16 دسمبر ہم پاکستانیوں کے دلوں میں ایک ناسور کی طرح پل رہا ہے اس دن ہم نے اپنا ایک بازو مشرقی پاکستان کھویا، اور کوئی سبق نہ سیکھا. پے در پے غلطیاں کرکے ملک کو اس نہج پر پہنچادیا← مزید پڑھیے
لال لہو کی دھوپ میں لرزاں دلوں کے پچھلے دالانوں میں خوابوں کی ٹوٹی الگنیوں پر خوں رنگ دھاڑتے چھیدوں والی وردیاں آ ج بھی لہراتی ہیں ان چھیدوں نے جن پھولوں کے جسموں کو بانسری بنایا ان کی دھن← مزید پڑھیے
گذشتہ برس آج کے دن میرے لڑکپن کے شہر پشاور کے افسوسناک سانحہ کےبعد تحریر کردہ دو نظمیں۔ میرے ابّو سلامت رہیں!! “اے خدا، میرے ابو سلامت رہیں” یہ دعا گو فرشتہ بھی کل صبح مارا گیا ظالموں نے← مزید پڑھیے
16 دسمبر 2014 کو میں مکہ میں اپنے کمرے میں سویا ہوا تھا کہ تیز آواز میں لگی خبروں اور میرے روم میٹ کی ہچکیوں کی آواز نے مجھے جگا دیا۔ آنکھیں ملتے ہوئے آٹھ کر روم میٹ← مزید پڑھیے
کسی جگہ محفل میں ایک مردِ مومن، مردِ حق بزرگ علم جھاڑتے ہوئے نہایت وثوق سے فرما رہے تھے کہ : ” بچوں کے لیے والدین کی مار کا بہت ثواب ہے “۔۔میں نے بس اتنا پوچھا کہ ،” نبی← مزید پڑھیے
اندھیری شب میں دیے جلاکےچلاگیا وہ شخص روشنی کو رستہ دکھاکےچلاگیا! همدرد نونہال کواپنے بچپن کی پہلی محبت کہوں تو بیجا نہ ہوگا. ماه کا آغاز ہوتے ہی شیخ بُک ڈپو کے چکر لگنا شروع ہوجاتے تھے. یه رساله جیب← مزید پڑھیے
ایک بار ایک سیشن ‘امی کیوں بننا چاہیے’ میں لڑکیوں سے کہا کہ جا کر اپنی امیوں سے پوچھیں کہ جب آپ کو جنم دیا تھا ان کی عمر کیا تھی؟ اکثریت کا جواب، ۱۸ سال سے ۲۲ سال تک← مزید پڑھیے
یہ کہانی نہیں ہے، یہ کوئی دیوار گریہ سے لگ کر کرنے والا نوحہ بھی نہیں ہے۔ یہ کسی عبرت آموز واقعے کا تذکرہ بھی نہیں ہے، یہ تو ایک اداس کوٹھی کا مجھ سے کیا گیا وہ مکالمہ ہے← مزید پڑھیے
وہ مسائل جنہیں ہم اپنی زندگی میں حل کرنے سے گریز کر تے ہیں ، وہی مسائل بعض اوقات بڑھ کر آنے والے وقت میں ہمارے بچوں کے لیے مزید مشکلات پیدا کردیتے ہیں،جنہیں حل بھی ہمارے بچوں کو ہی← مزید پڑھیے
بچے ہمیشہ ہنستے مسکراتے، کھیل کود کرتے ہی اچھے لگتے ہیں۔ بچے جو ماں باپ کی آنکھوں کا تارہ ہوتے ییں۔ لختِ جگر ہوتے ہیں اور پڑھ لکھ کر ماں باپ کا غرور ہوتے ہیں۔ وہیں کچھ بچے ایسے بھی← مزید پڑھیے
بچوں کو کچھ بھی سکھانے اور تربیت کا مسئلہ تو ہمیشہ سے رہا ہے لیکن فی زمانہ بچوں سے زیادہ والدین کی تربیت ضروری ہو گئی ہے۔ہم ایک ایسے معاشرے میں سانس لے رہے ہیں جہاں کچھ بھی ہو جائے← مزید پڑھیے
وطنِ عزیز میں شرحِ خواندگی الحمدلله پینتالیس فیصد ہے اور شرحِ ناخواندگی تقریباً سو فیصد ۔ پڑھنا نیکی کا کام ہے اور پڑھانا منافع کا۔ یہ جو کچھ نہ کچھ خواندگی ہے وہ استادوں کی محنت سے ہے۔ اور باقی← مزید پڑھیے
میرے انباکس میں کس طرح کے پیغامات آتے ہیں، بتانا مشکل ہی نہیں، نا ممکن بھی ہے۔ فون، خط اور بالمشافہ پوچھے جانے والے سوالات کو لکھنے، بیان کرنے کے لیے نہ وقت ہے، نہ ہمت۔ چند دن پہلے کسی← مزید پڑھیے
ایک رپورٹ میں پاکستان کا شرمناک پہلو بھی سامنے لا یا گیا ہے جس کے تحت کچھ مخصوص شہروں کے ٹرک اڈے جنسی تسکین کے گڑھ بن چکے ہیں برصغیر سمیت ترقی پذیر ممالک میں انسانی حقوق کی پامالی اور← مزید پڑھیے
سال گزشتہ کے موسم بہار کی بات ہے کہ ہمارے علاقے میں کھانسی، گلے کی خرابی، اور بخار جیسی بیماریاں قریباً وبائی رنگ میں پھوٹ پڑیں۔قریب قریب ہر گھر میں دو تین افراد تو ایسے ضرور تھے جو صبح اپنے← مزید پڑھیے
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک جنت تھی جس میں آدم اور حوا ہمیشہ کے لیے خوش رہتے تھے۔ آدم اور حوا کو جنت بنی بنائی نہیں ملی تھی، اس کو آدم اور حوا نے بہت محنت سے بنایا← مزید پڑھیے
اونچی دیواروں کے نچلے در سے فرمان جاری ہوا تو باہر کھڑے ہوؤں کے ڈبے اور منہ کُھل گئے بلکہ کِھل بھی گئے۔۔ کچھ دنوں کے بعد منہ تو کُھلے ہوئے تھے البتہ ان میں مٹھائی کی بجائے جھاگ تھی،← مزید پڑھیے