​ہندی غزل۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

بھرے پُرے میلے میں گئے تھے کس کے سہارے، بھول گئے
کس کی انگلی مُٹھی میں تھی، ہم بے چارے بھول گئے

پیاس سے منہ میں آگ لگی تو جھرنے کھوجے گلی گلی میں
چھاگل گھر سے لے کے چلے تھے، پیاس کے مارے بھول گئے

پڑ گئے اپنی جان کے لالے، کیسے سپیرے تھے ہم بھی
اک ناگن کو گلے لگایا، منتر سارے بھول گئے

اک چر واہی پگڈنڈی پر بیٹھی رستہ تکتی ہے
اُس بستی کا رستہ جب سے ہم بنجارے بھول گئے

ڈولی اٹھی، یا چِتا پہ بیٹھی، سب تھا ایک سمان اُسے
یاد رہیں دو روتی آنکھیں، چہرے سارے بھول گئے

جیون کی جب شام ہوئی تو سوچا، گھر بھی ہو آئیں
کتنے دن جوبن کے تھے اور کہاں گذارے، بھول گئے

Advertisements
julia rana solicitors

آنند، ہم تو پتھر تھے، شِو لِنگ کا ہردیہ رکھتے تھے
پوجا ہوئی،   یا ٹھوکر کھائی، ہم بے چارے بھول گئے

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply