خزاں کی آگ/فیصل عظیم

رنگ اُترا ۔۔۔ لباس ننگ اُترا
راہگیروں نے کیا نظر ڈالی
شرم سے سرخ ہوگئے عارض
جھرّیاں پڑ گئیں خجالت سے
شاخساروں کی نیم عریانی
دیکھی بھالی ہوا میں ٹھٹھری ہے
وہ جو غازے کے محملوں میں تھی
ہکّا بکّا، نیا بھبوت ملے
سرِ بازار اپنے چہرے کو
بے شمار انگلیوں سے ڈھانپے ہوئے
چلمنوں سے جھلک جھلک اٹھّی
کانوں کی لو میں کتنے آویزے
پرچموں کی صدا سناتے رہے
فرق سے ہونٹ کپکپاتے رہے

شاخ در شاخ سر سے پاؤں تک
کیسا ٹھنڈا پسینہ آیا ہے
جس سے سب بہ گیا ہے سبزۂ خط
ڈھے گئی ہے سب آبرو رنگی
دیدنی ہے جدائی کی رنگت
ختمِ وصلت ہے، کیسا عالم ہے
دل کا موسم سڑک کا موسم ہے
شوخ سورج، تماش بین ہجوم
روشنی میں سمٹتی رعنائی
بےحجابی پہ نگاہیں مامور
وقتِ فرقت شبابِ بے بس کی
جلوہ سامانیوں کا نظّارہ

برگ پر طرفہ بے لباسی ہے
اور دبازت کی شمع ِ نیرنگی
شیشہ آسا پھریرے رقصاں ہیں
اس سے پہلے کہ شاخ ہو ننگی
محفلیں آرائی ہو شعاعوں کی
ان چھوئے، نازک اور شرمائے
رنگ سمٹیں، جھلک جھلک اٹھّیں

Advertisements
julia rana solicitors

آخری دور ہے تماشے کا
ٹھنڈ بڑھ جائے، رات ڈھل جائے
گُل رُو، گلریز، گُل ادا اوراق
فصلِ نو کا خمیر بننے کو
جھکتی نظروں کی سمت جائیں گے
سوکھ جائے گا جب رگوں کا جال
سرد لمحوں کے پاؤں پڑ پڑ کر
چُرمُرانا ہی بھول جائیں گے!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply