یہ برف دیکھنے جاتے ہی کیوں ہیں ؟۔۔آصف محمود

اسلام آباد ہائی کورٹ بار روم میں چائے کا دور چل رہا تھا اور محفل جوان تھی۔ ایک سیانے دوست نے جو بڑی مشکل سے قانون کی دو کلو وزنی کتاب تھامے ہوئے تھے، سوال اٹھایا کہ لوگ برف باری دیکھنے جاتے ہی کیوں ہیں؟ یہ وہی سادگی تھی جس پرلکھنئو کے کسی سخن شناس نے گرہ لگائی تھی کہ:

کوئی مرتاہے کیوں؟ بلا جانے

ہم بہو بیٹیاں یہ کیا جانیں

برف دیکھنے کوئی جاتا ہی کب ہے؟ یہ تو بے اختیاری ہے جو برف زاروں میں لیے پھرتی ہے۔ ضرورت سے زیادہ سیانے لوگ اس منظر سے ساری ز ندگی محروم رہتے ہیں۔ کبھی رات کے پچھلے پہر جب کسی وادی میں خاموشی سے مرمریں برف اترناشروع ہوتی ہے، کوئی داستان گو چرواہا پاس بیٹھا پچھلی برفوں کی کہانیاں سنا رہا ہو توکسی آتش دان کے ساتھ لگ کر بیٹھے رہنے میں جو لطف ہے، سیانے ساری عمر اس سے بھی اجنبی رہتے ہیں۔ برف اور سیانوں کا بس اتنا سا تعلق ہے کہ محکمہ موسمیات والوں کے صدقے انہیں ان کے موبائل پر معلوم ہو جاتا ہے کہ برف باری شروع ہو چکی ہے۔ پھر وہ سارا جاڑاکپکپاتے ہوئے دہائی دیتے رہتے ہیں کہ ” اسے کہنا دسمبر آ گیا ہے”۔

برف باری مگر کسی سیانے کی آن لائن شاعری کی طرح بے روح تجربہ نہیں۔ یہ تو عرفانات کے لمحوں میں سے ایک لمحہ ہے۔ پہاڑ ویسے ہی خاموش طبع ہوتے ہیں لیکن پہلی برف سے پہلے پہاڑوں اور وادیوں کو جو چُپ سی لگ جاتی ہے اس کا سحر ہی کچھ اور ہوتا ہے۔ پہاڑوں کی ہر چیز خاموش ہو جاتی ہے، حتی کہ پرندے بھی۔ وادیوں کو جب بالکل چپ لگ جاتی ہے، تب برف اترتی ہے۔ شاید یہ اس کا پروٹوکول ہے کہ سکوت ہوگا، تو یہ دھرتی پر اترے گی۔ چنانچہ برف باری اکثر رات کے آخری پہر شروع ہوتی ہے اور دن کے پہلے پہر تھم جاتی ہے۔ جب یہ مائل بہ کرم ہو تو رات اور دن کی تمیز کے بغیر پہروں بھی اترتی ہے لیکن اس کے ہاں رسم یہی ہے کہ رات گئے جب ہر چیز کو چپ لگ جاتی ہے تب اسی چپ میں یہ اترتی ہے اور اسی خاموشی کے ساتھ اترتی ہے۔

جاڑے کی پہلی برف پہلے پیار جیسے ہوتی ہے۔ محسوس ہی نہیں ہوتا اور دیکھتے دیکھتے دھرتی کے وجود کے سارے رنگ ہی بدل جاتے ہیں۔ موسم کی پہلی برف کے بعد ماحول میں وہی مہک ہوتی ہے جو پہلے پیار کے ہمراہ اترتی ہے۔ ہر برف کے ساتھ ایک نیا احساس آسمانوں سے زمین پر اترتا ہے۔ جب زمین پر پہلی برف اترتی ہے تواس کی خوشبو میں مٹی کی مہک بھی ہوتی ہے۔ جب برفیں طویل ہو جائیں اور برف پہ برف اترنے لگے تو اس خنکی اور یخ بستگی میں مٹی کی مہک شامل نہیں ہوتی۔ اس میں برف کی مہک ہوتی ہے۔ یہ مہک پہلی برفباری میں نہیں ہوتی۔

برف باری سے پہلے وادیوں کے رنگ اور خوشبو اور ہوتے ہیں، برف اترنے لگے تو وہ اور ہو جاتے ہیں اور برف تھم جائے تو یہ ایک اور رنگ میں ڈھل جاتے ہیں۔ کسی عمر رسیدہ چرواہے کو، آنکھوں پر پٹی باندھ کر لے جائیں اور کسی وادی میں بغیر کچھ بتائے بر آمدے میں کھڑا کر دیں وہ زمین کی مہک سے بتا سکتا ہے یہ پہلی برف باری ہورہی ہے یا دوسری، اور برف زمین پر گر رہی ہے یا برف پر۔

جس طرح جاڑے کی تین قسمیں ہیں، ایسے ہی ہر برفباری صرف برف باری نہیں ہوتی۔ حیات چرواہے نے خانس پور کی برف باری میں رات کے دوسرے پہر بانسری بجاتے بجاتے، چپ سادھ لی تھی کہ اب برف کا رنگ بدل رہا ہے، اب چُپ۔ چرواہے کا کہنا تھا کہ سولہ سنگھار کی طرح برف کی بھی سولہ اقسام ہوتی ہیں۔ عجیب سے نام چرواہے نے بتائے تھے، بھول گئے۔ تنویر انجم نے کہا تھا:

برف کی کتنی قسموں کو جانتے ہو؟

اگر تم اسکیمو ہوتے

تو برف کی بیس قسموں کی پہچان کر پاتے

حیات چرواہا خانس پور کی وادیوں میں رہتا تھا، برف کی سولہ قسمیں ہی جان پایا، اسکیمو ہوتا تو یقینا وہ بیس قسموں کی برف سے واقف ہوتا۔

ہر جاڑے کی ہر برف کے اندر ایک جہان ہوتاہے۔ پہاڑوں پر برف اترنے لگے تو پہاڑ بلاتے ہیں۔ ہم کون سے سیانے ہیں کہ گھر میں بیٹھے رہیں۔ شروع شروع میں سائرہ یاد دلاتی تھی، ابھی پچھلے سال تو برف دیکھنے گئے تھے، اب پھر جائیں کیا؟ پھر وہ یاد دلانے لگی ابھی پچھلے ہفتے تو برفباری دیکھنے گئے تھے؟ اب اسے بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس آوارہ گرد نے جاڑے کی ہر برف دیکھنے جانا ہوتا ہے۔

برف ہی نہیں موسم کا ہر رنگ حسن مجسم ہے۔ سیانوں کو تو مگر صبح اور شام کی خبر بھی جھیل کے پانیوں اور پہاڑ پر اترتی سورج کی کرنوں سے نہیں اپنے موبائل کی گھڑیوں سے ہوتی ہے۔ برف سے نہیں انہیں ہر موسم کے ہر رنگ سے ضد سی پڑی ہے۔ بچپن میں کھیتوں میں جب موسم کی پہلی بارش برستی تو اس کے ساتھ بھی یہی سوندھی سی مہک ہوتی ہے۔ برساتوں کی یہ سوندھی مہک بھی سیانوں سے دور ہی رہتی ہے۔ گائوں میں بارش ہوتی تو مجھے کینو کا باغ بلاتا۔ کپڑے گندے کر کے آتا تو سبھی سیانے پوچھتے بارش میں جانے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ ماں نہیں پوچھتی تھیں۔ انہیں معلوم تھا یہ اتنا سیانا نہیں ہے کہ موسموں کی محبت کپڑوں کے لیے چھوڑ دے۔

گرمیاں آتی ہیں اور لو چلتی ہے تو مارگلہ کی پگڈنڈیاں بلاتی ہیں۔ بلاتی نہیں کھینچتی ہیں۔ گرمیوں کی تپتی دوپہریں بوہڑی کے چشمے کے پاس چُپ چاپ سی پگڈنڈی پرگزار دینے میں اتنا لطف ہے کہ ا س کے تصور سے وجود میں جلترنگ بج اٹھتے ہیں۔ پہاڑ سے اترتا ہوں تو کوئی سیانا ٹھوڑی پر انگلی رکھ کر پوچھتا ہے: اس دھوپ میں پہاڑ پر جانے کی ضرورت ہی کیا تھی؟ جاڑے کی رت میں، جب اوپر برفیں پڑ چکی ہوں، پورے چاند کی رات راول جھیل میں ملاحوں کے ساتھ گزارنے کا جو لطف ہے، جو جانتا ہے صرف وہی جانتا ہے۔ کچھ سال پہلے ایسی ہی ایک رات کے بعد جب ایک ہفتہ چیسٹ انفیکشن کی دوائیں لینا پڑیں تو ڈاکٹر ابرار نے بھی یہی سوال پوچھا: اس کہرے میں، ا س یخ بستہ موسم میں جھیل پر جانے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ عرض کی ڈاکٹر صاحب میں کب گیا تھا؟ جھیل لے گئی تھی۔

موسم اور ان کے رنگ چرواہے جانتے ہیں یا آوارہ گرد۔ سیانوں کی یہ دنیا نہیں ہے۔ سیانوں کے موبائل سلامت، وہ انہیں تھام تھام رکھیں۔ لیکن شدت جذبات کا رخ برف دیکھنے والوں کی بجائے اگر ان کی طرف ہو جائے جن کے ذمے سیاحتی مقامات کے انتظامی امور ہوتے ہیں اور وہ غفلت کے مرتکب ہوتے ہیں تو شاید سیانے پن کا کچھ بھرم رہ جائے۔ سیانوں کے دو ہی موسم ہوتے ہیں: دسمبر آ گیا ہے یا بہار آ گئی ہے۔ ایسے میں گلزار یاد آتے ہیں:

غور سے د یکھنا بہاروں میں

پچھلے موسم کے بھی نشاں ہوں گے

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ پچھلا موسم برف ہی کا تو ہوتا ہے۔ یہ جو وادیوں میں پھول کھلتے ہیں، چوٹیوں پر سبزہ انگڑائی لیتا ہے اور ندیوں میں روانی آتی ہے یہ جاڑے کی برفباری ہی کے تو نشان ہیں۔

Facebook Comments

آصف محمود
حق کی تلاش میں سرگرداں صحافی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply