نظم ِ نو سیریز/وقت کا شائی لاک۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

میں کیا کروں، خود سے پوچھتا ہوں
کہ قرض میں بال بال میرا بندھا ہوا ہے
یہ قرض صدیوں کا، جس کا جوا
مرے نحیف و نزار بچپن کے نرم کندھوں پہ
پیدا ہوتے ہی
رکھ کے مجھ کو کہا گیا تھا
تمہیں چکانا پڑے گا، بچے
یہ قرض سانسوں کے رہتے رہتے

یہ قرض ماں باپ اور کنبے کا
قرض بہنوں کا اور بھائیوں کا
قرض بیوی کا اور بچوں کا
قرض دنیا کا جس کا دستِ  طلب
ہر اک مرحلے پہ پھیلا ہوا مرے سامنے رہا ہے
یہ قرض تھا حادثوں کا
جو میرے جسم پر
بجلیوں کی مانند گر گئے ہیں۔

یہ قرض سب واجب الادا تھے، میں جانتا تھا
مگر جو اپنی رضا سے میں نے
خود اپنے کھاتے میں لکھ لیا تھا
وہ قرض حرف و ندا کا تھا
لفظ کی تہوں کا
کہ جن میں اک غوطہ خور کی طرح
مجھ کو معنی کے مخزنوں کو کھنگالنا تھا

میں ا ب قریب الممات پیری میں
اتنا بھاری یہ قرض کیسے ادا کروں گا
کہ وقت کا ’’شائی لاکؔ‘‘ تو
میرے دل کے ہی آس پاس کا گوشت مانگتا

Advertisements
julia rana solicitors london

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شائی لاکؔ , شیکسپیئر کے ڈرامے ’’دی مرچنٹ آف وینس ‘‘کا سود خور یہودی کردار جو اپنے قرض کی ادائی میں ڈرامے کے ہیرو سے اس کے دل کا ایک پاؤنڈ گوشت طلب کرتا ہے۔

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply