خارہااز اثر گرمی رفتار می سوخت منّتے ہرقدم راہ روانست مرا (غالب) شعر کا آزاد ترجمہ کچھ یوں ہے: میری تیز روی کی حدت نے راہ میں بکھرے ہوئے کانٹوں کو جلا کر راکھ کر دیا ہے۔ اس لئے اب← مزید پڑھیے
ہم فاسق، فاجر ہیں، مولا ہم عاصی، بدکار ہیں، لیکن ہم تیرے بندے ہیں، مالک ناقص، اسفل، خطا کار ہیں نا بکار، آثم، بے تائب لیکن تیرے روپ کے داعی ہم تیرے ہی جنم جات ہیں ولی، سنت ، صوفی← مزید پڑھیے
ستیہ پال آنند کی خوفناک تصویر آنند جی دکھ کی باتیں نہ کریں پشتو زبان کی خوبصورت لہجے کی شاعرہ حسینہ گل تنہا کاکا خیلہ کی نظم “لچهے والا” رہتا تو یہ شخص یورپ میں ہے ،ہے بهی بوڑها ،← مزید پڑھیے
ذرا سا پلٹ کر سمندر نے اک آنکھ کھولی کہا خود سے، اب کیا کروں میں، بتاؤ مرے پیٹ میں آگ کا زلزلہ جس کی بنیاد صدیاں ہوئیں ۔۔۔ کچھ دراڑوں میں رکھی گئی تھی نکلنے کو اب کسمسانے لگا← مزید پڑھیے
مجاز مرسل کی حد کہاں ہے ہزاروں، لاکھوں ہی سیڑھیاں ہیں نشیب میں سب سے نچلی سیڑھی پہ میں کھڑا ہوں تھکا ہوا، بے امان، درماندہ، بے سہارا مگر ارادے میں سر بکف، ولولے میں پا مرد، دPھن کا پکا← مزید پڑھیے
اِّن اللہ جمیل و یَحِب ُّ الجَمال جو سوال میرے ذہن میں اکثر اٹھتا ہے وہ یہ ہے کہ کیا وحدت الوجود اور وحدت الشہود قطبینی مجموعہ الضدین ہیں؟ ’’تذکرہ غوثیہ‘‘ میں وجود اور شہود کے مابین فرق کو اس← مزید پڑھیے
نظم باہم ضم ہوتی ہوئی تین movements کے امتزاج سے ترتیب پاتی ہے۔ بہاؤ کی پہلی لہر ڈرامائی انداز میں نظم کے واحد متکلم کے شانوں پر بیٹھے ہوئے دو فرشتوں کا انتباہ ہے جو اسے (یعنی متکلم کو) آگے بڑھنے اور کوئی قدم اُٹھانے سے پہلے سنبھلنے اور عفو و رحمت کے فلسفے کو سمجھنے کی تلقین کر رہے ہیں← مزید پڑھیے
ستیہ پال آنند:
تو کیا ہے؟ مسلماں ہے یا کافر ِ زنـاری؟
کچھ بھی ہے، سمجھ خود کو اک معتقد و مومن
مخدوم و مکرم ہو، ماجد ہو، مقدس ہو
ممت اذ و منور ہو، برتر ہو زمانے سے
ہاں، دولت ِ لافنی ہے، رتبہ ء شہ بالا← مزید پڑھیے
(ARS MORIENDI ) اللہ سے التماس پھونکی تھی اگر روح تو اتنا کرتے اک سانس سے مجھ میں بھی خدائی بھرتے فَخُتُ فِیُیہِ مِن روحِیُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کبھی جکڑے ہو ئے بانہوں میں اس کو کان میں سرگوشیاں کرتے ہوئے پھسلائے← مزید پڑھیے
