مشجرِ حیات/توقیر بھملہ

جنگل کا وہ گوشہ دنیا سے الگ تھلگ ہی کوئی دنیا تھی۔ برفباری تھم چکی تھی، برف سے ڈھکے درخت یوں خاموش کھڑے تھے جیسے ان پر طلسم پھونک کر انہیں پتھر کر دیا گیا تھا۔ مؤدب درختوں کے جھنڈ میں آگ کا عظیم الشان الاؤ بھڑک رہا تھا، جس کے اردگرد رکھے گئے لکڑی کے تختوں پر دائروی شکل میں بچھی ہوئی بے داغ چاندنیوں پر سرخ رنگ کے منقش گاؤ تکیے ترتیب سے رکھے ہوئے تھے۔ لوگ آتے جا رہے تھے اور اپنی اپنی نشست سنبھال کر بیٹھتے جا رہے تھے۔

بھڑکتی ہوئی آگ سے اردگرد کا سارا منظر روشن تھا۔ وہ ایک صوفیانہ شام تھی۔ جس میں خموشی کلام کر رہی تھی اور سکون کائنات وجد میں تھا۔ اس شام زندگی جیسی حرارت بخشتی آگ کے اردگرد مثل پروانہ بیٹھے لوگ بابا کا انتظار کررہے تھے، جہاندیدہ بابا جو عرصہ دراز سے حکمت و دانائی سے لبریز کہانیاں سنا کر شہر کے لوگوں کے سوچنے اور جینے کے انداز بدل کر رکھ دیتا تھا، اس نے گزشتہ نشست میں کہانی کے اختتام پر حاضرین سے سوال پوچھا تھا کہ

“زندگی میں سب سے زیادہ قیمتی چیز کیا ہے؟”

اور آج کی سرمدی نشست میں ہر کوئی اپنے پاس پہلے سے موجود معلومات کے مطابق اس سوال کا جواب تراش کر لایا تھا۔ وہ سب بے چینی سے بابا کے منتظر تھے، ان کی بے چینی کی دو وجوہات تھیں، وہ بابا کا حکمت بھرا جواب بھی جاننا چاہتے تھے اور اپنے جواب پر داد بھی وصول کرنا چاہتے تھے۔ روشن الاؤ کے عقب سے عصا تھامے گدڑی پوش ایک ہیولا یوں نمودار ہوا جیسے صبح کاذب کے جسم سے انگڑائی لیتا سورج بیدار ہو رہا ہو۔

گدڑی پوش زمینی خاک سے لپٹی ہوئی آسمانی برف کے بدن پر دھیرے دھیرے قدم رکھتا ہوا اس محفل کے وسط میں جا پہنچا، جہاں آگ کے برابر پڑی ہوئی لکڑی کے بڑے سے چوکور ٹکڑے پر اس کے لیے خاص نشست کا اہتمام تھا۔ بابا اپنی مسند پر تشریف فرما ہوا تو اس کی موجودگی کے احساس سے جہاں پراسرار سرگوشیوں نے دم توڑ دیا تھا وہاں ہی متجسس حاضرین کی بے چینیوں اور اضطراب کو آرام آگیا۔

بابا جی نے حاضرین کی مشتاق نگاہوں کو بغور دیکھا۔ وہ سب دلوں پر اترتے الہام جیسی دانش کے منتظر تھے۔ جیسے روشن آگ اندھیرے کے سارے بھید کھول دیتی ہے۔ ویسے ہی ان کے دل میں مقید بےبس خواہشیں آنکھ کے روزنوں سے جھانک کر باہر کے منظر کو جذب کرنے کی ناکام کوششوں میں مصروف تھیں۔ بابا جی گویا ہوئے، “اپنی لطیف روح کو کثیف بدن کے قفس کے اندر لطیف اور آزاد ہی رہنے دو، اس کے لیے جسم کے قفس کا ہی بوجھ کافی ہے، اسے پر بے جا تفکرات، بے چینیوں، اضطراب، اور دکھوں کے مزید بوجھ نہ لادو، جو تمھارے اختیار میں نہیں ہے اس کا کرب کا انبار مت اٹھاؤ، جو تمھارے اختیار میں ہے اسے بھی بانٹ کر ہلکا کر دو۔

بابا جی نے ہاتھ میں پکڑا مُشَجَّر ہوا میں لہرا کر اپنے گھٹنوں پر پھیلا لیا۔ اس کے بعد حاضرین سے باری باری ان کے جوابات سنتے ہوئے ان سب کے چہروں کو غور سے دیکھا، جو شخص جس چیز سے محروم تھا وہ اسی چیز کو قیمتی گردان رہا تھا اور جس کے پاس جو میسر تھا وہ اس کے نزدیک کھو جانے تک بے وقعت تھا۔ جوابات کے بعد گہرے استغراق کے لیے چند پل مختص ہوئے، اس کے بعد بابا جی نے حاضرین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، سنو! اے بے چین روحوں کے سودا گرو سنو!

تم سے پوچھا گیا تھا کہ “زندگی کا جوہر کیا ہے؟”

اور تم سب اپنے اپنے دائروں میں اس قدر الجھے نکلے کہ دائرے سے باہر وہ جوہر نہ دیکھ سکے جو زندگی کی حقیقی رمز ہے۔ تم میں سے کسی ایک نے بھی ایک بار بھی نہیں سوچا کہ زندگی کی اجزائے ترکیبی میں آزادی بھی ایک اہم جز ہو سکتا ہے؟ جس طرح دل کو چھو لینے والی موسیقی کے پیچھے چھپے درد کو نغمہ سرا کے علاوہ کوئی نہیں جانتا، اسی طرح ہم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو زندگی کے کسی ایک اہم ترین اور قیمتی ترین عنصر کو دریافت کرلے اور لوگ اس پر متفق ہو سکیں۔

مگر آزادی جیسے عنصر کو یوں فراموش کر دو گے، مجھے توقع نہیں تھی۔ خیر! یاد رکھو ہر وہ چیز جو محدود ہو، اور جس کے حاصل کرنے میں عمر کی پونجی خرچ ہو جائے مگر ایک بار کھو جانے پر پوری کائنات مل کر بھی اس کا نعم البدل نہ دے سکے تو وہی سب سے اہم اور قیمتی ترین جوہر حیات ہے۔

دیکھو! جس طرح اس مُشَجَّر کو لاتعداد رنگین دھاگوں کی بُنت نے مل کر مزین کیا ہے، بابا نے ہاتھ میں پکڑے رنگین کپڑے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، ویسے ہی زندگی مختلف رنگوں کے جدا جدا دھاگوں کے تانے بانے سے بُنی ہوئی مشجر جیسی ہے جس میں کوئی ایک بھی دھاگہ کم تر یا برتر نہیں ہے مگر بُنت میں ایک ترتیب ضرور ہے، اور یہ خوبصورتی اس بات کی مظہر ہے کہ رنگوں اور دھاگوں نے اپنے مقام اور اپنی باری پر جھگڑا نہیں کیا۔

یہ ایک دوسرے کے مقام کا ادراک رکھتے ہوئے ٹھیک ٹھیک اپنی اپنی جگہ پر اپنا اپنا کردار ادا کرتے گئے اور بدلے میں ہمارے ہاتھ میں رنگوں سے مزین مشجر آگیا، جس میں پہلے اور بعد کا، چھوٹے اور بڑے کا جھگڑا نہیں ہے۔ یہ رنگین مشجر زندگی ہے۔ جس میں نہ رنگوں کا حسد ہے اور نہ دھاگوں کی ضد۔ چرخہ، رنگ، دھاگے محنت اور کاتنے والا یہ سب مل کر زندگی کے جیسا مشجر بُنتے ہیں۔

سنو! وہ چند عناصر جن کی ترتیب سے زندگی سانس لیتی ہے وہ کچھ یوں ہو سکتے ہیں۔

آگ پورے جوبن پر تھی لکڑیوں کے چٹخنے کی آوازوں میں شعلے زمین کو چھوئے بغیر رقص کر رہے تھے۔ اور سفید دھواں سرمئی آسمانوں میں تحلیل ہوتا جارہا تھا۔ روشنی اور اندھیرے کے پر اسرار کھیل میں بابے کی گفتگو جاری تھی۔ زندگی کے پیچیدہ اور پر اسرار تصور پر مختلف فلسفیانہ تناظر اور اہم ترین پہلوؤں جیسے رنگوں اور دھاگوں سے میں نے ایک کہانی بُنی ہے۔ جسے مُشَجَّرِ حیات کا نام دیا ہے۔ اس کہانی کا ہر دھاگہ ہمارے ہونے کو معنویت اور وسعت عطا کرے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اگر آپ سب تیار ہیں تو ہم زندگی کے اس جوہر کو تلاش کرنے کے سفر پر ان دھاگوں سے بنے رستوں پر سفر کا آغاز کریں گے؟

Facebook Comments

توقیر بھملہ
"جب خلقت کے پاس آؤ تو زبان کی نگہداشت کرو"

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply