روداد سفر /مولوی کے پاس صرف کہانیاں ہیں ۔۔قسط 46/شاکر ظہیر

ساتن ( shatian ) گاؤں میں ایک سال تک ہم مقیم رہے ۔ حنا بیٹی اسی اسکول میں پڑھتی تھی اور میری بیوی نے الگ مکان کرائے پر لے رکھا تھا اور وہ قرآن کلاس لیتی تھی ۔ مجھے بھی جب کام سے فراغت ہوتی تو وہیں آ جاتا اور مہینہ مہینہ وہاں رہتا ۔ کھمننگ ( Kunming ) ریلوے اسٹیشن حادثے کے بعد جس میں بقول گورنمنت کے چار ایغور مسلمانوں نے جن میں تین مرد اور ایک خاتون تھی چاقوؤں سے حملہ کرکے کئی لوگوں کو شدید زخمی کر دیا ساتن ( shatian ) شہر سے تمام غیر مقامی لوگوں کو ان کے علاقوں میں واپس بھیج دیا گیا اور شہر ویران سنسان ہو گیا ۔ آخری دفعہ جب میں بھی جا رہا تھا تو کھنمننگ ( Kunming ) سے ساتن ( shatian ) تک روڈ پر جگہ جگہ ناکے لگے تھے اور سخت چیکنگ ہو رہی تھی ۔ میرا پاسپورٹ بھی سکین کیا گیا اور اس کی فوٹو کاپیاں رکھی گئیں ۔ بہرحال اس ایک سال میں میری بیوی کا مسلمانوں کے متعلق رویہ اور خیالات اَسّی فیصد تبدیل ہو گئے تھے ۔ اب وہ سیدھی سیدھی ہی تنقید کرتی تھی اور میرے ساتھ بھی اس کا رویہ بہت ہی ترش ہو گیا ۔ ہماری جوڑی جو سب کے سامنے مثالی جوڑی کہلاتی اب بس دو چار باتوں کے بعد لہجے تلخ ہونا شروع ہو جاتے ۔ ایک دن خبر ملی کہ میرے دوست ریاض صاحب کی چائنیز مسلمان بیوی جس کا تعلق لانزو ( Lanzhou ) شہر سے تھا ، نے ان سے طلاق لے لی ۔ ریاض صاحب کا ایک بیٹا اور دو بیٹیاں تھیں اور ان کی شادی کو بائیس سال ہو چکے تھے ۔ پھر بہت عرصہ تک وہ منظر عام پر نہیں آئے ۔ بعد میں انہوں نے بتایا کہ وہ گوانزو ( Guangzhou ) چلے گئے تھے ۔ یہ حادثہ ان کےلیے بھی بہت غمناک تھا ۔ جس خاندان کو وہ بائیس سال تک اپنا اثاثہ سمجھتے رہے یک دم ٹوٹ گیا ۔ اور مجھے بھی انہوں نے یہ مشورہ دیا کہ جلد از جلد اپنی فیملی کو اس علاقے سے نکال لوں ۔

چائنیز نیو ائیر پر چائنا میں پندرہ دن کی چھٹیاں ہوتی ہیں ۔ بہت سی ٹورسٹ کمپنیاں لوگوں کو مختلف جگہوں کے وزٹ کا پیکج دیتی ہیں ۔ کچھ لوگوں کو یہاں اس ساتن ( shatian ) گاؤں میں چائنا کی سب سے بڑی مسجد بھی دیکھنے کےلیے ٹورسٹ کمپنیاں لے کر آئیں  ۔ مسجد والوں نے صحن میں میز کرسیاں لگائیں تھیں اور آنے والے ٹورسٹ کےلیے چائے ، بیکری ، کھجور وغیرہ کا انتظام کیا تھا ۔ اس کے علاؤہ کچھ اسلام پر چائنیز میں کتابچے بھی رکھے تھے ، جو دو تین دن بعد گورنمنٹ کے حکم پر اٹھا لیے گئے ۔ یہ خدا کی طرف سے ایک بہترین موقع تھا کہ آنے والوں کو اچھے طریقے سے خدا کا تعارف کروایا جائے ۔ لیکن میری مایوسی کی انتہاء تھی کہ وہی تبلیغی جماعت والے چوغے پہن کر انہیں مسواک کھجور کے فضائل بتا رہے تھے ۔ ایک دفعہ تو میری برداشت کی انتہاء ہو گئی اور میں ان کے مسجد میں موجود آفس چلا گیا اور ان کے امیر سے گفتگو شروع کی کہ یہ کیا کہانیاں سنانے والے آپ نے رکھے ہوئے ہیں جو غیر مسلموں کے سامنے تعارف پیش کر رہے ہیں ۔ کوئی فہم اور علم و دانش والے لوگ آپ کے پاس نہیں ۔ انہوں نے جواب دیا کہ دو دو سال پاکستان میں جماعت کے ساتھ لگا کر آئے ہیں ان کے خلوص پر کوئی شک و شبہ نہیں ہو سکتا ۔ میں نے کہا خلوص کا اچار ڈالنا ہے ۔ کوئی دین کا ایسا طالب علم ہے جس نے بے شک چلّے ، سال نہ لگائے ہوں لیکن غیر مسلم کے سامنے دین کا تعارف احسن طریقے سے پیش کر سکے ۔ انہوں نے کہا یہی ہیں ۔ میں نے کہا پھر ان سے کہیں خاموش ہی رہیں بہتر ہے تعارف کےلیے خدا کوئی اور موقع پیدا کر دے گا ۔ایسے تعارف سے چپ بہت بہتر ہے ۔ اس کے بعد انہوں نے کیا چپ کرنا تھا، مجھے ایک سائیڈ پر کر دیا اور میں نے اس سٹال پر جانا چھوڑ دیا ۔

اگلے دن بیوی جس کلاس میں بیٹھتی تھی وہاں چلا گیا ۔ پہلے تو عربی میں قرآن پڑھایا ۔ پھر اس کے بعد ایمان کی کلاس تھی ۔ اس کلاس کا لیکچر سن کر میرا دل کیا کہ یا اس لیکچر والے کا سر پھوڑ دوں یا اپنا پھوڑ لوں ۔ یہ ان طالب علموں کے سامنے کیا پیش کر رہا ہے کہ جنہوں نے واہاں  اپنے اپنے علاقوں میں جا کر پھر غیر مسلموں کے سوالوں کا سامنا کرنا ہے ۔ اگر میں خود غیر مسلم ہوتا اور میرے سامنے یہ اسلام کا جو تعارف یہ پیش کر رہا ہے کرتا تو میں کبھی بھی اس دین کو لائق توجہ نہ سمجھتا بلکہ یہی کہتا کہ کچھ مصالے دار کہانیاں ان کے پاس بھی ہیں جیسی کہ بدھسٹ یا کنفیوشس کے پاس ہیں ۔ البتہ ان کی کہانیاں مقدس عربی ناموں کے ساتھ ہیں جبکہ باقیوں کی ان کے اپنے  مقامی ناموں کے ساتھ ۔

مختلف علاقوں سے آئے مسلمانوں سے ملاقاتیں کیں تو خاص بات ایک ہی سمجھ آئی کہ ان کے پاس دین اسلام صرف ایک میراث ہے جو انہیں اپنے آباء سے ملی ہے اور ان کے پاس اس پر قائم رہنے کےلیے کوئی دلیل موجود نہیں ۔ لائزو ( Lanzhou ) یونیورسٹی کے ایک مسلم پروفیسر محمد صالح سے ملاقات ہوئی جو آٹھ سال منصورہ لاہور میں پڑھ چکے تھے ۔ مجھے لے کر مسجد میں ایک طرف بیٹھ گئے اور بتایا کہ مولانا مودودی رحمہ اللہ کی تمام کتب جو عربی میں ترجمہ ہوئی ہیں وہ انہوں نے پڑھی ہیں ۔ آخری کتاب  ” پردہ عربی ” ترجمہ انہیں مرکز اسلامی پشاور سے ملی اور آج بھی ان کے پاس موجود ہے ۔ مولانا مودودی رحمہ اللہ کی کچھ کتب کا بتایا جو کہ چائنیز زبان میں مختلف لوگوں نے ترجمہ کیں  ہیں۔

پھر پوچھا کہ کیا مولانا مودودی رحمہ کے بعد جماعت اسلامی میں کسی نے دین پر کچھ لکھا ہے ۔؟ میں نے جواب دیا ،نہیں ۔اس کے بعد وہ زیادہ اہم کاموں میں مصروف ہو گئے مثلاً  پلاٹ بیچنے اور چوکوں میں کھڑے ہو کر نعرے مارنے والے کاموں میں اور اس سے بھی اہم یہ کہ صالحین کی حکومت کے خواب دیکھنے میں اور صالحین بھی جو وہ خود ہیں باقی ساری دنیا ان کے بیان کردہ صالح کے معیار پر اتراتی نہیں ۔ محمد صالح حیرت سے مجھے دیکھنے لگے ،میں نے بھی وضاحت نہیں کی ۔ بہرحال انہوں نے بتایا انہوں نے یوسف القرضاوی کی حلال و حرام کا چائنیز میں ترجمہ کیا ہے ۔ کچھ علاقائی موضوعات  پر بات ہوئی تو بتایا اسلام بطور میراث بھی صرف ان علاقوں کے مسلمانوں کے پاس باقی ہے جن کی کسی دور میں غیر مسلموں کے ساتھ لڑائی ہوئی تھیں ۔ یعنی اب یہ صرف بطور ضد ایک نشانی سمجھ لیں اور کوئی دلیل شاید نہ ہو ۔

بہت سے مسلمان یونیورسٹیوں کے طالب علموں سے بھی ملاقات ہوئی جو ان چھٹیوں میں کچھ سیکھنے یہاں آئے تھے کہ شاید کچھ علمی عقلی دلائل یہاں سے اپنے ساتھ اس معاشرے میں لے جائیں جہاں وہ رہتے ہیں اور جہاں سوالات کا سامنا کرتے ہیں ۔ لیکن میں نے ان کے رویوں میں مایوسی ہی دیکھی ۔ ان میں سے کئی کوئی دلیل نہ ملنے سے معاشرے میں گم ہو جائیں گے اور مذہب کا ہونا یا نہ ہونا ان کےلیے بے معنی بات ہو جائے گی ۔ اکابر سے جب بات ہوئی انہوں نے یہی کہا کہ ہم تو انہیں دین سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن یہ لوگ تشکیک کا شکار ہیں اور دین سیکھنا نہیں چاہتے ۔ ماشاء اللہ ہم تو اپنی پوری کوشش کرتے ہیں ۔

ایک دن تنگ آ کر میں امیر صاحب کے  سامنے بیٹھ گیا اور ان سے گزارش کی کہ مجھے غیر مسلم سمجھ کر دین کا تعارف پیش کریں میں گھنٹوں بات سنوں گا لیکن شرط یہ ہے کہ میں سوالات بھی کروں گا اور آپ کو جواب بھی دینے ہوں گے ۔ اس پر وہ خاموشی سے ایک طرف ہو گئے ۔

کیا خدا   کا  دین  فطرت کے مطابق نہیں ۔ کیا یہ اپنے علمی عقلی دلائل نہیں رکھتا ۔؟ کیا قرآن جب دلیل پیش کرتا ہے تو مخاطب سے یہ نہیں کہتا کہ عقل سے کام کیوں نہیں لیتے ، غور اور تفکر کیوں نہیں کرتے ۔ ؟نہ ماننے والوں سے کہتا ہے کہ اگر تم سچے ہو تو اپنی دلیل لے آؤ ۔

مسلمانوں کی غیر مسلم معاشرے میں گم ہونے کی یا مسلمانوں کے معاشرے میں نئی نسل کے مذہب سے دوری کی بڑی وجہ جو مجھے سمجھ آئی وہ یہ علما  ہیں جو حاکمیت کا مزاج رکھتے ہیں علمی نہیں ۔ اور ان کا اپنا علم بھی صرف اور صرف اندھی تقلید پر ہے نہ انہوں نے کبھی سوال سوچا اور نہ یہ کسی کے سوال کو برداشت کرتے ہیں ۔ یہی سب سے  بڑا فساد پیدا کرنے والے ہیں ۔ خدارا اب یہ دور اندھی تقلید کا نہیں رہا اب سوال ہو گا اور سوال کرنے والے کو جس در سے جواب ملے گا وہ وہیں ڈیرے ڈال دے گا ۔ ٹشو پیپر پھر کسی کام کا ہو سکتا ہے آپ کے فتوے اب کسی کام کے نہیں رہے ۔ اب علم کو علم کے طور پر سمجھیے اور حاصل کرنے کی کوشش کیجیے ۔ آپ کے بزرگ پہنچے ہوئے تھے کہ نہیں ، انہوں نے بڑے بڑے بم چلائے ہوں گے ، اپنی بزرگی سمیت خدا کے حضور پیش ہو گئے ، ان کے اعمال ان کی بزرگی ان کے ساتھ ۔ ان کی بزرگی کی کہانیاں میرے کسی کام کی نہیں ۔ مجھے دلائل سے لیس کیجیے تاکہ میں مقابلہ کر سکوں اور سوالات کا سامنا کر سکوں ۔ مجھے دین کو کسی مخصوص کلچر اور اپنی من پسند تعبیرات سے الگ کر کے دیجیے تا کہ میں اسے دنیا کے سامنے پیش کر سکوں اور دنیا کو بتا سکوں کہ یہ ہے اللہ کا دیا ہوا دین فطرت جو ہر دور میں قابل عمل ہے ۔ مجھے ان جھوٹی روایات کے بوجھ تلے دبے اللہ کے پیغام کو نکال کر دیجیے تا کہ میں خود کو اپنی آنے والی نسل کو اسے فخر سے پیش کر سکوں ۔ مجھے ان جھوٹی غیر اخلاقی روایات کہانیوں سے اللہ کے دین کو پاک کر کے دیجیے تاکہ میں اپنے پیارے نبی ﷺ کے پاک کردار کو دنیا کے سامنے رکھ سکوں اس کردار کو جس کی تعریفیں خدا نے اپنے قرآن میں پیش کیں ۔ اپنے مخصوص مفاد کے بوجھ سے اسے آزاد کر دیجیے کہ یہ دین آپ کی ملکیت نہیں یہ خدا کا آخری پیغام پوری انسانیت اور رہتی دنیا تک کےلیے ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply