اُمِّ فیصل (1)-مرزا مدثر نواز

لازوال قربانیوں اور بے پناہ جدوجہد کی بدولت بالآخر چودہ اگست سن انیس سو سینتالیس کو مسلمانان برصغیر نے آزادی کی پہلی صبح کا نظارہ کیا۔ آزادی جیسی نعمت کی قدروقیمت وہی قوم جان سکتی ہے جس نے ایک غلام معاشرے میں زندگی کے شب و روز گزارے ہوں۔ ہر لحاظ سے ایک نا مکمل ریاست فرزندانِ توحید پاک و ہند کے حصہ میں آئی۔ سادہ لوح مسلمان یہ سوچ کر کہ وہ اب ایک ایسے معاشرے میں زندگی گزار سکیں گے جہاں فرقہ ورانہ فسادات کے بادل نہیں منڈلائیں گے اور وہ آزادانہ طور پر قرآن و سنت کے مطابق زندگی گزار سکیں گے‘ اپنا گھر بار‘ جائیدادیں‘مال و متاع چھوڑ کر اس نئی ریاست کی طرف چل دئیے جہاں راستے میں ایک قیامت صغریٰ ان کی منتظر تھی اور تاریخ نے اس وقت تک کی سب سے بڑی ہجرت اور اس دوران بے رحم قتل و غارت‘ آبروریزی و لوٹ مار دیکھی۔ اس خطے کے مسلمانوں کو کیا معلوم تھا کہ‘ اس ریاست پر ایک مخصوص جاگیردار‘ سرمایہ دار اور انگریز کی تربیت یافتہ سیکولر بیوروکریسی حاوی ہو جائے گی جس کا مقصد صرف اور صرف اقتدارکے مزے لوٹنا اور اپنے ذاتی مفادات کا تحفظ ہو گا‘ یہ ملک اپنے قیام کے صرف چوبیس سال بعد دو ٹکڑوں میں تقسیم ہو جائے گا‘ اس ملک میں قانون کی گرفت صرف کمزور طبقہ پر ہو گی اور ایک مخصوص طبقہ خود کو آئین و قانون سے بالا سمجھے گا‘ مولانا آزادؒ کی اس مملکت کے متعلق تمام پیشین گوئیاں حرف بہ حرف سچ ثابت ہوں گی جن کے سچ ثابت ہونے کے پیچھے ہماری کمیاں‘کوتاہیاں اور نالائقیاں ہیں۔
؎جلال بادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
مشرق میں جاری ہنگاموں‘ فسادات و قتل و غارت سے بہت دور ضلع ایبٹ آباد کے پہاڑوں میں گھرے ایک چھوٹے سے گاؤں میں ایک گھرانہ آباد ہے جو نور دین کے تین بیٹوں ابراہیم‘ اسحاق اور اسماعیل پر مشتمل تھا۔ اس دور میں لکھنے پڑھنے کا رواج کہاں‘ لہٰذا تینوں بھائی ہوش سنبھالتے ہی اپنی زمینوں پر کاشت کاری کرکے اور مال مویشی پال کر زندگی کی گاڑی کو آگے دھکیل رہے تھے۔ ملک ابراہیم سب سے بڑا بیٹا ہونے کے ناطے گھر کی زیادہ تر ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھائے ہوئے تھا۔ سکول کی تعلیم نہ ہونے کے باوجود ابراہیم دوسرے بھائیوں کی نسبت مذہبی رجحان رکھنے والا‘ صوم و صلوٰۃ کا پابند اور اپنے والدین کا فرمانبردار تھا۔ نوردین کی کوئی بیٹی نہیں تھی۔ ابراہیم کی شادی اوائل جوانی میں ہی ایک قریبی گاؤں کی لڑکی سے کر دی گئی۔ زندگی ہنسی خوشی رواں دواں تھی کہ دوران حمل کی پیچیدگیوں کی وجہ سے ابراہیم کی بیوی جہانِ فانی سے پردہ فرماگئی۔
؎لائی حیات‘ آئے‘ قضا لے چلی‘ چلے
اپنی خوشی آئے نہ اپنی خوشی چلے (شیخ محمد ابراہیم ذوق)
دوردراز گاؤں میں ان دنوں میڈیکل سہولیات کا کوئی تذکرہ نہیں‘ ہر ماہ الٹرا ساؤنڈ‘ خون کی کمی اور دوسرے ضروری ٹیسٹ اس زمانے میں کہاں؟ وہاں کی لیڈی ڈاکٹر گاؤں کی دائی ہی ہوتی تھی‘ اگر زندگی ہوتی تو زچہ و بچہ بچ جاتے ورنہ زچگی کے دوران اموات کی شرح بہت زیادہ تھی۔
ابراہیم کی پہلی بیوی کی وفات کے بعد گھر کے کام کاج میں اس کی ماں کا ہاتھ بٹانے کے لیے عورت کی کمی شدت سے محسوس ہونے لگی۔ جلد ہی قریبی رشتہ داروں میں پہلے اسحاق اور پھر اسماعیل کی شادی ہو گئی اور کچھ عرصہ بعد وہ دونوں صاحبِ اولاد ہو گئے۔ ماں کو اپنے بڑے بیٹے کے گھر بسانے کی فکر ستاتی رہتی اور رشتہ ڈھونڈنے میں لگی رہی جبکہ بھائی اور بھابھیاں اپنے بچوں کے ساتھ اپنی زندگی میں مگن ہو گئے۔ عورت ہو یا مرد‘ ہمارے معاشرے میں دوسری شادی کے لیے رشتہ ڈھونڈنا بہت ہی مشکل کا م ہے۔ بڑی تگ و دو کے بعد ایک قریبی گاؤں میں ابراہیم کا رشتہ طے ہو گیااور کچھ عرصہ بعد سادگی سے شادی ہو گئی۔ وقت گزرتا رہا‘ دونوں میاں بیوی میں اولاد کی خواہش دن بدن بڑھنے لگی لیکن معبودِ برحق کو کچھ اور ہی منظور تھا‘ کچھ ہی عرصہ بعد ابراہیم کی دوسری بیوی بھی کسی بیماری میں مبتلا ہو کر اس دنیا سے بہت دور چلی گئی۔ ابراہیم ایک بار پھر اکیلا رہ گیا اور اس کی تنہائی کی فکر کرنے والی اس کی ماں اور بعد میں باپ بھی چل بسا۔
؎ہم تو آئے سیر کرنے‘ سیرِ گلشن کر چلے
دیکھ مالی باغ اپنا‘ ہم تو اپنے گھر چلے

Advertisements
julia rana solicitors

(جاری ہے)

Facebook Comments

مرِزا مدثر نواز
ٹیلی کام انجینئر- ایم ایس سی ٹیلی کمیونیکیشن انجنیئرنگ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply