ملکیت (2)۔۔وہاراامباکر

پراپرٹی کی ملکیت کے متعلق قوانین ہمیں چار ہزار سال پہلے بھی ملتے ہیں۔ قانون کی ہر جدید کتاب میں سوال ہے کہ “پراپرٹی کیا ہے؟” لیکن اس کا جواب نہیں ملتا۔ کیونکہ اس کا واضح جواب ہے نہیں۔ اس کے معنی تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ جان لاک نے 1698 میں تعریف کرتے ہوئے کہا تھا کہ “ہم خود اپنے مالک ہیں یا اس چیز کے جسے ہم نے بنایا، شکل دی اور اپنی محنت سے پیدا کیا۔ خریدنے سے کوئی شے ہماری ملکیت اس لئے بن جاتی ہے کہ اس دولت کی تخلیق ہم نے محنت سے کی تھی”۔ لیکن یہ سادہ تعریف کافی نہیں۔ خریدنے اور بیچنے کے لئے سب سے پہلے پراپرٹی کے تصور پر مشترکہ اتفاق کی ضرورت ہے۔ سکنڈے نیویا کے خانہ بدوش قبائل میں آپ کی ملکیت صرف وہ ہے جسے آپ اٹھا سکتے ہیں۔ شمالی امریکہ کے کچھ قبائل میں ملکیت کا تصور صرف آپ کی اپنی روح ہے۔
ولندیزی مہم جو پیٹر مینوٹ نے 1626 میں ڈیلاوئیر کے لیناپ قبیلے سے مین ہٹن کا جزیرہ خریدا۔ اس کے بدلے انہیں ساٹھ ڈچ گلڈر کا سامان دیا۔ اس کا واحد ریکارڈ ڈچ ویسٹ انڈیا کمپنی کا ایک خط تھا جس میں لکھا تھا، “مین ہیٹن کا جزیرہ ساٹھ گلڈر کے عوض جنگلیوں سے خرید لیا گیا ہے”۔ اس وقت یہ زرخیز زرعی زمین تھی جہاں پانی کی فراوانی تھی اور کالونی بنائی جا سکتی تھی۔ لیکن اب ایک مسئلہ تھا۔ مینوٹ کا خریدنے کا تصور الگ تھا جبکہ لیناپ کا بیچنے کا الگ۔ دونوں کو اس کا پتا نہیں تھا۔ لیناپ کے لئے یہ تصور تو تھا کہ کسی جگہ سے محفوظ گزرنے کی قیمت دی جائے یا پھر رہائش اختیار کرنے کی اجازت دی جائے، لیکن زمین کی ملکیت؟؟ ایسا ان کے کلچر میں نہیں تھا۔ سودا ہو جانے کے بعد دونوں پارٹیوں کا خیال مختلف تھا کہ طے کیا ہوا ہے۔ یہ قبیلہ سکنی پیکانی زبان بولتا تھا۔ اس زبان سے واقف اس قبیلے کے مورخ کہتے ہیں کہ “پراپرٹی” کا لفظ اس زبان میں نہیں۔ قدرتی اشیا کی ملکیت نہیں ہوا کرتی تھی۔ ہوا، پانی اور زمین کو بیچا اور خریدا نہیں جا سکتا تھا۔ جب سودا ہو جانے کے بعد قبیلے نے زمین چھوڑنے سے انکار کیا تو خریدنے والوں کا خیال تھا کہ ان کے ساتھ دھوکا کیا جا رہا ہے۔ جب انہیں نکلنے کے لئے کہا گیا تو بیچنے والوں کا خیال تھا کہ ناجائز مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ یہ فرق ملکیت کے تصور کا تھا۔
کونسی چیز خریدی اور بیچی جا سکتی ہے؟ اس پر بھی ہر جگہ پر الگ قوانین ہیں۔ کیا کتا یا طوطا خریدنا اور بیچنا قانونی ہے؟ عام طور پر ہاں۔ گینڈا؟ کینگرو؟ اس کا انحصار ہے کہ آپ کہاں پر ہیں۔ منشیات؟ عام طور پر نہیں۔ اپنی دوا کا نسخہ؟ کئی جگہ پر یہ غیرقانونی ہے۔ اور ان قوانین میں وقت کے ساتھ تبدیلی بھی آتی رہتی ہے۔ یہ بہت پرانی بات نہیں جب دنیا میں بہت سی جگہوں پر انسانوں کی خریدوفروخت کسی بھی اور جنس کی طرح کی جاتی تھی۔ جنگیں کرنے کی ایک وجہ صرف دوسرے کی زمین پر قبضہ ہی نہیں تھا بلکہ مشقت کروانے اور تجارت کے لئے انسانوں کی ملکیت حاصل کرنا پرکشش تھا۔ دنیا کی کئی شاندار چیزیں اس مشقت سے بنی ہیں۔ ایک لاکھ بیرونی غلاموں کی تیس سال کی مشقت نے ہمیں غزہ کے اہرام کا کمال فن پارہ دیا ہے۔
غلامی پر قوانین کو آج ہر کوئی ناپسندیدہ سمجھتا ہے۔ یہ نہ صرف اخلاقی مسائل رکھتے تھے اور بلکہ ان کے ساتھ منطقی مسائل بھی تھے۔ ان مسائل سے بچنے کے لئے قانون میں یہ تصور کیا جاتا تھا کہ غلام فری وِل (اپنی آزاد مرضی) نہیں رکھتے۔ اور سوچنے کی صلاحیت سے عاری ہیں۔ انیسویں صدی میں اس پر فلوریڈا میں ایک مشہور مقدمہ ہوا۔ ایک غلام، لیوک، نے اپنے مالک کے کھیت میں گھس آنے والے گدھوں کو مار دیا۔ اس پر غلام کو سزا ہوئی لیکن اپیل پر عدالت نے فیصلہ تبدیل کر کے لیوک کو بری کر دیا اور اس کے بجائے اس کے مالک کو سزا دی۔ یہ غلامی کے مروجہ قوانین کے مطابق فیصلہ تھا۔ کیونکہ لیوک کو سزا دینے کا مطلب یہ تسلیم کرنا ہوتا کہ لیوک کی اپنی آزاد مرضی تھی۔ غلاموں سے توقع رکھی جاتی تھی کہ وہ مالک کی حکم عدولی کی اہلیت نہیں رکھتے۔ ان کی مرضی اتنی ہی ہے جتنی کسی جانور کی۔ غلام کے کئے کا ذمہ دار اس کا مالک ہے۔
آج غلامی دنیا کے ہر ملک میں غیرقانونی ہے لیکن کسی وقت میں یہ دنیا میں عام رائج تھی۔ دنیا کے ہر خطے میں انسانوں کو ملکیت بنائے جانا عام تھا اور ان کی خرید و فروخت ہوا کرتی تھی۔ لیکن انسانی فکر جامد نہیں۔ اس لئے تصورات بھی تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ وقت کے ساتھ انسانوں کی ملکیت کہیں پر بھی قابل قبول نہیں رہی۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply