بچے بھی انسان ہی ہوتے ہیں ۔۔عثمان گُل

کسی جگہ محفل میں  ایک مردِ مومن، مردِ حق بزرگ علم جھاڑتے ہوئے نہایت وثوق سے فرما رہے تھے کہ :

” بچوں کے لیے والدین کی مار کا بہت ثواب ہے “۔۔میں نے بس اتنا پوچھا کہ ،” نبی پاکﷺ نے بچوں کو کتنی دفعہ مارا ہے؟؟

پتا نہیں کیوں بزرگ ایک دم سے فریز ہی ہو گئے، حالانکہ اس وقت  سردی اتنی بھی نہیں تھی۔

ہمارے ہاں بچوں کو مارنا، پیٹنا نہ  تو معیوب سمجھا جاتا ہے نہ  ہی باعثِ گناہ۔ اور تو اور اسلام کو امن کا دین بیان کرتے منبر و محراب بھی یہ تو بتاتے ہیں کہ بنی پاکﷺ باجماعت  نماز میں سجدے لمبے کر دیتے تھے کہ نواسۂ رسول ﷺ   کمر مبارک پر سوار ہوتے تھے، لیکن یہ کبھی نہیں کہتے کہ اسی طرح اپنے بچوں کے ساتھ بھی نرمی اختیار کرو۔ الٹا والدین کی شان اور عزت میں اتنے لمبے قصیدے پڑھتے ہیں کہ بچوں کے حقوق، نرمی، محبت سب کہیں گم ہو جاتا ہے۔

ابھی کچھ ہفتے پہلے قاری صاحب نے جمعہ کی جماعت کھڑی کرتے ہوئے بچوں کو پیچھے بھیجنے کا جو کہا تو لوگوں نے پیچھے بھیجتے بھیجتے بچوں کو تو اس سردی میں ٹھنڈے فرش پر کھڑا کر دیا، لیکن خود دبیز قالین پر اللہ کے حضور ہاتھ باندھے کھڑے رہے۔

میں نے خواتین و حضرات دونوں کو، بچوں کو سب کے سامنے ذرا ذرا سی بات پر بے عزتی کرتے، مارتے بھی دیکھا ہے۔ میں نے خود کو مرد کہتے انسان نما مخلوق کو بچے کو سرِ بازار لاتوں سے مارتے بھی دیکھا ہے، اور ننگی گالیاں دیتے ہوئے بھی۔

میں ایسی لڑکی کو بھی جانتا ہوں کہ چھوٹے ہوتے جب وہ روتی تھی تو اس کی ماں مارتے مارتے اس کے  منہ پر ہاتھ رکھ کر اس کا سانس بند کر دیتی تھی کہ چپ ہو جائے۔ سوتی نہیں تھی تو جو دوائی ہاتھ لگتی اس کو کھلا دیتی کہ کسی میں تو نشہ ہو گا۔ جب بہت غصہ آتا تو اس کو زمین پر پٹخ کر اس کے چھوٹے چھوٹے پاؤں پر کھڑی ہو جاتی۔ کئی بار اپنے نشئی کزن کے حوالے کر چکی کہ کھیل لو اس  سے اور اپنی نفسانی پیاس بجھا لو،۔ 24، 25 سال کی لڑکی ہو جانے پر اس کے دل میں شدید خوف ہے۔ ان گنت جسمانی و نفسیاتی بیماریوں کا مجموعہ ہے۔ اب ماں بوڑھی ہو کر کمزور ہو گئی ہے تو کچھ عرصہ پہلے بدتمیزی کرنے پر  وہی بیٹی منہ پر تھپڑ لگا چکی ہے۔

قصور کس کا ہوا ؟۔۔کیا بچے کی عزتِ نفس نہیں ہوتی؟ یا اسے درد نہیں ہوتا؟ کیا بچے انسان نہیں ہوتے؟

میں یہ نہیں کہتا کہ بچوں کی تربیت نہ  کریں، انہیں صحیح غلط نہ  سکھائیں، غلط بات پر نہ  ٹوکیں۔ غلط بات پر ٹوکیں بھی، ڈانٹیں بھی، نہایت شدید مسئلے پر ہلکا ہاتھ مار بھی لیں۔ لیکن غلط حرکت پر مار سے زیادہ آپ کا ڈر ہی کام کرے گا، نا کہ مار۔ جو بڑے بات بے بات مارتے ہیں، نا صرف اپنی عزت کھو دیتے ہیں، بلکہ بچوں کو ڈھیٹ بھی بنا دیتے ہیں۔

یاد رکھیے ۔ تشدد کے ماحول میں پروان چڑھنے والے  بچے خود بھی تشدد پسند بن جاتے ہیں!

Advertisements
julia rana solicitors london

Save

Facebook Comments

عثمان گل
پیشے کے لحاظ سے اِنجینیئر۔ معاشرے میں رنگ، نسل، زبان اور مذہب کے لحاظ سے مثبت تبدیلی کا خواہاں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply