• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • اطالوی مصنف لوئیگی پیرانڈیلو کے افسانے War کا اردو ترجمہ(حسان خان)

اطالوی مصنف لوئیگی پیرانڈیلو کے افسانے War کا اردو ترجمہ(حسان خان)

رات والی ایکسپریس ٹرین سے جو مسافر روم کے لیے چلے تھے انہیں صبح تک فیبریانو نامی ایک چھوٹے سے اسٹیشن پر رکنا تھا۔ وہاں سے انہیں مرکزی لائن سے سُلمونا کو جوڑنے والی ایک چھوٹی، پرانے فیشن کی لوکل ٹرین سے آگے کے لیے اپنا سفر کرنا تھا۔
گرمی اور دھوئیں سے بھرے سیکنڈ کلاس ڈبے میں پانچ لوگوں نے رات کاٹی تھی۔ صبح ماتمی کپڑوں میں لپٹی ایک بھاری بھرکم عورت تقریباً ایک بے ڈول گٹھر کی طرح اُس میں لادی گئی۔ اُس کے پیچھے ہانپتا کراہتا اُس کا شوہر آیا – ایک چھوٹا، دبلا پتلا اور کمزور آدمی۔ اُس کا چہرا موت کی طرح سفید تھا۔ آنکھیں چھوٹی اور چمکتی ہوئی۔ دیکھنے میں شرمیلا اور بے چین۔
ایک سیٹ پر بیٹھنے کے بعد اُس نے اُن مسافروں کا انکسار کے ساتھ شکریہ کیا جنہوں نے اُس کی بیوی کے لیے جگہ بنائی تھی اور اس کی مدد کی تھی۔ تب وہ عورت کی جانپ پلٹا اور اُس کے کوٹ کے کالر کو نیچا کرتے ہوئے جاننا چاہا،تم ٹھیک تو ہو نا، ڈئیر؟
بیوی نے جواب دینے کے بجائے اپنا چہرہ ڈھکا رکھنے کے لیے کوٹ کا کالر دوبارہ اپنی آنکھ تک کھینچ لیا۔
بے رحم دنیا۔۔۔۔ شوہر اداس مسکراہٹ کے ساتھ بڑبڑایا۔ اسے یہ اپنا فرض لگا کہ وہ اپنے ہم سفروں کو بتائے کہ بے چاری عورت رحم کی مستحق تھی۔ جنگ اس کے اکلوتے بیٹے کو اس سے دور لے جا رہی تھی۔ بیس سال کا لڑکا جس کے لیے ان دونوں نے اپنی پوری زندگی دے ڈالی تھی۔ یہاں تک کہ انہوں نے اپنا سُلمونا کا گھر بھی چھوڑ دیا تھا تاکہ وہ بیٹے کے ساتھ روم جا سکیں۔ جہاں ایک طالبِ علم کے روپ میں وہ گیا تھا اور تب اسے اس ضمانت کے ساتھ جنگ میں رضاکار بننے کی اجازت دی گئی تھی کہ کم سے کم چھ مہینے تک اسے سرحد پر نہیں بھیجا جائے گا اور اب اچانک تار آیا ہے کہ وہ آ کر اسے وداع کریں۔ اسے تین دن کے اندر سرحد پر جانا ہے۔

لمبے کوٹ کے اندر سے عورت کسمسا رہی تھی۔ کبھی کبھی جنگلی جانور کی طرح غرا رہی تھی۔ اِس پکے یقین کے ساتھ کہ یہ ساری تفصیل ان لوگوں میں ہمدردی کا سایہ بھی نہیں جگائیں گی ، پکے طور پر وہ بھی اُسی جہنم میں ہیں جس میں وہ ہے۔ اُن میں سے ایک شخص، جو خاص دھیان سے سن رہا تھا، بولا:تمہیں خدا کا شکرگزار ہونا چاہیے کہ تمہارا بیٹا اب سرحد کے لیے وداع ہو رہا ہے۔ میرا تو جنگ کے پہلے ہی دن وہاں بھیج دیا گیا تھا۔ وہ دو بار زخمی ہو کر لوٹ آیا۔ ٹھیک ہونے پر پھر سے اسے سرحد پر بھیج دیا گیا ہے۔

میرا کیا؟ میرے دو بیٹے اور تین بھتیجے سرحد پر ہیں۔ ایک دوسرے آدمی نے کہا۔
ہو سکتا ہے، پر ہماری صورتِ حال مختلف ہے۔ ہمارا صرف ایک بیٹا ہے، شوہر نے فقرہ جوڑا۔
اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ بھلے ہی تم اپنے اکلوتے بیٹے کو زیادہ لاڈ پیار سے بگاڑو پر تم اسے اپنے باقی بیٹوں (اگر ہوں) سے زیادہ پیار تو کرو گے نہیں؟ بھلا پیار کوئی روٹی نہیں جس کو ٹکڑوں میں توڑا جائے اور سب کے بیچ برابر برابر بانٹ دیا جائے۔ ایک باپ اپنا سارا پیار اپنے ہر بچے کو دیتا ہے۔ بنا امتیاز کے، چاہے ایک ہو یا دس، اور آج میں اپنے دونوں بیٹوں کے لیے دکھی ہوں۔ اُن میں سے ہر ایک کے لیے آدھا دکھی نہیں ہوں،بلکہ دگنا۔۔۔

سچ ہے۔۔ سچ ہے، شوہر نے شرمندہ ہو کر سانس بھری۔ لیکن مانیے (حالانکہ ہم دعا کرتے ہیں کہ یہ تمہارے ساتھ کبھی نہ ہو) ایک باپ کے دو بیٹے سرحد پر ہیں اور ان میں سے ایک مرتا ہے۔ تب بھی ایک بچ جاتا ہے۔ اسے دلاسہ دینے کو۔۔۔
ہاں، اس نے تلخی سے جواب دیا۔ایک بیٹا دلاسہ دینے کے لیے بچ جاتا ہے، لیکن جو بیٹا مر گیا ہے، اس کے لیے تو اسے جینا ہے۔ جبکہ اکلوتے بیٹے کی صورت میں اگر بیٹا مرتا ہے تو باپ بھی مر سکتا ہے۔ اپنی بھیانک تکلیف کو ختم کر سکتا ہے۔ دونوں میں سے کون سی صورت بدتر ہے؟تمہیں نہیں دکھتا میری صورتِ حال تم سے بدتر ہے؟
بکواس، ایک دوسرے مسافر نے دخل دیا۔ ایک موٹے لال منہ والے آدمی نے جس کی پیلی بھوری آنکھیں خون کی طرح لال تھیں۔
وہ ہانپ رہا تھا۔ اس کی آنکھیں ابلی پڑتی تھیں، اندر کے امڈتے بھیانک طوفان کو جوش سے باہر نکالنے کو بے چین لگ رہی تھیں، جسے اُس کا کمزور جسم مشکل سے برداشت کر سکتا تھا۔

بکواس، اُس نے دہرایا۔ اپنے منہ کو ہاتھ سے ڈھکتے ہوئے تاکہ اپنے سامنے کے کھوئے ہوئے دانتوں کو چھپا سکے۔
بکواس۔ کیا ہم اپنے بچوں کو اپنے لالچ کے لیے زندگی دیتے ہیں؟
دوسرے مسافروں نے اس کی طرف زحمت سے دیکھا۔ جس کا بیٹا پہلے دن سے جنگ میں تھا، اس نے لمبی سانس لی،تم ٹھیک کہتے ہو۔ ہمارے بچے ہمارے نہیں ہیں، وہ وطن کے ہیں۔۔۔
بکواس، موٹے مسافر نے جواب الجواب میں کہا۔
کیا ہم وطن کے بارے میں سوچتے ہیں جب ہم بچوں کو زندگی دیتے ہیں؟ ہمارے بیٹے پیدا ہوتے ہیں۔۔۔ کیونکہ۔۔۔ کیونکہ۔۔ خیر۔ وہ ضرور پیدا ہونے چاہییں۔ جب وہ دنیا میں آتے ہیں ہماری زندگی بھی انہی کی ہو جاتی ہے۔ یہی سچ ہے۔ ہم ان کے ہیں پر وہ کبھی ہمارے نہیں ہیں۔ اور جب وہ بیس کے ہوتے ہیں تب وہ ٹھیک ویسے ہی ہوتے ہیں جیسے ہم اس عمر میں تھے۔ ہمارے باپ بھی تھے اور ماں بھی، لیکن اس کے ساتھ ہی بہت سی دوسری چیزیں بھی تھیں جیسے۔۔۔ لڑکیاں، سگریٹ، وہم، نئے رشتے۔۔ اور ہاں، وطن۔ جس کی پکار کو ہم نے جواب دیا ہوتا – جب ہم بیس کے تھے ، اگر ماں باپ نے منع کیا ہوتا تب بھی۔ اب ہماری عمر میں، حالانکہ حبِ وطن ابھی بھی بڑا ہے، لیکن اس سے بھی زیادہ تگڑا ہے ہمارا اپنے بچوں سے پیار۔ کیا یہاں کوئی ایسا ہے جو سرحد پر خوشی سے اپنے بیٹے کی جگہ نہیں لینا چاہے گا؟

چاروں طرف سناٹا چھا گیا۔ سب نے اقرار میں سر ہلایا۔
کیوں۔۔۔ موٹے آدمی نے کہنا جاری رکھا۔ کیوں ہم اپنے بچوں کے جذبات کو دھیان میں نہیں رکھیں جب وہ بیس سال کے ہیں؟ کیا یہ قدرتی نہیں ہے کہ وہ سدا وطن کے لیے زیادہ پیار رکھیں، ہمارے لیے پیار سے زیادہ۔ (حالانکہ، میں نجیب لڑکوں کی بات کر رہا ہوں) کیا یہ فطری نہیں کہ ایسا ہی ہو؟ کیا اُنہیں ہمیں بوڑھوں کے روپ میں دیکھنا چاہیے جو اب چل پھر نہیں سکتے اور گھر پر رہنا چاہیے؟ اگر وطن، اگر وطن ایک قدرتی ضرورت ہے، جیسے روٹی، جسے ہم سب کو بھوک سے نہیں مرنے کے لیے لازمی کھانا ہے، تو کسی کو وطن کی حفاظت بھی لازمی کرنی چاہیے، اور ہمارے بیٹے جاتے ہیں جب وہ بیس برس کے ہیں، اور وہ آنسو نہیں چاہتے ہیں۔ کیونکہ اگر وہ مر گئے تو وہ خوش مریں (میں نجیب لڑکوں کی بات کر رہا ہوں)۔ اب اگر کوئی جوان اور خوش مرتا ہے، بنا زندگی کے برے پہلو کو دیکھے۔ بوریت، پستی اور مایوسی کی کڑواہٹ کے بنا۔۔۔ اس سے زیادہ ہم ان کے لیے کیا تمنا کر سکتے ہیں؟ سب کو رونا بند کرنا چاہیے۔ سب کو ہنسنا چاہیے، جیسا کہ میں کرتا ہوں۔۔۔ یا کم سے کم خدا کا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔۔ جیسا کہ میں کرتا ہوں، کیونکہ میرا بیٹا، مرنے کے پہلے اس نے مجھے پیغام بھیجا تھا کہ بہترین طریقے سے اس کی زندگی کا خاتمہ ہو رہا ہے۔ اس نے پیغام بھیجا تھا کہ اِس سے اچھی موت اُسے نہیں مل سکتی۔ اسی لیے تم دیکھو، میں ماتمی کپڑے بھی نہیں پہنتا ہوں۔۔۔

اس نے بھورے کوٹ کو دکھانے کے لیے جھاڑا۔ اُس کے ٹوٹے دانتوں کے اوپر اُس کا نیلا ہونٹ کانپ رہا تھا۔ اس کی آنکھیں تر اور ساکن تھیں۔ اس نے ایک تیکھی ہنسی سے خاتمہ کیا جو ایک سسکی بھی ہو سکتی تھی۔
ایسا ہی ہے۔۔ ایسا ہی ہے۔۔۔ دوسرے اس سے متفق ہوئے۔
عورت جو کونے میں اپنے کوٹ کے نیچے گٹھڑی بنی ہوئی سی بیٹھی تھی، سن رہی تھی – پچھلے تین مہینوں سے ، اپنے شوہر اور دوستوں کے الفاظ سے اپنے گہرے دکھ کے لیے ہمدردی کھوج رہی تھی۔ کچھ جو اُسے دِکھائے کہ ایک ماں کیسے ڈھارس رکھے جو اپنے بیٹے کو موت کے لیے نہیں، ایک خطرناک زندگی کے لیے بھیج رہی ہے۔ بہت سے الفاظ جو اُس سے کہے گئے اُن میں سے اسے ایک بھی لفظ ایسا نہیں ملا تھا۔۔۔ اور اُس کی تکلیف بڑھ گئی تھی۔ یہ دیکھ کر کہ کوئی جیسا کہ وہ سوچتی تھی اُس کا دکھ بانٹ نہیں سکتا ہے۔

لیکن اب اِس مسافر کے الفاظ نے اسے حیران کر دیا تھا۔ اسے اچانک پتا چلا کہ دوسرے غلط نہیں تھے اور ایسا نہیں تھا کہ اسے نہیں سمجھ سکے تھے۔ بلکہ وہ خود ہی نہیں سمجھ سکی تھی۔ اُن والدین کو جو بنا روئے نہ صرف اپنے بیٹوں کو وداع کرتے ہیں بلکہ ان کی موت کو بھی بنا روئے سہتے ہیں۔
اُس نے اپنا سر اوپر اٹھایا۔ وہ تھوڑا آگے جھک گئی تاکہ موٹے مسافر کی باتوں کو دھیان سے سن سکے۔ جو اپنے حاکم اور اپنے وطن کے لیے خوشی سے اپنے بیٹے کے، بنا پچھتاوے کے شہید ہونے کو اپنے ساتھیوں سے تفصیل سے بیان کر رہا تھا۔ اسے ایسا لگ رہا تھا گویا وہ ایک ایسی دنیا میں پہنچ گئی ہے جس کا اس نے خواب بھی نہیں دیکھا تھا – اس کے لیے ایک انجان دنیا اور وہ یہ سن کر خوش تھی کہ اس بہادر باپ کو سب لوگ مبارک باد دے رہے تھے۔ وہ اتنے بے تفاوت ضبط سے اپنے بچے کی موت کے بارے میں بے پروائی کے ساتھ بتا رہا تھا۔

اور تب اچانک گویا جو کہا گیا تھا اس کا ایک لفظ بھی اس نے نہ سنا ہو۔ گویا وہ ایک خواب سے جاگی ہو۔ وہ بوڑھے آدمی کی طرف مڑی اور اس نے پوچھا،تب۔۔۔ تمہارا بیٹا سچ میں مر گیا ہے؟
سب نے اسے گھورا۔ بوڑھا بھی گھوم کر اپنی باہر کی نکلی پڑتی، بھیانک، نم، ہلکی بھوری آنکھوں کو اس کے چہرے پر جماتے ہوئے اسے دیکھنے لگا۔ تھوڑی دیر اس نے جواب دینے کی کوشش کی۔ لیکن الفاظ نے اس کا ساتھ نہ دیا۔ وہ اسے دیکھتا گیا۔ دیکھتا گیا۔ جیسے صرف ابھی، اس بے وقوف، بے تکے سوال سے اچانک معلوم ہوا کہ اس کا بیٹا سچ میں مر چکا ہے – ہمیشہ کے لیے جا چکا ہے – ہمیشہ کے لیے۔ اس کا چہرہ سکڑ گیا اور بری طرح سے بے ڈھنگا ہو گیا۔ تب اس نے تیزی سے اپنی جیب سے رومال نکالا، اور سب کے تعجب کے لیے، دل دہلانے والی چیخ کے ساتھ بلک بلک کر بے روک ٹوک سسکیوں میں پھوٹ پڑا۔

Advertisements
julia rana solicitors

(نوبل انعام یافتہ اطالوی مصنف لوئیگی پیرانڈیلو کے افسانے War کا اردو ترجمہ)
ترجمہ ۔ حسان خان!

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply