کیسی بینائی، کہاں کی پیش بینی؟
جانتے بھی ہیں کہ دشمن
کون ہے لیکن سبھی پنبہ دہن ہیں
دائیں بائیں
دیکھتے سب ہیں مگر یہ
سوچنا اک چیستاں ہے
کون مار آستیں ہے؟
کس نے پھن کاڑھا ہواہے؟
دور بیں سے دیکھتے ہیں
کیا عدو گاؤں کے باہرخیمہ زن ہے؟
گو ش بر آواز ہیں شاید کہیں سے
قاتلوں کی نعرہ بازی
کان میں پڑ جائے توپھر
خندقیں کھودیں، صفیں باندھے کھڑے ہوں
سانپ تو موجود ہے دالان میں کُنڈلی جمائے
اپنا فن کاڑھے ہوئے پھُنکارتا ہے
کیوں نظر آتا نہیں ہم
کور چشموں کو، کہ ہم نے
ان ’’خوارج‘‘ دشمنوں کو
اپنے ما ضی کے حقائق سے مٹا کر
یہ قضیہ
مکتبی بحثوں میں الجھایا تھا ، اور پھر
اپنی آنکھیں
موند کر گُم کر دیا تھا
پیش اندیشی تھی ہاتف کی کہ جس نے
یہ کہا تھا
یہ ’’خوارج‘‘ جب اُٹھیں گے
نیستی، اتلاف ، تخریب و تباہی ساتھ لا کر
راکھ کر دیں گے گھر کو
آنکھیں کھولو اور عبرت کا سبق لو!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں