خود کشی کا دوسرا رُخ/یاسر جواد

اگر آپ اب اپنے آپ کو زیادہ غریب محسوس کرتے ہیں تو یہ سوچنا چاہیے کہ کب ایسا محسوس نہیں ہوتا تھا؟ جب کالج کی ایک سال کی فیس 457 روپے تھی تو پاس پیسے نہیں تھے۔ چنانچہ ایک رشتے دار کے پاس جا کر پیسے لیے اور فیس جمع کروائی۔ نوجوانی جینز کی پینٹ اور لیدر جیکٹ کی خواہش میں گزاری۔ اچھا ٹیپ ریکارڈر لینے کے منصوبے سالوں بنتے رہے۔ اے سی کا تصور بھی نہ تھا۔ اگر آپ ان چیزوں کی فہرست بنانا شروع کریں جو 1980ء کی دہائی کے دوران بھی متوسط طبقے کے زیادہ تر گھروں میں نہیں تھیں تو حیران رہ جائیں گے: کمپیوٹر، اوون، فریج، ٹی وی، واشنگ مشین، کچن اور واش روم کے بہت سے آلات اور سامان، کمپیوٹر اور انٹرنیٹ اور موبائل، گاڑی، اٹیچ باتھ، سفید لائٹیں، پینٹ والی دیواریں، اور کموڈ۔
مزے کی بات یہ کہ آج کی طرح تب بھی اخبارات اِسی طرح کی خبریں پیش کیا کرتے تھے: کشمیر اور فلسطین، سیلاب، مولویوں کا بڑھتا ہوا ہجوم، لوڈ شیڈنگ، چوریاں اور ڈاکے، پولیس کی بدعنوانیاں، فوجیوں کی دھونس، امریکہ کی دغابازیاں اور سازشیں، غربت کی لکیر کے اشارے، آئے روز مالی سکینڈلز اور کفر و غداری کے فتوے، ازلی دشمن ہندوستان سے نفرت اور نیک بننے کی تلقین۔ تین ہزار سال پیچھے بائبل کی کتاب ایوب کے دور میں جائیں تو آپ کو آج جیسے حالات ہی ملیں گے، مگر مختلف اذیتوں کے ساتھ۔
ہوا یوں ہے کہ اگر تیس چالیس سال پہلے 15 کروڑ لوگ سسک رہے تھے تو آج اُن کی تعداد تقریباً دوگنی ہو گئی ہے، اور اُن کے پاس شوروغوغا کے وسیلے بھی زیادہ آ گئے ہیں۔ مصیبت زیادہ بیان کرنے سے زیادہ بڑھتی ہے۔ چنانچہ مصیبت بیان کرنے کے علاوہ بڑے پرامید حل بھی تجویز کیے جا رہے ہیں۔ زیادہ تر لوگ انقلاب یا عوامی تحریک یا بجلی کے بلوں کے بائیکاٹ کی مہم کا انتظار کر رہے ہیں تاکہ لوگ نکلیں، گولیاں کھائیں، مریں ماریں، اور ہم سکرین پر اُنھیں دیکھ دیکھ کر اداسی والے ایموجی پوسٹ کریں۔
معاشرے فطری آفات اور جنگوں سے بدلتے ہیں، جب ریاست کی جکڑ کمزور ہوتی ہے۔ انقلاب بھی تبھی آئے جب ریاستوں نے لڑ لڑ کر ایک دوسرے کے پچھواڑے اُڑا دیے۔ اگر غربت کی وجہ سے انقلاب آنا ہوتے تو 1930ء کی دہائی کے امریکہ میں آ گئے ہوتے۔ تبدیلی کے عمل سے گزرنے والے معاشروں میں فکری لہریں بھی موجود تھیں، سوچنے سمجھنے کی صلاحیت تھی اور مذہب کا کردار کم استحصالی تھا۔ باہر سڑک کر جائیں اور کسی سے بھی پوچھیں کہ ملک میں کونسا نظام ہونا چاہیے تو مفلوج ذہن کی کئی نشانیاں نظر آ جائیں گی۔
سو خود کشی کا دوسرا رخ صرف آگہی ہے۔ آپ نظام سے کسی کافکا یا کامیو سے زیادہ تو مایوس نہیں۔ وہ بھی اس دوسرے رخ کے ذریعے زندہ رہے۔ آگہی کے ساتھ انتظار کریں کہ کوئی فطری آفت موجودہ نظام اور اِس کی جکڑ بندیوں کو بہا لے جائے اور نیا انسان پیدا ہو۔ پرانے کو تو اب مٹی رنگ کے کیڑے ہی کھائیں گے۔

Facebook Comments

یاسر جواد
Encyclopedist, Translator, Author, Editor, Compiler.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply