• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • امام زین العابدین علیہ السلام (صبر کا بادشاہ)دوم ،آخری حصّہ ۔۔شبیر

امام زین العابدین علیہ السلام (صبر کا بادشاہ)دوم ،آخری حصّہ ۔۔شبیر

توابین کا قیام

توابین کی تحریک واقعۂ کربلا کے بعد اٹھنے والی تحریکوں میں سے ایک تحریک تھی جس کی قیادت سلیمان بن صرد خزاعی سمیت شیعیان کوفہ کے چند سرکردہ بزرگ کررہے تھے۔ توابین کی تحریک کا نصب العین یہ تھا کہ بنو امیہ پر فتح پانے کی صورت میں مسلمانوں کی امامت و قیادت کو اہل بیتؑ کے سپرد کریں گے اور فاطمہ سلام اللہ علیہا کی نسل سے اس وقت علی بن الحسینؑ کے سوا کوئی بھی نہ تھا جس کو امامت مسلمین سونپی جاسکے۔ تاہم امام علی بن الحسینؑ اور توابین کے درمیان کوئی باقاعدہ سیاسی ربط و تعلق نہ تھا۔ [57]

مختار کا قیام

تفصیلی مضمون: قیام مختار

مختار بن ابی عبید ثقفی کا قیام، یزید اور امویوں کی حکمرانی کے خلاف واقعۂ عاشورا کے بعد تیسری بڑی تحریک کا نام ہے (جو واقعۂ حرہ اور قیام توابین کے بعد شروع ہوئی۔ اس تحریک کے امام سجادؑ کے ساتھ تعلق کے بارے میں بعض ابہامات پائے جاتے ہیں۔ یہ تعلق نہ صرف سیاسی تفکرات کے لحاظ سے بلکہ محمد بن حنفیہ کی پیروی کے حوالے سے، اعتقادی لحاظ سے بھی مبہم اور اس کے بارے میں کوئی یقینی موقف اپنانا مشکل ہے۔ روایت ہے کہ جب “مختار” نے کوفہ کے بعض شیعیان اہل بیتؑ کی حمایت حاصل کرنے کے بعد امام سجاد علیہ السلام کے ساتھ رابطہ کیا مگر امامؑ نے خیر مقدم نہیں کیا۔[58]

اصحاب

ایک روایت کے ضمن میں منقول ہے کہ امام سجادؑ کو صرف چند افراد کی معیت حاصل تھی: سعید بن جبیر، سعید بن مسیب، محمد بن جبیر بن مطعم، یحیی بن ام طویل، ابو خالد کابلی.[59]
شیخ طوسی، نے امام سجادؑ کے اصحاب کی مجموعی تعداد 173 بیان کی ہے۔ [60]
امام سجادؑ شیعیان اہل بیتؑ کی قلت کا شکوہ کرتے تھے اور فرماتے تھے مکہ اور مدینہ میں ہمارے حقیقی پیروکاروں کی تعداد 20 افراد سے بھی کم ہے۔ [61]

تقیہ

تفصیلی مضمون: تقیہ

اموی – علوی تعلق کی کیفیت کے پس منظر کے پیش نظر امام سجادؑ کو اموی حکمرانوں کی شدید بدگمانی کا سامنا تھا اور امامؑ کا کوئی معمولی سا کام بھی خطرناک نتائج پر ختم ہوسکتا تھا اور فطری سی بات تھی کہ اس قیمت پر کسی قسم کے اقدامات کرنا مناسب نہ تھا۔ اہم ترین دینی اور سیاسی اصول جس کے سائے میں امام سجادؑ زندگی بسر کررہے تھے وہ تھا: “تقیّہ”۔
امام سجادؑ نہایت دشوار حالات میں زندگی بسر کررہے تھے اور آپ کے پاس تقیہ کے سوا کوئی چارہ کار نہ تھا۔ اصولی طور پر یہی تقیہ ہی ہے جس نے اُس زمانے میں شیعیان آل رسولؐ کو تحفظ دیا۔
روایت ہے کہ ایک شخص نے امام سجادؑ کی خدمت میں حاضر ہوکر پوچھا: زندگی کس طرح گذر رہی ہے؟ امامؑ نے جواب دیا:
“زندگی اس طرح سے گذار رہے ہیں کہ اپنی قوم کے درمیان ویسے ہی ہیں جیسے کہ بنی اسرائیل آل فرعون کے درمیان تھے، ہمارے لڑکوں کو ذبح کر ڈالتے ہیں ہماری عورتوں کو زندہ رکھ لیتے ہیں؛ لوگ ہمارے بزرگ اور ہمارے سید و سردار پر سبّ اور دشنام طرازی کرکے ہمارے دشمنوں کی قربت حاصل کرتے ہیں؛ اگر قریش دوسرے عربوں کے سامنے فخر کرتے ہیں کہ رسول اللہ قریش میں سے تھے اور اگر عرب فخر عجم پر تفاخر کرتے ہیں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ عرب تھے اور اگر قریش اس حوالے سے اپنے لئے فوقیت اور برتری کے قائل ہیں تو ہم اہل بیت کو قریش پر برتر ہونا چاہئے اور ہمیں ان کے سامنے اس فضیلت پر فخر کرنا چاہئے کیونکہ محمدؐ ہم اہل بیت میں سے ہیں۔ مگر انھوں نے ہمارا حق ہم سے چھین لیا اور ہمارے لئے کسی بھی حق کے قائل نہيں ہیں۔ اگر تم نہيں جانتے کہ زندگی کس طرح گذر رہی ہے تو جان لو کہ زندگی اس طرح گذر رہی ہے جیسا کہ میں نے کہا”۔ راوی کہتا ہے کہ امامؑ اس طرح سے بات کررہے تھے کہ صرف قریب بیٹھے ہوئے افراد سن سکیں۔[62]

آثار اور کاوشیں

حدیث امام سجادؑ کی التجا بدرگاہ پروردگار: “اللهم اجعلني أهابهما هيبة السلطان العسوف، وأبرهما بر الام الرؤف، واجعل طاعتي لوالدي وبري بهما أقر لعيني من رقدة الوسنان، وأثلج لصدري من شربة الظمأن حتى أوثر على هواي هواهما، وأقدم على رضاي رضاهما، وأستكثر برهما بي وإن قل، وأستقل بري بهما وإن كثر”۔
بار پروردگارا! مجھے یوں قرار دے کہ والدین سے اس طرح ڈروں جس طرح کہ کسی جابر بادشاہ سے ڈرا جاتا ہے اور اس طرح ان کے حال پر شفیق ومہربان رہوں (جس طرح شفیق ماں ) اپنی اولاد پر شفقت کرتی ہے اوران کی فرما نبرداری اوران سے حسن سلوک کے ساتھ پیش آنے کو میری آنکھوں کے لیے، چشم خواب آلود میں نیند کے خمار سے زیادہ، کیف افزا اور میرے قلب و روح کے لئے، پیاسے شخص کے لئے ٹھنڈے پانی سے زیادہ، دل انگیز قرار دے؛ حتی کہ میں ان کی خواہش کو اپنی خواہشات پر فوقیت دوں اور ان کی خوشنودی کو اپنی خوشی پر مقدم رکھوں اور جو احسان وہ مجھ پر کریں اس کو زیادہ سمجھوں خواہ وہ کم ہی کیوں نہ ہو اور ان کے ساتھ اپنی نیکی کو کم سمجھوں خواہ وہ زیادہ ہی کیوں نہ ہو۔ [63]

صحیفہ سجادیہ اور رسالۃ الحقوق امام سجادؑ کی کاوشوں میں سے ہیں۔ [64]

صحیفہ سجادیہ، امام سجادؑ کی دعاؤں پر مشتمل کتاب ہے جو صحیفہ کاملہ، اخت القرآن، انجیل اہل بیت اور زبور آل محمد کے نام سے مشہور ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

رسالۃ الحقوق بھی امام سجاد علیہ السلام سے منسوب رسالہ ہے جو روایت مشہورہ کے مطابق 50 حقوں پر مشتمل ہے اور زندگی میں ان کو ملحوظ رکھنا ہر انسان پر لازم ہے۔ پڑوسیوں کا حق، دوست کا حق، قرآن کا حق، والدین کا حق اور اولاد کا حق، ان حقوں میں شامل ہیں۔[65]

حوالہ جات

  1. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۴۶۶؛ شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۳۷؛ طبرسی، اعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص۲۵۶؛ اربلی، کشف الغمہ، ۱۳۸۱ق، ج۲، ص۷۳۔
  2. طبرسی، اعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص۲۵۶؛ ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی‌طالب، ۱۳۷۹ق، ج۴، ص۱۷۵۔
  3. شہیدی، زندگانی علی بن الحسین(ع)، ۱۳۸۰ش، ص۳۲۔
  4.  شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۳۷؛ ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی‌طالب، ۱۳۷۹ق، ج۴، ص۱۷۵۔
  5.  طبرسی، اعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص۲۵۶؛ ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی‌طالب، ۱۳۷۹ق، ج۴، ص۱۷۵۔
  6. اربلی، کشف الغمہ، ۱۳۸۱ق، ج۲، ص۷۳۔
  7.  طبرسی، اعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص۲۵۶؛ ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی‌طالب، ۱۳۷۹ق، ج۴، ص۱۷۵۔
  8.  شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۳۷۔
  9.  شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا، ۱۳۷۸ش، ج۲، ص۱۲۸۔
  10.  طبرسی، اعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص۲۵۶؛ ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی‌طالب، ۱۳۷۹ق، ج۴، ص۱۷۵؛ ذہبی، سیر اعلام النبلاء، ۱۴۱۴ق، ج۴،ص۳۸۶۔
  11.  طبرسی، اعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص۲۵۶؛ ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی‌طالب، ۱۳۷۹ق، ج۴، ص۱۷۵؛ ذہبی، سیر اعلام النبلاء، ۱۴۱۴ق، ج۴، ص۳۸۶؛ ذہبی، العِبَر، دار الکتب العلمیہ، ج۱، ص۸۳.
  12.  ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۵، ص۲۲۲؛ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ۱۹۶۲م، ج۱۵، ص۲۷۳۔
  13. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۴۶۶؛ شیخ مفید، الإرشاد، ۱۴۱۳ق، ج‏۲، ص۱۳۷؛ مسعودی، مروج الذہب، ج۳، ص۱۶۰۔
  14.  اربلی، کشف الغمہ، ۱۳۸۱ق، ج۲، ص۸۲؛ شبراوی، الإتحاف بحب الأشراف، ۱۴۲۳ق، ص۲۷۶۔
  15.  امین، أعیان الشیعۃ، ۱۴۰۳ق، ج‏۱، ص۶۲۹۔
  16.  طبرسی، اعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص۲۵۶؛ شبراوی، الإتحاف بحب الأشراف، ۱۴۲۳ق، ص۲۷۶۔
  17.  قمی، منتہی الآمال، ۱۳۷۹ش، ج‏۲، ص۱۱۶۷۔
  18.  اربلی، کشف الغمہ، ۱۳۸۱ق، ج۲، ص۸۲.
  19.  امین، أعیان الشیعۃ، ۱۴۰۳ق، ج‏۱، ص۶۲۹۔
  20.  شبراوی، الاتحاف بحب الاشراف، ۱۴۲۳ق، ص۲۷۶و۲۷۷۔
  21.  شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۳۸؛ طبرسی، اعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص۲۵۶۔
  22.  کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۴۶۶؛ شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۳۷؛ اربلی، کشف الغمہ، ۱۳۸۱ق، ج۲، ص۸۲۔
  23.  کلینی، الکافی ج6 ص474۔
  24.  نہیں مجھے توفیق مگر اللہ کی طرف سے: مجلسی، بحار الانوار، ج46 ص14۔
  25.  رسوا اور بدبخت ہوا قاتل حسین بن علی کا: کلینی، وہی ماخذ ج6 ص474۔
  26.  صدوق، الأمالی، ص 131۔
  27.  مفید، الارشاد، ص380؛ ابن شہر آشوب، مناقب، ج4، ص189؛ ابن جوزی، تذکرۃ الخواص، ص333-332۔
  28.  المفید، الارشاد، بیروت: مؤسسۃ آل البیتؑ لتحقیق التراث، 1414/1993، ص 155، طبرسی، اعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص۲۶۲۔
  29. کافی، ج1، صص 188-189.
  30. مفید، الاختصاص، ص211؛ منتخب الاثر باب هشتم ص97؛ طبرسی، اعلام الوری باعلام الهدی، ج2، ص182-181؛ عاملی، اثبات الهداة بالنصوص و المعجزات، ج2، ص 285۔ جابر بن عبداللہ کہتے ہیں کہ سورہ نساء کی آیت 59 (اطیعوا اللہ واطیعوا الرسول و اولی الامر منکم) نازل ہوئی تو رسول اللہؐ نے 12 ائمہ کے نام تفصیل سے بتائے جو اس آیت کے مطابق واجب الاطاعہ اور اولو الامر ہیں؛ بحارالأنوار ج 23 ص290؛ اثبات الهداة ج 3،‌ ص 123؛ المناقب ابن شهر آشوب، ج1، ص 283۔ سورہ علیؑ سے روایت ہے کہ ام سلمہ کے گھر میں سورہ احزاب کی آیت 33 (انما یرید الله لیذهب عنکم الرجس اهل البیت و یطهرکم تطهیرا) نازل ہوئی تو پیغمبر نے بارہ اماموں کے نام تفصیل سے بتائے کہ وہ اس آیت کا مصداق ہیں؛ بحارالأنوار ج36 ص337، کفایہ الأثر ص 157۔ ابن عباس سے مروی ہے کہ نعثل نامی یہودی نے رسول اللہؐ کے جانشینوں کے نام پوچھے تو آپؐ نے بارہ اماموں کے نام تفصیل سے بتائے۔ سلیمان قندوزی حنفی، مترجم سید مرتضی توسلیان، ینابیع المودة، ج 2، ص 387 – 392، باب 76۔
  31.  ابن‌سعد، الطبقات الکبری، ج 1، صص 486، 488؛ امین الاسلام فضل بن فضل بن حسن طبرسی، اعلام الوری باعلام الہدی، ص207
  32.  شیخ مفید، الارشاد، مؤسسہ الاعلمی للمطبوعات، ص 254; مجلسی، بحار الانوار، المکتبۃ الاسلامیۃ، ج 46، ص 12۔
  33. بخاری، رجال صحیح بخاری، ج 2، ص 527.
  34.  ابن منجویه، رجال صحیح مسلم، ج2،ص53.
  35.  ذہبی، سیر اعلام النبلاء، ج 4، ص 386؛ م‍زی، تہذیب الکمال، ج 13، ص 237.
  36.  ذهبی، العِبَر، ج 1، ص 83.
  37.  ابن عبد ربه، عقدالفرید، ج 3، ص 169؛ ذهبی، سیر اعلام النبلاء، ج 4، ص 392.
  38.  ذہبی، سیر اعلام النبلاء، ج 4، ص 392.
  39.  ذہبی، سیراعلام النبلاء، ج 4، ص 393.
  40. بی، سیر اعلام النبلاء، ج 4، ص 393.
  41.  ابو نعیم اصفہانی، حلیة الاولیاء ج 3 ص 136؛ کشف الغمه ج 2 ص 77؛ مناقب ج 4 ص 154؛ صفة الصفوة ج 2 ص 154؛ خصال ص 616؛ علل الشرایع ص 231؛ بحار ص 90؛ بحوالہ شہیدی، زندگانی علی بن الحسینؑ، صص 147-148.
  42.  طبقات ج 5 ص 160؛ به نقل شهیدی، زندگانی علی بن الحسینؑ، ص 148.
  43. کشف الغمه ج 2 ص 78؛ صفة الصفوة ج 2 ص 54؛ به نقل شهیدی، زندگانی علی بن الحسینؑ، ص 148.
  44. کشف الغمه ج 2 ص .107، ابو نعیم اصفہانی، حلیة الاولیاء ج 3 ص 140؛ بحوالہ شہیدی، زندگانی علی بن الحسینؑ، ص 148.
  45. حلیة الاولیاء ج3 ص 136، طبری حصہ 3 ص 2482، طبقات ابن سعد ج5 ص162؛ بحوالہ شہیدی، زندگانی علی بن الحسینؑ، ص 148۔
  46. صفة الصفوة ج 2 ص 54؛ حلیة الاولیاء ج 3 ص 136؛ طبقات ج 5 ص 164؛ بحوالہ شهیدی، زندگانی علی بن الحسینؑ، ص 148.
  47. اوپر جائیں کشف الغمه ج 2 ص 77؛ مناقب ج 4 ص 154؛ حلیة الاولیاء ج 3 ص 136؛ بحار ص 137؛ به نقل شهیدی، زندگانی علی بن الحسینؑ، ص 148.
  48.  سید الاهل، زین العابدین، صص 7، 47.
  49.  شیخ مفید، الارشاد، ج 2، ص 113 و طبرسی، اعلام الوری،ج 1، ص 469.
  50.  مازندرانی، ابن شهر آشوب، مناقب آل ابیطالب، ج 3، ص 261 ؛ طبرسی، الاحتجاج، مشهد، ج 2، ص 305 و شیخ عباس قمی، منتهی الامال،ج 1، ص 733.
  51.  سید بن طاووس، اللہوف ، ص 220-222؛ طبرسی، الاحتجاج، ج 2، ص 306؛ قمی، منتہی الامال، ج 1، ص 733.
  52. مجلسی، بحار الانوار ، ج 45، ص 117؛ سید بن طاووس، اللہوف، ص 228.
  53. سید بن طاووس، اللہوف ، ص 248 و ابن سعد، الطبقات الکبری، ج 10، ص 448 و حلی، مثیر الاحزان، ص 78 و ابومخنف، مقتل الحسین، ص 240.
  54.  ابن سعد، الطبقات الکبری، ج 10، ص 448.
  55.  سید بن طاووس، اللہوف ، ص 290 و مجلسی، بحار الانوار، ج 45، ص 149 و شیخ عباس قمی، نفس المہموم ، ج 1، ص 794.
  56.  دیکھیں: رمخشری، ربیع الابرار، ج1، ص353؛ طبری، تاریخ الطبری، ج5، ص245؛ دینوری، الامامه و السیاسه، ج1، ص208۔ حرہ کے واقعے میں یزیدی لشکر کے حملے میں مسلم بن عقبہ نے 700 عمائدین سمیت اہل مدینہ کے دس ہزار افراد کو قتل کیا۔ [خلیفة بن خیاط، تاریخ خلیفة بن خیاط، قسم1، ص291] ابن قتیبہ لکھتا ہے کہ یزید کے کمانڈر مسلم بن عقبہ نے صحابہ میں سے ستر افراد کو قتل کرکے ان کے سر تن سے جدا کردیئے [دینوری، ابو محمد ابن قتیبة الامامة والسیاسة، ج 1، ص 213- 212٫] مسلم بن عقبہ نے اہل مدینہ کے جان و مال کو غارت کرنے کے بعد یزید کے براہ راست حکم پر تین دن کی عرصے تک مدنی عوام کی ناموس کو اپنی سپاہ کے لئے مباح کردیا اور ایک ہزار کنواری لڑکیوں کی بکارت زائل ہوئی اور حرہ کے بعد ہزاروں عورتوں نے بنا شوہر کے زنا کے بچوں کو جنم دیا جن کو اولاد الحرہ کا نام دیا گیا۔ ایک قول کے مطابق 10 ہزار کنواری لڑکیوں کو زيادتی کا نشانہ بنایا گیا اور اس کے بعد اہلیان مدینہ نے آزاد مسلمانوں کے طور پر نہيں بلکہ “عبد یزید” (یزید کے بندوں) کے طور پر یزید کی بیعت کی اور جس نے بیعت سے انکار کیا مسرف نے اس سے سپرد شمشیر کیا۔ سوائے علی بن عبداللہ بن عباس کے جس کو مسرف کی فوج میں موجود اپنے رشتہ داروں نے بچا لیا۔ [مسعودی، ابو الحسن على، مروج الذهب، ج1، ص 328٫] تحریک حرہ کے فعال کارکنوں نے مسرف کی چڑھائی سے قبل ایک ہزار امویوں یا امویوں کے بہی خواہوں کو مدینہ سے نکال باہر کیا تو بعض اموی خاندانوں نے امام سجادؑ کے گھر میں پناہ لی اور جب مسرف کے فوجیوں نے شہر میں لوٹ مار کا آغاز کیا تو امامؑ کا گھر مدنی مظلومین کے لئے پرامن ٹھکانے میں تبدیل ہوا تھا اور حتی کہ مسرف کی واپسی تک سو کے قریب خواتین اور بچے آپ کے گھر میں میں تھے اور ان کی ضروریات پوری ہوتی رہیں {طبرى‏، أبو جعفر محمد بن جریر، تاریخ طبرى ج 2، ص 482٫]۔
  57.  دیکھئے: جعفری، تشیع در مسیر تاریخ، ص286.
  58.  طوسی، رجال الکشی، ص126؛ طوسی، اختیار معرفة الرجال، ص 126.
  59.  طوسی، اختیار معرفة الرجال، ص 115؛ طوسی، اختیار معرفة الرجال، ص 123
  60.  طوسی، اختیار معرفة الرجال، ص 115.
  61.  ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغه، ج 4، ص 104، و نک: مجلسی، بحارالانوار، ج 46، ص 143؛ الغارات، ص 573.
  62.  سید ابن طاووس، اللہوف، ص193؛ تاریخ سیاسی اسلام، رسول جعفریان، ج 3، ص 252
  63.  صحیفہ سجادیہ، دعای 24، ص 152.
  64.  دیکھئے: شہیدی، علی بن الحسین، ص191-169.
  65.  شهیدی، علی بن الحسین، ص170-169.

مآخذ

  • قرآن بمع اردو ترجمہ سید علی نقی نقوی (نقن)۔
  • نہج البلاغہ، اردو ترجمہ مفتی جعفر حسین۔
  • امام سجاد، صحیفہ سجادیہ۔
  • ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، تحقیق محمد ابوالفضل ابراہیم، بیروت، دار احیاء الکتب العربیۃ، ۱۹۶۲ء۔
  • ابن عنبہ، احمد بن علی، عمدۃ الطالب فی أنساب آل أبی طالب، تصحیح محمدحسن آل الطالقانی، نجف، منشورات المطبعۃ الحیدریۃ، ۱۳۸۰ق/۱۹۶۱ء۔
  • ابن قولویہ، جعفر بن محمد، کامل الزیارات، نجف، مطبعۃ المبارکۃ المرتضویۃ، ۱۳۵۶ھ۔
  • ابن مشہدی، محمد بن جعفر، المزار الکبیر، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، ۱۳۷۸شمسی ہجری۔
  • ابن کثیر، البدایۃ والنہایۃ، تحقیق علی شیری، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، ۱۴۰۸ق/۱۹۸۸ء۔
  • امین، سید محسن، اعیان الشیعہ، بیروت، دارالتعارف، ۱۴۰۳ھ۔
  • امینی، عبدالحسین، تکملۃ الغدیر: ثمرات الاسفار الی الاقطار، تحقیق مرکز الامیر لاحیاء التراث الاسلامی، بیروت، مرکز الغدیر للدراسات و النشر و التوزیع، ۱۴۲۹ق/۲۰۰۸ء۔
  • ذہبی، محمد بن احمد، تذکرۃ الحفاظ، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، بی‌تا.
  • ذہبی، محمد بن احمد، سیر أعلام النبلاء، تحقیق شعیب ارناووط، بیروت، مؤسسۃ الرسالۃ، ۱۴۱۴ھ۔
  • سید الاہل، عبدالعزیز، زین العابدین، قاہرہ، مکتبۃ وہبۃ، ۱۹۶۱ء۔
  • شبروای، جمال الدین، الإتحاف بحب الأشراف، قم، دارالکتاب، ۱۴۲۳ھ۔
  • شہیدی، سید جعفر، زندگانی علی بن الحسین(ع)، تہران، دفتر نشر فرہنگ اسلامی، چاپ سیزدہم، ۱۳۸۵شمسی ہجری۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، عیون أخبار الرضا(ع)، تہران، نشر جہان، چاپ اول، ۱۳۷۸شمسی ہجری۔
  • شیخ مفید، محمد بن محمد، الإختصاص، بیروت، دار المفید، ۱۴۱۴ھ۔
  • شیخ مفید، محمد بن محمد، الارشاد فی معرفۃ حجج اللہ علی العباد، قم، کنگرہ شیخ مفید، ۱۴۱۳ھ۔
  • صحیفہ سجادیہ، ترجمہ اسداللہ مبشری، تہران، نشر نی، ۱۳۷۰شمسی ہجری۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، إعلام الوری بأعلام الہدی، قم، مؤسسۃ آل البیت لإحیاء التراث، ۱۳۷۶شمسی ہجری۔
  • قمی، شیخ عباس، منتہی الامال فی تواریخ النبی و الال، قم، دلیل ما، ۱۳۷۹شمسی ہجری۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تصحیح علی‌اکبر غفاری و محمد آخوندی، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، چاپ چہارم، ۱۴۰۷ھ۔
  • منتظر القائم، اصغر، تاریخ امامت، قم، دفتر نشر معارف، چاپ پانزدہم، ۱۳۹۰شمسی ہجری۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply