(سمتھسونین انسٹیٹیوٹ واشنگٹن ڈی سی میں منعقد کی گئی قدیم ہندوستانی نوادر کی ایک نمائش دیکھنے کے بعد)
چھ ہزار برسوں کی
جاگتی ہوئی آنکھیں
اس گپھا کے اندر تک
میرا پیچھا کرتی ہیں
مجھ سے پوچھتی ہیں کچھ
اس گپھا کے سینے میں
دفن ہے مرا ماضی
اس میں میرے پُرکھوں کے
صد ہزار ہاتھوں کی
“دستکار ہاتھوں کی”
بُت تراش ہاتھوں کی
چتر کار ہاتھوں کی
کار ساز محنت ہے
دل تو میرا کہتا ہے
میرا حال او ر ماضی
اس گپھا میں دونوں ہی
ساتھ ساتھ رہتے ہیں
لیکن اس تصور کو
عقل جھوٹ کہتی ہے۔
خود سے پوچھتا ہوں میَں
میرا حال اور ماضی
سا تھ ساتھ رہ کر بھی
ایک کیوں نہیں ہوتے؟
سب قصور میرا ہے
چھ ہزار برسوں تک
آرٹ، فلسفہ، تاریخ
میں نے کب سنبھالے ہیں؟
کب انہیں سمویا ہے
اپنے آ ج کےیُگ میں؟
میں نے تو اساطیری
واقعات ِ فرضی کو
باقیات سمجھا ہے
جھوٹ قصے گھڑ گھڑ کر
بدلا ہے حقائق کو
میں نے کب یہ چاہا ہے
چھ ہزار برسوں کے
سلسلے کے تاگوں کو
گانٹھ گانٹھ یوں باندھوں
سب میں اک تسلسل ہو
ایک سی روانی ہو
اور ساٹھ صدیوں کا
ربط، رابطہ، رشتہ
پیڑھیوں سے نسلوں تک
آج کے زمانے سے
منسلک ہو، قائم ہو
ان اداس صدیوں کی
جاگتی ہوئی آنکھیں
مجھ سے پوچھتی تو ہیں
مَیں مگر سمجھتا ہوں
میں نہیں ہوں دعوےٰ دار
اس عظیم ورثے کا
( مئی چودہ 1997)
———————atya-
(خدا جانے کیسے یہ نظم غیر مطبوعہ رہ گئی)
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں