؛ لیکن لایموت کے مطالعہ کے بعد یہ واضح ہوا کہ اس موقف اور جرأت کے پیچھے کونسے عوامل کار فرما ہیں۔ کتنے قریب سے سیادت وقیادت کی منافقت کا انہوں نے مشاہدہ کیا ہے، کس کرب سے یہ گزرے ہیں اور کونسی راہ منزل کو جاتی ہے جس جانب یہ نسل نو کی راہنمائی کرنا چاہتے ہیں۔ ایک پیغام عام ہے جو اس میں پوشیدہ ہے۔ داستان حیات ابھی ادھوری ہے مکمل ہونے پر بادل اور چھٹیں گے۔ لہٰذا یہ کہنا کہ یہ محض ماضی کا نوحہ ہے مستقبل کے لئے اس میں کوئی رہنمائی نہیں، میرے خیال سے زیادتی ہوگی۔ فاضل مصنف کے بعض مذہبی افکار سے اختلاف کیا جاسکتا ہے؛ لیکن سیاسی وملی نظریات سے عدم اتفاق کی کوئی معقول وجہ نہیں مل سکتی یہی وجہ ہے کہ اس کتاب کو ہر طبقے کے قارئین نے ہاتھوں ہاتھ لیا ہے۔ یقیناً یہ ہمارے ادبی سرمائے میں ایک اہم اضافہ ہے۔ جس کی پذیرائی کی جانی چاہیے۔

مصنف کی دیگر کتابوں کی طرح یہ کتاب بھی اشاعت وطباعت کے لحاظ  سے بڑی جاذب نظر  ہے۔

یہ بھی یاد رہے کہ خود نوشت کا یہ پہلا حصہ ہے جس میں زمانہ طفلی سے 1990 عیسوی تک پیش آنیوالے واقعات و حادثات درج ہیں۔ دوسرا حصہ عنقریب منظر عام پر آنیوالا ہے۔ امید ہے دوسرا  حصّہ  پہلے سے زیادہ معلومات سے مملو اور دلچسپ ہوگا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اشاعت : ستمبر 2021ء، صفحات : 428 ، قیمت : 450
ناشر : ملی پبلیکیشنز، جامعہ نگر، نئی دہلی

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply