شاعری    ( صفحہ نمبر 8 )

فرشتہ جو آیا تھا کل رات۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

فرشتہ جو آیا تھا کل رات (کمرے  میں میرے) صواب و صداقت میں معصوم بچہ سا لگتا تھا (سچا، کھرا، صاف گو، بے تعصب) مری پائنتی سے ذرا نیچے ہٹ کر ہوا میں معلق کھڑا تھا ۔۔۔ (عموداً) اسے میں←  مزید پڑھیے

​ہندی غزل۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

بھرے پُرے میلے میں گئے تھے کس کے سہارے، بھول گئے کس کی انگلی مُٹھی میں تھی، ہم بے چارے بھول گئے پیاس سے منہ میں آگ لگی تو جھرنے کھوجے گلی گلی میں چھاگل گھر سے لے کے چلے←  مزید پڑھیے

کہاں رکا ہے۔۔صابرہ شاہین

کہاں رکا ہے ہوا کے رتھ پر سوار ہوکر گیا دسمبر کوئی کہانی نہ کوئی قصہ کسی وفا کا کسی الاؤ  کے گرد بیٹھیے ہوئےکسی کی حسیں نظر کا خموش پیمان بھی نہیں تھا وہ پھونس کا جھونپڑا وہ بستر←  مزید پڑھیے

زبان۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

اللہ ، بھلا گوشت کی گُٹھلی، یہ زباں ہے منہ میں مرے کیوں؟ کوئی دھندہ اس کا؟ کیا اس لئے، میں اس سے کوئی کام نہ لوں ؟ کیا اس لیے اک گوشت کےٹکڑ ے کی طرح چپ چاپ یہ←  مزید پڑھیے

غالب و آنند(1)۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

ع۔ ​جب جب غالب نے آنند کو لفظوں سے زود وکوب کیا بھلا اسے نہ سہی کچھ مجھی کو رحم آتا اثر مرے نفس ِ بے اثر میں خاک نہیں ستیہ پال آ نند حضور، مصرع ِ اولیٰ کو ملتوی←  مزید پڑھیے

بلا عنوان…..ڈاکٹر صابرہ شاہین

جھوٹ کی شال اڑھانے کی خواہش تھی اس کی میں بھی جانچنے اور پرکھنے کی کو شش میں اس کی فرضی جنت کے دالان میں اتری تو یہ دیکھا اک اک پھول ہر ایک کیاری وحشت کے ننگے پن کی←  مزید پڑھیے

مری جان آؤ…..ڈاکٹر صابرہ شاہین

مری جان آؤ چلو خواب بنتے ہیں پھر سے مری جاں مگر اپنی آنکھیں تو۔۔۔ گدلا چکی ہیں کوئی خواب بھولے سے اترا بھی ان میں تو کالا سا۔۔۔۔میلا ۔ ۔یونہی ادھ موا سا پھٹی آنکھوں کی چھدری چھدری سی←  مزید پڑھیے

ماٹی کو مِلنا ، ماٹی سے…..ڈاکٹر صابرہ شاہین

  ماٹی کو مِلنا ، ماٹی سے پانی بدرا بن ، اُڑ جائے پوَن پریشاں گھومے ،ہر سو سورج پیلا پڑتا جائے سمے کا ، سادھو انت کی تسبیح ، پھیرے اور ہر دم مسکائے مرتی گھاٹ پہ ماضی ،←  مزید پڑھیے

بول کر سب کو سُنا۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

بول کر سب کو سنا، اے ستیہ پال آنند! بول اپنی رامائن کتھا، اے ستیہ پال آنند ! بول تو کہ کامل تھا کبھی، اب نصف سے کم رہ گیا دیکھ اپنا آئینہ ، اے ستیہ پال آنند ! بول←  مزید پڑھیے

غزل پلس(14)۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

کیمیا  گر نے مجھے جِھڑکا ، کہا ، گھر جاؤ کچّـــــا لوہا کہــــاں بنتا ہے طـــلا ، گھر جاؤ سرد تاریکی میں کیوں پھرتے ہو یوں آوارہ دھوپ پہنا کے مجھے شب نے کہا، گھر جاؤ قطرہ قطرہ مِری آنکھوں←  مزید پڑھیے

کفن کی جیب کہاں ہے؟۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

یہ تین دن بہت بھاری ہیں مجھ پہ جانتا ہوں مجھے یہ علم ہے، تم اپنے اختیارات کے تحت مری حیات کا اعمال نامہ پرکھو گے برائیوں کا، گناہوں کا جائزہ لو گے میں جانتا ہوں فرشتو کہ مجھ پہ←  مزید پڑھیے

تُو جانتا ہے۔۔ڈاکٹر صابرہ شاہین

بس مالک! اب تجھ سے بھی ہم کیا مانگیں؟ رت جیون کی، تنہا روتے بیت گئی سندر خواب، سہانے کل کے راکھ ہوئے قندیلیں بھی ،آس کی اپنی، خاک ہوئیں تار،تار ہے دامن بھی امیدوں کا اور چہرے پر سایہ←  مزید پڑھیے

مکالمہ مہاتما بدھ اور ان کے چیلے آنند کے مابین​(جنم سے چتا تک)۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

میں نے پہلی بار یہ منظر تبھی دیکھا تھا جب رتھ بان نے مجھ کو بتایا تھا کہ مُردہ جسم کے انتم چرَن کی یاترا میں ۰ اس کو اگنی کے حوالے کر دیا جاتا ہے ۔۔۔ تب اک بار←  مزید پڑھیے

​ذاتی فیصلہ۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

اور پھر ایسے ہُوا’ اک نرتکی نے (نرتکی۔ رقـاصہ) خوب رُو آنند کو بانہوں میں بھر کر یہ کہا: ’’تم سَنگھ سے باہر چلے آؤ، یہ میری دولت و ثروت’ یہ جاہ و حشم، یہ اونچا محل اور سب سے←  مزید پڑھیے

سرائیکی کے سو پسندیدہ اشعار/ قسط 6۔۔۔ کامریڈ فاروق بلوچ

سرائیکی شاعری جہاں مسدس اور ڈوہڑا بنیادی اصناف ہیں لیکن اِس زبان میں غزل کے تجربے کی تابناکی اور بے باکی بھی کئیوں کو متاثر کر چکی ہے۔ اسی طرح جہاں تحصیل تونسہ نے جدید شعراء کی کھیپ مہیا کی←  مزید پڑھیے

دردِ زہ عرف سنامی(ایک لوک کہانی)۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

ذرا سا پلٹ کر سمندر نے اک آنکھ کھولی کہا خود سے، اب کیا کروں میں، بتاؤ مرے پیٹ میں آگ کا زلزلہ جس کی بنیاد صدیاں ہوئیں ۔۔۔ کچھ دراڑوں میں رکھی گئی تھی نکلنے کو اب کسمسانے لگا←  مزید پڑھیے

شبدوں میں رس گھولنے والا….. صفیہ حیات

شبدوں میں رس گھولنے والا محبت ،دھنک ،رنگ اور خوشبو اوڑھ کر مسرتوں کی گلبانگ راہ پہ چلتا ہوا شبدوں میں رس گھولنے والا وہ اک شخص جو مقدر کا ستارہ ہے سنہرا جھلمل سایہ شبنمی پھولوں میں بھیگا سفر←  مزید پڑھیے

کہاں پہ ہوں گی۔۔ڈاکٹر صابرہ شاہین

یہ گنگناتی ہوا کے نغمے وہ شاخ-جامن کی نرم شاخوں پہ دف بجاتے ہوئے پتاور وہ سامنے ادھ کھلے گلابوں کی سرخیوں پر، یوں چمچماتے ، سفید موتی حسین سبزے کے نرم سینے میں جھولتے چھوٹے، چھوٹے پھولوں کی مستیاں←  مزید پڑھیے

میرے پچاس برس کے دوستو۔۔صفیہ حیات

از سر نو محبت کا سوچیں کہ بات زندگی جینے کی ہے بات محبت کی ہے اور محبت میں شرک کیسا جاؤ کسی مزارکی جالی سے دھاگہ باندھو کبوتروں کو دانہ ڈالو پرندوں کو آزاد کرو رشتوں کی گرہیں کھولو←  مزید پڑھیے

غالب فہمی سیریز(3)۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

شور ش ِ باطن کے ہیں احباب منکر، ورنہ یاں دل ِ محیط ِ گریہ و لب آشنائے خندہ ہے ۔۔۔۔۔۔ ستیہ پال آنند اہل ِ فارس کی طرح، اے بندہ پرور، آپ بھی کچھ عجب اغلاط کے وہم و←  مزید پڑھیے