جب بھی آنکھیں کھولتا ہوں جانی پہچانی یہی دنیا نظر آتی ہے مجھ کو جب بھی آنکھیں بند کر کے اپنے اندر جھانکتا ہوں اور ہی دنیا کا نقشہ دیکھتا ہوں کچھ عجب منظر ہے اندر گندگی اک عمر بھر← مزید پڑھیے
شعر نہ لٹتا دن کو تو یوں رات کو کیوں بے خبر سوتا رہا کھٹکا نہ چوری کا، دعا دیتا ہوں رہزن کو نظم ستیہ پال آنند بہت ہی خوبصورت شعر ہے یہ بندہ پرور ، پر مجھےیہ رہزنی ،← مزید پڑھیے
میں کیا کروں، خود سے پوچھتا ہوں کہ قرض میں بال بال میرا بندھا ہوا ہے یہ قرض صدیوں کا، جس کا جوا مرے نحیف و نزار بچپن کے نرم کندھوں پہ پیدا ہوتے ہی رکھ کے مجھ کو کہا← مزید پڑھیے
کہا جاتا ہے کہ فرعون ِ مصر نے ایک پیش بین کی آنکھیں ، جس نے طاعون کے نازل ہونے کی پیشین گوئی کی تھی، گرم سلائیوں سے اندھی کروا دی تھیں! ۔۔۔۔۔۔ میری آنکھوں کو اندھا کرنے کی خاطر← مزید پڑھیے
نہ حشر و نشرکاقائل، نہ کیش و ملت کا خدا کے واسطے، ایسے کی پھر قسم کیا ہے طالبعلم ایک ذرا جو غور سے دیکھا تو یہ نظر آیا “خدا کے واسطے” خود میں ہی اک قسم ہے، جناب← مزید پڑھیے
اسد ؔ بزم ِ تماشا میں تغافِل پردہ دار ی ہے اگر ڈھانپے توُ آنکھیں ڈھانپ، ہم تصویر ِ عر یاں ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔ طالبعلم ایک اسد خود سے مخاطب تو نہیں اس شعر میں شاید یہ کوئی اورہی ہے جو← مزید پڑھیے
یک قدم وحشت سے درس ِ دفتر ِ امکاں کھلا جادہ اجزائے دو عالم دشت کا شیرازہ تھا طالبعلم -ایک یک قدم وحشت؟ فقط اک ہی قدم کیا ؟ اک قدم ہی سرحد ِ قائم مزاجی سے پرے؟ اک قدم← مزید پڑھیے
(سمتھسونین انسٹیٹیوٹ واشنگٹن ڈی سی میں منعقد کی گئی قدیم ہندوستانی نوادر کی ایک نمائش دیکھنے کے بعد) چھ ہزار برسوں کی جاگتی ہوئی آنکھیں اس گپھا کے اندر تک میرا پیچھا کرتی ہیں مجھ سے پوچھتی ہیں کچھ اس← مزید پڑھیے
کیسی بینائی، کہاں کی پیش بینی؟ جانتے بھی ہیں کہ دشمن کون ہے لیکن سبھی پنبہ دہن ہیں دائیں بائیں دیکھتے سب ہیں مگر یہ سوچنا اک چیستاں ہے کون مار آستیں ہے؟ کس نے پھن کاڑھا ہواہے؟ دور بیں← مزید پڑھیے
یہ تین دن بہت بھاری ہیں مجھ پہ جانتا ہوں مجھے یہ علم ہے، تم اپنے اختیارات کے تحت مری حیات کا اعمال نامہ پرکھو گے برائیوں کا، گناہوں کا جائزہ لو گے میں جانتا ہوں فرشتو کہ مجھ پہ← مزید پڑھیے
PANDEMIC POEMS. یہ نطمیں پہلے انگریزی میں لکھی گئیں۔ نسل کا آخری نمائندہ وہ جو ہر روز اپنی کھڑکی سے جھانکتا ہے کہ دور سے کوئی راہرو آئے اور وہ اس کو گھر میں مدعو کرے، محبت سے بیٹھ کر← مزید پڑھیے