کہاں رکا ہے
ہوا کے رتھ پر سوار ہوکر
گیا دسمبر
کوئی کہانی نہ کوئی قصہ
کسی وفا کا
کسی الاؤ کے گرد بیٹھیے
ہوئےکسی کی حسیں نظر کا
خموش پیمان بھی نہیں تھا
وہ پھونس کا جھونپڑا وہ بستر
وہ سنسناتی ہوا کا نغمہ
وہ گرم سانسوں پہ گڑبڑاتی ہوئی
ضرورت کی تیز ہچکی
کہیں بھی ‘کچھ بھی نہیں تھا اب کے
انگیٹھی کمرے میں جل رہی تھی
مگر نویلی اداس حدت کسی بدن کا سکون کب تھی
اکیلا تنہا اداس لمحہ کسی خیال حسین تر کی رفاقتوں کو ترس رہا تھا
بس ایک درماندہ جسم خالی
پلنگ کی پٹی سے لگ کےشب بھر
بے رنگ خالی گزرتے جاتے ہوئےدسمبر
کی پائمالی کو دیکھتا تھا
گیا دسمبر ‘تو کیا ہوا ہے؟
ہزار قرنوں ‘ کئی زمانوں سے
وقت کایہ سیال ایسے ہی بہہ رہا ہے
کہاں رکا ہے؟ کسی کی خاطر
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں