میرے پچاس برس کے دوستو۔۔صفیہ حیات

از سر نو محبت کا سوچیں
کہ
بات زندگی جینے کی ہے
بات محبت کی ہے
اور
محبت میں شرک کیسا
جاؤ
کسی مزارکی جالی سے دھاگہ باندھو
کبوتروں کو دانہ ڈالو
پرندوں کو آزاد کرو
رشتوں کی گرہیں کھولو
قہقہے بانٹو
نئے گیت کی دھن پہ
رقص کرو
پانی پہ تیرتے پتےّ کی مستی کو دیکھو
پھر مست ہو جاؤ
کچھ لمحے جی لو
کہ جانے کل کا سورج ہمارا ہو نہ ہو
آج تو سب ہمارا ہے
وہ دور اداس بیٹھا پچاس برس کا نوجوان بوڑھا
ہمارا دوست ہے
مسکرانا بھول گیا ہے
آؤ اسے ہنسنا سکھائیں
ایک سموسہ لے کر چھین کے کھائیں
تھک ہار کر سورج کو ڈوبتا دیکھیں
ماں کی پیار بھری ڈانٹ کو یاد کرکے مسکرائیں
اور گھر لوٹ جائیں
مگر مسکرانا نہ بھولیں!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply