مری جان آؤ…..ڈاکٹر صابرہ شاہین

مری جان آؤ
چلو خواب بنتے ہیں
پھر سے مری جاں
مگر اپنی آنکھیں تو۔۔۔ گدلا چکی ہیں
کوئی خواب بھولے سے
اترا بھی ان میں
تو کالا سا۔۔۔۔میلا ۔ ۔یونہی ادھ موا سا
پھٹی آنکھوں کی
چھدری چھدری سی پلکوں میں۔۔۔۔رویا کرے گا
چلو شرط بد  لیں۔۔۔
کہ ا ن سبز کھیتوں کے دل میں ہمکتے،گھنے جامنوں کی
ٹھنڈی تھار چھاوں تلک بھاگتے ہیں
مگر۔۔۔گھٹنے، گٹے، یہ لاغر سی ٹانگیں ہیں انکاری اس سے۔۔۔
تو کیا پھر یونہی۔۔۔راکھ رستے پہ بیٹھے
قضا کی سواری کی ہم
راہ دیکھیں۔۔؟
نہیں ۔۔۔میرے ہم راہی
آؤ چلو پھر۔ ۔۔۔۔
تخیل کے رتھ پر
آفق پار کی ہنستی رنگین بستی
کی جانب چلیں ہم
وہ بستی کہ جس کی تراوٹ میں جیون کی
دھارا ۔۔۔۔بہے جارہی ہے
اسی کے کنارے پہ
ہم اپنے خوابوں کی
اک جھگی ڈالیں
وہاں سرمئی شام کی سنگتوں میں
میں بنسی بجاؤں تو تم
رقص کرتے ہوئے مسکراؤ
مری جان آؤ۔۔۔۔۔۔۔۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply