کہاں رکا ہے۔۔صابرہ شاہین

کہاں رکا ہے
ہوا کے رتھ پر سوار ہوکر
گیا دسمبر
کوئی کہانی نہ کوئی قصہ
کسی وفا کا
کسی الاؤ  کے گرد بیٹھیے
ہوئےکسی کی حسیں نظر کا
خموش پیمان بھی نہیں تھا
وہ پھونس کا جھونپڑا وہ بستر
وہ سنسناتی ہوا کا نغمہ
وہ گرم سانسوں پہ گڑبڑاتی ہوئی
ضرورت کی تیز ہچکی
کہیں بھی ‘کچھ بھی نہیں تھا اب کے
انگیٹھی کمرے میں جل رہی تھی
مگر نویلی اداس حدت کسی بدن کا سکون کب تھی
اکیلا تنہا اداس لمحہ کسی خیال حسین تر کی رفاقتوں کو ترس رہا تھا
بس ایک درماندہ جسم خالی
پلنگ کی پٹی سے لگ کےشب بھر
بے رنگ خالی گزرتے جاتے ہوئےدسمبر
کی پائمالی کو دیکھتا تھا
گیا دسمبر ‘تو کیا ہوا ہے؟
ہزار قرنوں ‘ کئی زمانوں سے
وقت کایہ سیال ایسے ہی بہہ رہا ہے
کہاں رکا ہے؟ کسی کی خاطر

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply