ہائے وہ معصوم مہمان۔۔۔۔ فوزیہ قریشی

ہمارا گھر ساتویں منزل پر ہے جہاں پہنچنے کے لئے ایک عدد لفٹ کی اشد ضرورت ہوتی ہے  اور لفٹ خراب ہونے کی صورت میں جب سیڑھیوں سے جانا پڑے تو دادی  نانی سسرالی  اور دور پار کے سب رشتے دار یاد آجاتے ہیں۔
خاص کر جب ہاتھوں میں شاپنگ بیگز اور ٹرالی ہو تو مت پوچھیے  کس طرح ایک ایک کرکے   بڑھاپے کے سارے درد ۔کمر درد ، جوڑوں کا درد، سانس کا اکھڑنا، اور دل کا درد بھی  محسوس ہوتے ہیں پھر ایسے میں دماغ کی گھنٹی بجتی ہے۔۔ کہ اب ہمیں باری باری سب وارڈز میں کچھ دن قیام کر کے اپنا مکمل نہیں تو باقاعدہ  علاج کروانا چاہیے ۔سیڑھیاں چڑھتے چڑھتے عالم لوھار کا یہ گانا بیک گراؤنڈ میں بجتا ہے۔
دل والا دکھڑا نئیں  کسے نوں سنائی دا
اپنی سوچاں وچ آپے ڈب جائی دا
ایسے میں ہم  پردیسی اس پردیس میں کس کو دل کے دکھڑے سنائیں۔
کاش بچپن میں رج کر خوراکیں کھائی ہوتیں  تو آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا ایسے میں دماغ کا سگنل کچھ یوں یوں گنگناتا ہے۔
مڑ جوانی فیر نئیں  آنی لکھ خراکاں کھا ئیے۔
اب تو کھانے کا اک مزاج بن گیا ہے جس میں لکھ خوراکاں کیا کھانی اثر تو بعد کی بات ہے۔
جی جناب کہنا کچھ یوں تھا ہم جہاں رہتے ہیں وہاں پائیپوں کے راستے چوہوں کے لئے پہنچنا مشکل نہیں۔چوہوں سے یاد آیا لندن کی سوغات میں چوہے بھی اہمیت کے حامل ہیں اگر آپ کا گھر کسی ٹرین ٹریک کے قریب ہے ۔بچپن میں جب کوئی چوہا گھر آجاتا تو ہم بیڈ پر چڑھ جاتے اور زور زور سے چیختے ایسے میں ہمارے والد صاحب غصے سے  کچھ یوں چپ کراتے ۔۔چوہا اے کوئی شیر نئیں ۔۔
پھر اک لاٹھی لے کر اس کی تلاش کی جاتی، اور ہم مجال ہے جو قدم نیچے رکھتے بس شور مچاتے ادھر گیا، ادھر گیا، اب  آپ کے پیچھے ہے اور والدصاحب پھرتی سے لاٹھی کو بلے کی طرح گھماتے جیسے شارجہ کا میچ ہو اور آخری وکٹ پر ان کے چھکے کی اشد ضرورت ہے  اکثر والد صاحب کی بے آواز لاٹھی اک زور دار آواز سے ٹوٹ جاتی اور ہم سب لکیر پیٹتے ہی رہ جاتے۔۔ایسے میں والدہ صاحبہ اک روایتی بیویوں کی طرح طعنہ دیتی ، اک چوہا تے مار نہیں سکے۔
جواب میں والد صاحب بھی فرماتے ،تسی سارے وی کوٹھے تے چڑھ کر واجاں نہ ماردے کہ ادھر گیا تے ادھر گیا۔۔ تے اسی وی میدان مار لیندے۔۔۔۔۔۔
اب جب ساتویں منزل پر کبھی کبھی کوئی بھولا بھٹکا یہ معصوم مہمان آجائے تو سوچیں ہم کس طرح سے ہمت کرتے ہونگے ان کو بھگانے کی۔۔۔۔یہ تو اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے جب بھی وہ محترم بھولے بھٹکے ہمارے میزبان خانے پر آئے تو ہمارے گھر میں  کبھی کوئی دوست ساتھ ہو ں تو کبھی ماموں تو کچھ حوصلہ رہا ۔۔۔۔۔۔۔۔
کل رات بھی جب ہم لکھنے میں مگن تھے تو اچانک ہماری نظر ان پر پڑی پھر کیا تھا ہماری چیخ نکل گئی جیسے ہم نے کوئی شیردیکھ لیا ہو، ساتھ والے کمرے سے ہماری دوست مہمان بھاگی بھاگی آئیں پوچھنے کیا ہوا اور ہم منہ کھولے دونوں پاؤں صوفےکے  اوپر چڑھا کر بولے ۔۔وہ ،وہ چوہا ہمارا یہ کہنا  تھا ان کی ہنسی نکل گئی اور ہمیں والدصاحب کی بات یاد آگئی چوہا اے شیر نئیں ۔
پھر ہم مل کر اس کی خاطر داری کا بندوبست کرنے لگے جتنی دیر میں ہم ایک ٹریپر پر  چکن کا ٹکڑا سجاتے اتنی دیر میں وہ الٹے پاؤں وہیں  سے واپس لوٹ گیا جہاں سے آیا  تھا۔
پھر کیا تھا ہم ساری رات بس کروٹیں ہی بدلتے رہے اور کبھی آنکھ لگی بھی تو اس خوف سے ٹوٹ گئی کہیں وہ ہمارےگرم گرم بستر پر تو نہیں سو رہا ۔خیال کا تانابانا  یک دم ان محنت سے پکائے پائے کی طرٖ ف گیا جھٹ سے ان کو فریج میں محفوظ  بھی کر لیا لیکن اگلے دن جب ان کو کھانے کے لئے فریج سے نکالا تو پائے کی لیس اور نرمی دیکھ کر عجیب جھرجھری نے سارے بدن کو اپنی لپیٹ میں لے لیا جلدی سے خیال کو جھٹکا اور دل کو تسلی دی یہ کہہ کر دم تو نظر نہیں آرہی پھر ہم نے بروقت محفوظ بھی کر لیا تھا۔
آخر میں ہم نے سینڈوچ پر گزارا کیا یہی سوچتے ہوئے کہ چوہا معصوم تو خود ہم  انسانوں سے چھپتا پھرتا ہے۔۔۔۔اور کوئی نہیں لاہوری بھی تو کب سے دانستہ  نا دانستہ گدھے کا گوشت کھا رہے ہیں اس بات نے دل کو کچھ اس طرح سے مطمئن  کیا جب چائنا میں حشرات الارض سے پیسٹریوں پر نہایت ہی عمدہ ڈیکوریشن کی جاتی ہے کہ نا چاہتے ہوئے بھی کھانے کو دل کرتا ہے پھر اس دل معصوم نے چوہے  معصوم کو اک معصوم سی جان مانتے ہوئے دل کو کچھ یوں راضی کیا کہ جب چائینیز  کاکروچ پیسٹری کھا سکتے ہیں اور لاہوری گدھا قورمہ تو چوہا پائے کیوں نہیں ؟

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply