ستیہ پال آنند، - ٹیگ     ( صفحہ نمبر 2 )

اثر گرمیٔ رفتار۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

خارہااز اثر گرمی رفتار می سوخت منّتے ہرقدم راہ روانست مرا (غالب) شعر کا آزاد ترجمہ کچھ یوں ہے: میری تیز روی کی حدت نے راہ میں بکھرے ہوئے کانٹوں کو جلا کر راکھ کر دیا ہے۔ اس لئے اب←  مزید پڑھیے

برص زدہ، بدصورت چہرہ۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

ہم فاسق، فاجر ہیں، مولا ہم عاصی، بدکار ہیں، لیکن ہم تیرے بندے ہیں، مالک ناقص، اسفل، خطا کار ہیں نا بکار، آثم، بے تائب لیکن تیرے روپ کے داعی ہم تیرے ہی جنم جات ہیں ولی، سنت ، صوفی←  مزید پڑھیے

اردو زبان کے جدید کلاسک شاعر ستیہ پال آنند۔۔فاروق سرور

ستیہ پال آنند کی خوفناک تصویر آنند جی دکھ کی باتیں نہ کریں پشتو زبان کی خوبصورت لہجے کی شاعرہ حسینہ گل تنہا کاکا خیلہ کی نظم “لچهے والا” رہتا تو یہ شخص یورپ میں ہے ،ہے بهی بوڑها ،←  مزید پڑھیے

دردِ زہ عرف سنامی(ایک لوک کہانی)۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

ذرا سا پلٹ کر سمندر نے اک آنکھ کھولی کہا خود سے، اب کیا کروں میں، بتاؤ مرے پیٹ میں آگ کا زلزلہ جس کی بنیاد صدیاں ہوئیں ۔۔۔ کچھ دراڑوں میں رکھی گئی تھی نکلنے کو اب کسمسانے لگا←  مزید پڑھیے

ستیہ پال آنند کی نظم،”مجاز مرسل کی حد کہاں ہے” نظم اور اس کا تجزیہ ناصر عباس نیر کے قلم سے (۱۹۰۵)

مجاز مرسل کی حد کہاں ہے ہزاروں، لاکھوں ہی سیڑھیاں ہیں نشیب میں سب سے نچلی سیڑھی پہ میں کھڑا ہوں تھکا ہوا، بے امان، درماندہ، بے سہارا مگر ارادے میں سر بکف، ولولے میں پا مرد، دPھن کا پکا←  مزید پڑھیے

لما تقالون ما لا تفعلون۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

اِّن اللہ جمیل و یَحِب ُّ الجَمال جو سوال میرے ذہن میں اکثر اٹھتا  ہے وہ یہ ہے کہ کیا وحدت الوجود اور وحدت الشہود قطبینی مجموعہ الضدین ہیں؟ ’’تذکرہ غوثیہ‘‘ میں وجود اور شہود کے مابین فرق کو اس←  مزید پڑھیے

ستیہ پال آنند کی ایک نظم اور عملی تنقید کے اصولوں پر مبنی اس کا تجزیہ(تیسرا زخم)۔۔ڈاکٹر عائشہ الجدید

نظم باہم ضم ہوتی ہوئی تین movements کے امتزاج سے ترتیب پاتی ہے۔ بہاؤ کی پہلی لہر ڈرامائی انداز میں نظم کے واحد متکلم کے شانوں پر بیٹھے ہوئے دو فرشتوں کا انتباہ ہے جو اسے (یعنی متکلم کو) آگے بڑھنے اور کوئی قدم اُٹھانے سے پہلے سنبھلنے اور عفو و رحمت کے فلسفے کو سمجھنے کی تلقین کر رہے ہیں←  مزید پڑھیے

دولت بہ غلط نبود از سعی پشیماں شو / کافر نہ توانی شد، ناچار مسلماں شو۔۔۔مرزا غالب سے خطاب از ستیہ پال آنند

ستیہ پال آنند: تو کیا ہے؟ مسلماں ہے یا کافر ِ زنـاری؟  کچھ بھی ہے، سمجھ خود کو اک معتقد و مومن  مخدوم و مکرم ہو، ماجد ہو، مقدس ہو ممت اذ و منور ہو، برتر ہو زمانے سے ہاں، دولت ِ لافنی ہے، رتبہ ء شہ بالا←  مزید پڑھیے

اللہ سے التماس۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

(ARS MORIENDI ) اللہ سے التماس پھونکی تھی اگر روح تو اتنا کرتے اک سانس سے مجھ میں بھی خدائی بھرتے فَخُتُ فِیُیہِ مِن روحِیُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کبھی جکڑے ہو ئے بانہوں  میں اس کو کان میں سرگوشیاں کرتے ہوئے پھسلائے←  مزید پڑھیے

نظم ِ نو سیریز/اپنی آنکھیں کھول دوں یا بند رکھوں؟۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

جب بھی آنکھیں کھولتا ہوں جانی پہچانی یہی دنیا نظر آتی ہے مجھ کو جب بھی آنکھیں بند کر کے اپنے اندر جھانکتا ہوں اور ہی دنیا کا نقشہ دیکھتا ہوں کچھ عجب منظر ہے اندر گندگی اک عمر بھر←  مزید پڑھیے

شعر مرزا غالب کا، نظم ستیہ پال آنند کی، تبصرہ شمس الرحمن فاروقی کا

شعر نہ لٹتا دن کو تو یوں رات کو کیوں بے خبر سوتا رہا کھٹکا نہ چوری کا، دعا دیتا ہوں رہزن کو  نظم ستیہ پال آنند بہت ہی خوبصورت شعر ہے یہ بندہ پرور ، پر مجھےیہ رہزنی ،←  مزید پڑھیے

نظم ِ نو سیریز/وقت کا شائی لاک۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

میں کیا کروں، خود سے پوچھتا ہوں کہ قرض میں بال بال میرا بندھا ہوا ہے یہ قرض صدیوں کا، جس کا جوا مرے نحیف و نزار بچپن کے نرم کندھوں پہ پیدا ہوتے ہی رکھ کے مجھ کو کہا←  مزید پڑھیے

​گیارہواں طاعون۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

کہا جاتا ہے کہ فرعون ِ مصر نے ایک پیش بین کی آنکھیں ، جس نے طاعون کے نازل ہونے کی پیشین گوئی کی تھی، گرم سلائیوں سے اندھی کروا دی تھیں! ۔۔۔۔۔۔ میری آنکھوں کو اندھا کرنے کی خاطر←  مزید پڑھیے

غالب کمرہء جماعت میں (سیریز۔3)۔۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

​ نہ حشر و نشرکاقائل، نہ کیش و ملت کا خدا کے واسطے، ایسے کی پھر قسم کیا ہے طالبعلم ایک ذرا جو غور سے دیکھا تو یہ نظر آیا “خدا کے واسطے” خود میں ہی اک قسم ہے، جناب←  مزید پڑھیے

غالب کمرہء جماعت میں (سیریز۔2)۔۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

اسد ؔ بزم ِ تماشا میں تغافِل پردہ دار ی ہے اگر ڈھانپے توُ آنکھیں ڈھانپ، ہم تصویر ِ عر یاں ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔ طالبعلم ایک اسد خود سے مخاطب تو نہیں اس شعر میں شاید یہ کوئی اورہی ہے جو←  مزید پڑھیے

غالب کمرہء جماعت میں (سیریز۔1)۔۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

یک قدم وحشت سے درس ِ دفتر ِ امکاں کھلا جادہ اجزائے دو عالم دشت کا شیرازہ تھا طالبعلم -ایک یک قدم وحشت؟ فقط اک ہی قدم کیا ؟ اک قدم ہی سرحد ِ قائم مزاجی سے پرے؟ اک قدم←  مزید پڑھیے

لاوارث۔۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

​(سمتھسونین انسٹیٹیوٹ واشنگٹن ڈی سی میں منعقد کی گئی قدیم ہندوستانی نوادر کی ایک نمائش دیکھنے کے بعد) چھ ہزار برسوں کی جاگتی ہوئی آنکھیں اس گپھا کے اندر تک میرا پیچھا کرتی ہیں مجھ سے پوچھتی ہیں کچھ اس←  مزید پڑھیے

​ فَا عتَبِرُوُ یا اولی اَلبصار۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

کیسی بینائی، کہاں کی پیش بینی؟ جانتے بھی ہیں کہ دشمن کون ہے لیکن سبھی پنبہ دہن ہیں دائیں بائیں دیکھتے سب ہیں مگر یہ سوچنا اک چیستاں ہے کون مار آستیں ہے؟ کس نے پھن کاڑھا ہواہے؟ دور بیں←  مزید پڑھیے

کفن کی جیب کہاں ہے؟۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

یہ تین دن بہت بھاری ہیں مجھ پہ جانتا ہوں مجھے یہ علم ہے، تم اپنے اختیارات کے تحت مری حیات کا اعمال نامہ پرکھو گے برائیوں کا، گناہوں کا جائزہ لو گے میں جانتا ہوں فرشتو کہ مجھ پہ←  مزید پڑھیے

نسل کا آخری نمائندہ۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

​PANDEMIC POEMS. یہ نطمیں پہلے انگریزی میں لکھی گئیں۔ نسل کا آخری نمائندہ وہ جو ہر روز اپنی کھڑکی سے جھانکتا ہے کہ دور سے کوئی راہرو آئے اور وہ اس کو گھر میں مدعو کرے، محبت سے بیٹھ کر←  مزید پڑھیے