غزل پلس(14)۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

کیمیا  گر نے مجھے جِھڑکا ، کہا ، گھر جاؤ
کچّـــــا لوہا کہــــاں بنتا ہے طـــلا ، گھر جاؤ

سرد تاریکی میں کیوں پھرتے ہو یوں آوارہ
دھوپ پہنا کے مجھے شب نے کہا، گھر جاؤ

قطرہ قطرہ مِری آنکھوں سے نچڑتا گیا درد
اور ہر قطرہ مجھے کہتا رہا ، گھر جاؤ

“روشنی’ روشنی” چِلّانے سے کب لوٹے گا
چـــــاند گنگا میں کہیں ڈوب   گیا  ، گھر جاؤ

میں نے مئے خانے میں غالب سے کہا ڈرتے ہوئے
نشّے سے غم نہیں مٹتا ہے ، چچا! گھر جاؤ

دو نُکیرین نے دھیرے سے مجھے سمجھایا
زیست اک  کھیل  ہی تھا، ختم ہوا، گھر جاؤ

میلا توختم ہوا، لوگ  گھروں کو ہیں رواں
دھول پھانکو گی یہاں رُک کے؟ بُوآ، گھر جاؤ

” گونگے صحرا میں بھٹکتے ہوئے اسواروں کو
چــار اطراف سے آتی ہے صدا، گھر جاؤ

شعر بے روح ہیں’ شاعر ہیں سبھی درماندہ
بزم برخـــــاست ہوئی، بارے خدا، گھر جاؤ

Advertisements
julia rana solicitors london

دیکھو ‘ آنندؔ ! یہ پھـا ٹک ـ نہیں کُھلنے والا
لوٹ آئے گی تمھـــــاری یہ دعا، گھر جاؤ!

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply