سوشل لائف میں اعتدال/فرزانہ افضل

کیلنڈر کا ایک اور سال بیتنے والا ہے۔ زندگی ہے کہ یوں پر لگا کر اڑتی چلی جا رہی ہے بچپن سے جوانی کا سفر یوں بیت گیا گویا گزشتہ رات کا کوئی خواب تھا۔ بڑھاپے کا ذکر نہیں کہ جب تلک دل میں امنگ ہے ترنگ ہے آپ جوان ہیں۔ مگر اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ہر بیتے برس کے ساتھ جسمانی توانائی اور پھرتی دھیرے دھیرے گھٹتی چلی جاتی ہے۔ ہاں مگر میچورٹی میں دن بدن اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ گو یہ نعمت ہر کسی کو میسر نہیں، خوش نصیب ہیں جو زندگی کے تجربات اور غلطیوں سے سیکھ لے کر اپنے رویے اور سوچ میں سلجھاؤ پیدا کرتے ہیں۔ وگرنہ بد لوگ بدتر ہوتے چلے جاتے ہیں معمولی جھوٹ بولنے سے عمر اور تجربے کے ساتھ مزید پختگی سے جھوٹ بولنے لگتے ہیں۔ چھوٹے فراڈ سے ہائی لیول کا  فراڈ، معمولی جرائم سے بڑے جرائم، چھوٹی بے ایمانی سے بڑی بے ایمانی۔ غرور سے تکبر کی اگلی سٹیج ، یعنی عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ برائی کے کانفیڈنس میں بھی اضافہ ہوتا جاتا ہے۔

وضع دار اور سلجھے ہوئے لوگ آج کل کے دور میں شاذ و نادر ہی پائے جاتے ہیں۔ ہر طرف دوستیاں اور تعلقات بڑھانے کی چوہا دوڑ یعنی ریٹ ریس لگی ہوئی ہے۔ افسوس یہ ہے کہ ان تعلقات اور دوستیوں میں قطعی کوئی گہرائی نہیں ہوتی، اندر ہی اندر ہر کوئی ایک دوسرے سے حسد کرتا ہے۔ سوشل میڈیا پر کمیونٹی کو دکھاوا کیا جاتا ہے کہ کون کتنا پاپولر ہے اور کتنی پارٹیز میں مدعو ہے ۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ پیٹھ پیچھے سب ایک دوسرے کی برائی کر رہے ہوتے ہیں۔ پرانے دور کی خالص دیسی گھی جیسی دوستی تو ناپید ہو کر رہ گئی ہے۔ ایک دوست سے اس بارے میں بات ہوئی تو اس نے کہا “بس جو وقت اچھا گزر جائے وہی اچھا ہے”۔ یعنی محض اچھا وقت گزارنے کے لیے اس قدر تگ و دو کی جاتی ہے۔ اپنے دل میں جھانک کر دیکھیے کچھ خالی خالی محسوس نہیں ہوتا؟

حقیقت تو یہ ہے کہ ان دکھاوے کی پارٹیز اور فنکشنز میں شرکت کے لیے خواتین کو خصوصاً کس قدر محنت کرنا پڑتی ہے۔ ماڈرن قسم کے ملبوسات کا سٹاک ہونا ضروری ہے اس کے ساتھ ساتھ ان کی وارڈروب میں میچنگ شوز، ہینڈ بیگ اور جیولری کا ہونا بھی لازمی ہے۔ اور جس روز کہیں جانا ہو تو کم از کم کُل ملا کر آٹھ گھنٹے تو کہیں نہیں گئے۔ تیاری سے شروع ہو کر فنکشن پر پہنچنے اور گھر واپسی تک اتنا وقت تو یقیناً صرف ہوتا ہے۔ مرد حضرات بھی کم نہیں۔

درحقیقت مردوں کی پارٹیز خواتین کی نسبت زیادہ ہوتی ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ انہیں تیاری میں اتنی محنت نہیں کرنا پڑتی۔
ایسا ہرگز نہیں کہ خواتین و حضرات اپنی لائف انجوائے نہ کریں۔ سب کو حق ہے اور ضروری بھی ہے کہ فیملی لائف سے ہٹ کر کچھ وقت دوستوں کے ساتھ یا سوشلائز کرنے میں گزارا جائے۔ مگر تھوڑا اعتدال رکھا جائے تو ٹائم مینجمنٹ بہتر ہو سکتی ہے کمیونٹی میں چلنے والی گوسپ میں بھی اعتدال آ جائے گا۔ میں نے گوسپ کے بارے میں کچھ عرصہ قبل ایک چھوٹی سی ناصحانہ ویڈیو بنائی۔ تو ایک دوست نے فون کیا “یہ کیا بات ہوئی گوسپ کے بغیر بھلا کیا مزا ہے ،گوسپ تو زندگی میں ضرور ہونی چاہیے۔” میں نے حقیقتا اپنے ماتھے پہ ہاتھ مارا اور خود سے کہا “کر لو گل” ۔ جاؤں تو جاؤں کہاں ، بھلے کا زمانہ ہی نہیں ہے۔ اچھی بات بولو تو لوگ جان کو آ جاتے ہیں اور اگر کہیں کوئی اونچ نیچ ہو جائے تو بھی جینے نہیں دیتے، بھئی ایزی لیا کرو۔

Advertisements
julia rana solicitors

ٹائم مینجمنٹ کے موضوع پر بات یہ ہے کہ سوشل لائف میں اعتدال رکھنا بہت ضروری ہے۔ اب یہ مت کہیں، ” لُک! ہُو از ٹاکنگ”۔ دراصل یہ معاملہ کافی عرصے سے زیر غور ہے اور کوشش ہے کہ نئے سال میں اعتدال پسندی سے کام لیا جائے وقت کو بہتر طریقے سے استعمال کیا جائے۔ میری بہترین شام وہ ہے جو میں اپنے خود کے ساتھ گزارتی ہوں۔ کوئی اچھی کتاب، میوزک ، گوگل پر کوئی ریسرچ یا پھر ٹی وی پر کوئی ڈرامہ یا نیٹ فلکس پہ فلم سے دل کا بوجھ کم ہو جاتا ہے، زندگی کے معاملات سے ذہن پر پڑی دھند چھٹ جاتی ہے۔ ذرا محسوس کریں کہ زیادہ میل ملاپ سے آپ کا ذہن ڈسٹرب نہیں ہو جاتا؟ ذہنی سکون کے لیے ضروری ہے کہ چند مخصوص، منتخب اور ہم ذہن لوگوں سے دوستی اور ملنا جلنا رکھا جائے۔ خصوصاً تخلیقی ذہن کے مالک افراد کے لیے کچھ وقت تنہائی میں گزارنا بہت ضروری ہوتا ہے۔ خالق نے تخلیقی صلاحیتیں ہر بشر میں رکھی ہیں ۔ کچھ وقت اپنی ذات کے لیے مختص کرنے سے سب کی تخلیقی قوتیں بیدار ہو سکتی ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply