اثر گرمیٔ رفتار۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

خارہااز اثر گرمی رفتار می سوخت
منّتے ہرقدم راہ روانست مرا
(غالب)
شعر کا آزاد ترجمہ کچھ یوں ہے: میری تیز روی کی حدت نے راہ میں بکھرے ہوئے کانٹوں کو جلا کر راکھ کر دیا ہے۔ اس لئے اب (میرے پیچھے آنے والے رہ نوردوں کے لئے یہ راستہ ہموار ہو گیاہے)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کوئی مجھ سے یہ کہتا ہے
’’یہاں بیٹھو، ذرا آرام کر لو، تھک گئے ہو
ہزاروں کوس تو اب چل چکے ہو
یہ رستہ اب یہیں پر ختم ہوتا ہے، سمجھ لو
یہ پتھر کچھ ذرا ہموار سا ہے، بیٹھ جاؤ!‘‘
میں اپنے دائیں بائیں دیکھتا ہوں
کہیں کوئی نہیں باہر ، مرے اندر ہی کوئی بولتا ہے
ذرا جھک کر دریدہ پاؤں اپنے دیکھتا ہوں
تپکتے آبلوں میں نبض چلتی ہے
دھکا دھک دھک، دھکا دھک دھک!

Advertisements
julia rana solicitors

یہ کیسا راستہ دشتِ سخن کا تھا، جو میں نے طے کیا ہے
کہ آغاز سفر میں تو یہ کانٹوں سے بھرا تھا
نکیلے، تیز تھے خار مغیلاں
چُبھ رہے تھے میرے تلوؤں میں
کوئی سایہ نہیں تھا، دور تک اک خار زار بے اماں تھا!
میں اب پیچھے کی جانب دیکھتا ہوں
وہاں حّد نظر تک
(جس پڑاؤ سے کسی دن میں چلا تھا)
عجب منظر ہے پیچھے، دیکھتا ہوں، آنکھیں ملتا ہوں
فقط اک ٹیڑھا میڑھا راستہ ہے
کہاں خارِِ ِ مغیلاں ہیں؟ سبھی تو جل چکے ہیں
کہیں کچھ راکھ اب بھی اڑ رہی ہے!
یہ میری گرمئی رفتار تھی، میں جانتا ہوں
کہ جس نے خار و خس کو پھونک ڈالا ہے
یہ رستہ تو بہت ہموار سا لگنے لگا ہے!
تسلی سے (ذرا کچھ دلّگی سے) سوچتا ہوں
مری نظموں کے نقش ِ پا
مرے تلووں سے ٹپکے خون کے قطرے
مرے پیچھے جو آئیں گے، انہیں رستہ دکھائیں گے!

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply