غالب کمرہء جماعت میں (سیریز۔2)۔۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

اسد ؔ بزم ِ تماشا میں تغافِل پردہ دار ی ہے
اگر ڈھانپے توُ آنکھیں ڈھانپ، ہم تصویر ِ عر یاں ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔
طالبعلم ایک
اسد خود سے مخاطب تو نہیں اس شعر میں شاید
یہ کوئی اورہی ہے جو اسے تلقین کرتا ہے

طالبعلم دو
اسدؔ خود سے مخاطب ہو بھی سکتا تھا
مگر اک لفظ “ہم” جو مصرع ِ ِثانی میں آیا ہے
ہمیں گویندہ یا ناطق کی بابت شک میں رکھتا ہے

طابعلم ایک
اگر “بزم ِ تماشا” پر کریں ہم غور ، تو شاید
کوئی مشکل نہ ہو اس شعر کا مطلب سمجھنے میں

استاد۔ ستیہ پال آنند
کرو پھر غور، بچو، ہم بھی دیکھیں آپ کے جوہر

طالبعلم دو
اگر ہم حاضر و موجود ہیں بزم ِ تماشا میں
تو اس سے بے مروـت ہو نہیں سکتے
تغافل کیش رہنا، بے رُخی ، غفلت برتنا تو
شعار از خود غلط ہے اس حوالے میں

طالبعلم ایک
صحیح و راست! لیکن پہلے سمجھیں یہ حقیقت تو
کہ آخر کون ہے جو ہم کو یہ تلقین کرتا ہے

طالبعلم دو
ارے اے ہم جماعت، یہ تو خوداللہ کہتا ہے
“اگرتم  حاضر و موجود ہو بزم ِ تماشا میں
تو مجھ سے بے مروـت ہو نہیں سکتے”

استاد ۔ ستیہ پال آنند
یقینا ً ! آپ کی یہ سوچ بر حق ہے، مگر سمجھو
ضمیرجمع متکلم جو “ہم” کی شکل ہے حاضر
خدا خود اپنی خاطر کیسے استعمال کرتا ہے؟

طالبعلم ایک
یہی تو کہہ رہا ہوں مَیں کہ آدم زاد بر حق ہے
اگر وہ بے رُخی، غفلت نہ برتے اس تعلق میں

طالبعلم دو
تعلق توڑنا “بزم ِ تماشا” سے نہیں بر حق
“تغافل”بھی وہ پردہ ہے کہ جو مستور کرتا ہے

طالبعلم ایک
خدا تو صاف لفظوں میں ہی فرماتا ہے بندے سے
“اگر ڈھانپے تو آنکھیں ڈھانپ، ہم تصویر ِ عریاں ہیں”
کہ بند آنکھوں کے پیچھے سے بھی “ہم” کو دیکھ پاؤ گے

طالبعلم دو
عجب “بزم ِ تماشا” ہے کہ خود اس کا محرک بھی
تماشائی ہے اس کا اور اسی میں خود بھی شامل ہے
مگر تلقین کے لہجے میں کہتا ہے یہ شاعر کو
“تغافل پردہ داری ہے” ۔۔بچو اس سے اسدؔ تم بھی
ہمیشہ یاد رکھو اس حقیقت کو کہ “ہم” حاضر ہیں دنیا میں

Advertisements
julia rana solicitors london

استاد۔ ستیہ پال آنند
یہ شاعر ہے جسے تلقین ہے، پند و نصیحت ہے
حقیقت سے تم آنکھیں بند بھی کر لو تو مت سمجھو
کہ یہ “بزم تماشا” کچھ نہیں، بس اک دکھاوا ہے!

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply