سٹریس ویکسینیشن سیریز (ماسٹر کلاس)10،آخری قسط۔۔عارف انیس

(یہ سٹریس سیریز کی آخری قسط ہے جس میں تمام قسطوں کا خلاصہ موجود ہے۔ یہ سلسلہ ان گنت لوگوں تک پہنچا اور بہت سوں نے اس سے فائدہ اٹھایا۔ بھرپور اصرار پر اتوار 27 ستمبر کو اسی موضوع پر لائیو سوالات /جوابات کا زوم سیشن منعقد ہوگا جس کے لیے آپ کو فری رجسٹریشن لنک مہیا کیا جائے گا۔ آپ اپنی دلچسپی کا اظہار کر سکتے /سکتی ہیں۔)
چابی، آپ کے ہاتھ میں ہے!
اگر تم سٹریس کا شکار ہو تو یہ یاد رکھو کہ دنیا بھر کے لوگ جو کچھ بھی کر رہے ہیں، تم ان کے افعال کے ذمہ دار نہیں ہو۔ تم صرف اپنے کیے کے ذمہ دار ہو۔ تو جب وہ تمہیں سٹریس دے رہے ہوں، تو تم لینے سے انکار کر دو۔

شاید آپ یہ بات پڑھ کر ہنسے ہوں گے۔ بھلا یہ اتنی آسان بات کیسے ہوسکتی ہے؟ کیوں کہ آپ اپنے گھر میں اور آس پڑوس میں ایسے لوگوں کو جانتے ہیں جو کہ سٹریس لینے کا، بیس، تیس اور چالیس سالہ تجربہ رکھتے ہیں اور بہت سے لوگ ان کو ایک لاعلاج کیس تصور کرتے ہیں۔

ہم جو کام مسلسل کرتے رہتے ہیں ہم اس کام کے ایکسپرٹ بن جاتے ہیں۔ جو لوگ مسلسل خوشی پریکٹس کرتے ہیں وہ خوشی کا مسل ڈویلپ کرلیتے ہیں۔ جو مسلسل اداس رہیں، وہ دیوداس بن جاتے ہیں۔ ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ جو کام ہم ہر روز کرتے ہیں اور برسوں تک کرتے جاتے ہیں، وہ ہمارے نفسیاتی ڈی این اے کا حصہ بن جاتا ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ اس سے فرق نہیں پڑتا کہ سٹریس کس وجہ سے ہے۔ سٹریس آپ کی مخصوص عینک، طریقہ حیات اور سوچ سمجھ کا چکر ہے۔ باہر کی دنیا آپ کے بس سے باہر ہے، سینکڑوں، ہزاروں چیزیں ہوتی رہیں گی اور آپ اپنے آپ کو ہلکان کر بیٹھیں گے /گی۔ آپ کو کسی اور پر نہیں، خود پر کام کرنا ہے۔ اپنی عینک کا نمبر درست کرنا ہے اور شاید شیشے بھی بدلنے پڑیں۔
یاد رکھیں کہ بھوک لگ سکتی ہے، گرمی لگ سکتی ہے، سردی لگ سکتی ہے، نزلہ زکام لگ سکتا ہے، مگر سٹریس، تناؤ یا غم خود بخود نہیں لگ سکتا۔ اگرچہ بہت سے لوگ غموں کی گٹھڑی ہوتے ہیں اور ان کے ساتھ اٹھک بیٹھک کے بھی اثرات ہوتے ہیں۔

ایک اور غلط فہمی کا تدارک بھی ضروری ہے کہ سٹریس ساری برائیوں کی جڑ ہے۔ یہ ذہن میں رکھیں کہ غاروں کے دور سے موجود دور کے سفر میں سٹریس کا اچھا بھلا ہاتھ ہے۔ یہ سٹریس ہی ہے جو صبح صبح ہماری نیند کے سر میں جوتا مار کر ہمیں بستر سے اٹھاتی ہے اور دن بھر کی ذمہ داریوں کے لیے تیار کرتی ہے۔ یہ خیال کہ اس مہینے بجلی کا بل دینا ہے، کار میں پٹرول ڈالنا ہے، گھر کا کرایہ ادا کرنا ہے، بچوں کی فیسیں دینی ہیں، ہمیں حوصلہ اور توانائی بخشتے ہیں۔ مستقبل کی تیاری، بہتر سے بہترین کی جستجو، خواب اور امنگیں ان سب چیزوں کی اپنی اہمیت ہے۔ بالکل ٹھنڈ رکھنے والے لوگ زیادہ تر اپنے مقاصد پورے کرنے میں ناکام رہ جاتے ہیں۔

سٹریس میں ایک تو بائیالوجیکل رسپانس ہوتا ہے جو کہ ہمارے ڈی این اے کی چپ میں شامل ہے۔ ہمارا دماغ اور نروس سسٹم ہمیں چست، ہوشیار اور چوکنا رکھنا چاہتا ہے تو ہمارے جسم میں ایڈرینالین اور کارٹی سول کے مادے انڈیل دیتا ہے جو ایک دم جسم کو اگلے گئیر میں لے جاتے ہیں۔ یہ بہت کارآمد ہے اگر آپ کے پیچھے کوئی بھیڑیا، یا چیتا یا چلیں خونخوار کتا لگا ہوا ہے، اس صورت میں یہ آپ کی زندگی بچا سکتا ہے۔ تاہم اگر کرسی ہر بیٹھ کر، یا بستر پر لیٹ کر آپ اس کیفیت میں مبتلا ہیں اور سٹریس کے نظام کو چھیڑ بیٹھے ہیں تو پھر آپ کو پسینے چھوٹ رہے ہیں، دل چھوٹا ہورہا ہے، جسم میں سوئیاں چبھ رہی ہیں اور نیند کوسوں دور بھاگ گئی ہے، اب سٹریس زہر کی لکیر کاکام کررہی ہے۔

سٹریس کے بیرونی عوامل میں زندگی میں آنے والے بحران شامل ہیں، جزباتی رشتوں میں اتار چڑھاؤ، مالی پریشانیوں میں مبتلا ہونا، قریبی خاندان کا کسی بحران میں مبتلا ہونا، بہت زیادہ مصروفیات کا شکار ہوجانا اور ذمہ داریوں کے بوجھ تلے دب جانا، سب سٹریس کی ٹیاؤں ٹیاؤں کا بٹن دبا سکتے ہیں۔
سٹریس کے اندرونی عوامل جو آپ کی اپنی ذات سے وابستہ ہیں ان میں منفی سوچ، غیر یقینی حالات کا سامنا نہ کرسکنا، اپنے آپ کے ساتھ مسلسل منفی گفتگو، زندگی اور گرد وپیش موجود لوگوں سے غیر حقیقی توقعات، ضدی پن وغیرہ شامل ہیں۔

سوچ میں بڑی طاقت ہے اور یہی طاقت، اگر قابو سے باہر ہو جائے تو بند توڑ سیلابی کیفیت سے دوچار کرسکتی ہے۔ سوچ، آپ کے تصورات کی ماں ہے۔ اگر آپ یہ سوچتے ہیں کہ آپ کے ارد گرد موجود لوگ بہت خود غرض ہیں اور وہ ہاتھ دھو کر آپ کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں، آپ کو دھوکہ دیا جارہا ہے، آپ کے خلاف سازش کی جارہی ہے، تو آپ کا سٹریس کا نظام اسی سوچ کے حساب سے کام کرے گا، چاہے آپ کی سوچ سو فیصد غلط ہو۔ اس ساری گفتگو میں جو ایک سب سے قیمتی بات سمجھنے کی ہے وہ یہ ہے کہ آپ کا دماغ کا سوچنے والا حصہ جو کچھ سوچتا ہے، دماغ کا یقین کرنے والا حصہ، اس ہر ایمان لے آتا ہے، یوں جو آپ سوچ، سمجھ رہے ہیں، وہی آپ جو نظر آنا اور سنائی دینا شروع ہوجاتا ہے۔

ماہرین نفسیات، نیورولوجسٹس اورسائنس دانوں نے دماغ پر سیکڑوں تجربات سے کچھ نتائج اخذ کیے ہیں۔ دیکھا گیا کہ بھونکتا ہوا کتا، بھاری بھرکم مکڑی، یا اسی طرح کی کوئی اور خطرناک چیز، جب دماغ میں سوچی گئی تو اس نے جسم پر اسی طرح کے اثرات مرتب کیے جیسے وہ حقیقی خطرہ ہو۔ اگر آپ سوچ رہے ہیں کہ سازش ہورہی ہے، لوگ آپ کے تعاقب میں ہیں اور دشمن وار کرنے والا ہے، تو اگر یہ سب کچھ وہم بھی ہو تو پھر بھی آپ کے جسم میں سٹریس ہارمون کی لہر آجائے گی اور جسمانی نظام درہم برہم ہوجائے گا۔ آپ کا دماغ آپ کو خطرے میں دیکھ کر فوری طور پر آپ کو محفوظ مقام تک لے جانے کی کوشش کرے گا اور جسم میں بھونچال آجائے گا۔

سٹریس خود بخود نہیں ہوجاتا۔ پہلے ایک “واقعہ” ہوتا ہے اور دماغ سٹریس ہارمون چھوڑ کر “ٹیاؤں ٹیاؤں” شروع کر دیتا ہے، جس کا رد عمل ہماری ہارڈ ڈرائیو کے اندر پراسیس ہوتا ہے ۔ہارڈ ڈرائیو میں ہمارے ماضی کے معاملات، تجزیات اور عادات موجود ہوتے ہیں جن کی وجہ تقریباً “خود کار” طریقے سے ردعمل ظاہر ہوجاتا ہے۔ یہ سب کچھ بظاہر چشم زدن میں ہوجاتا ہے، مگر یہ اپنے سٹیپس /مراحل پورے کر کے سرکٹ مکمل کرلیتا ہے۔

آپ نے زندگی کا سارا علم، سارے رویے، ساری عادتیں دیکھ کر سن کر اور پڑھ کر حاصل کیے اور سٹریس ہونا بھی اس طرح سیکھا ہے۔ دنیا کا سارا علم جن حواس سے حاصل ہوتا ہے وہ بہت سادہ سے ہیں۔ آپ نے جو کچھ آج تک سیکھا ہے وہ دیکھ کر، سن کر، سمجھ کر، کر کے، یا محسوس کر کے سیکھا ہے اور پھر لگاتار اس کی پریکٹس کی بے۔ الف ب سیکھنے سے لے کر، لکھنے کی مہارت سے لے کر، کمپیوٹر استعمال کرنا، کھانا بنانا، فون استعمال کرنا، ڈرائیونگ کرنا، یہ سب آپ نے دیکھ کر، سن کر، کر کے سیکھے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ آپ نے سٹریس بھی بالکل اسی طرح سیکھی ہے اور پھر برسوں اس کی پریکٹس کی بے، یہی آپ کا سرکٹ ہے۔

آپ کی زندگی کی تمام حسین یا بدترین یادیں، احساسات، جذبات یا تو تصویریں ہیں، یا وہ الفاظ یا ڈائیلاگ ہیں یا پھر وڈیوز ہیں۔ اب سب سے شاندار بات یہ ہے کہ آپ یہ تصویریں، ڈائیلاگ اور وڈیوز خود اپنی مرضی سے لوڈ یا آف لوڈ کرسکتے /سکتی ہیں۔ آپ کو ماہرین نفسیات کے ساتھ لمبے لمبے سیشن کرکے لاکھوں روپے اس بات پر نہیں لگانے کہ آپ کو سٹریس کیوں ہورہا ہے۔ آپ اپنی مرضی سے تصویر یا وڈیو بدل کر اپنا پورا سرکٹ بریک کرسکتے ہیں۔ آپ کی تیس سال پرانی سٹریس بھی گھنٹے میں سرکٹ توڑ کر ختم کی جاسکتی ہے۔ پچھلے بیس برس میں میں ان گنت سٹوڈنٹس /کلائنٹس کے ساتھ یہ سب کچھ کرچکا ہوں اور یہ اتنا ہی آسان یا مشکل ہے۔ جس طرح آپ نے پریشان ہونا سیکھا ہے اسی طرح جینا بھی سیکھ سکتے /سکتی ہیں، مگر ٹولز الگ ہیں

آپ کا دماغ صرف آڈیو پلیئر یا وڈیو پلیئر نہیں ہے، جہاں آپ صرف جو لائبریری میں موجود ہے، صرف اسے ہی سن یا دیکھ سکتے ہیں۔ بلکہ آپ کا دماغ ایک بہترین آڈیو اور وڈیو ایڈیٹر بھی ہے۔ اس کا مطلب کیا ہوا؟ وہ یہ کہ آپ ایک بے رنگ تصویر میں رنگ بھر سکتے ہیں اور غمگین گانے کو بھنگڑے سے ری پلیس کر سکتے ہیں۔

مثال کے طور پر اگر سٹریس دینے والی آڈیو چل رہی ہے۔ لعن طعن والی، پھٹکار والی، گالم گلوچ والی،۔۔۔۔ جو بھی منفی آڈیو چل رہی ہے، اسے آپ کس آواز سے بدلنا چاہیں گے /گی؟ سورہ رحمان سے؟ عاطف اسلم یا کوک سٹوڈیو کے گانے سے؟ تازہ ترین بھنگڑا سانگ سے؟ آپ کی مرضی ہے۔ جیسے ہی آڈیو آنے لگے، اس کی آواز کم کردیں، سرگوشی میں منتقل کردیں، جتنی آواز لاؤڈ ہے اتنا ہی تنگ کرے گی۔ آپ باقاعدہ چھیڑ چھاڑ کرنا شروع کردیں۔ جس کی بھی آواز ہے، باس کی، بیوی کی، دوست کی، اسے مضحکہ خیز کارٹون آواز میں بدل دیں۔ مسٹر بین، ٹام اینڈ جیری، سمپسن یا کوئی بھی جو آپ کو پسند ہے۔ اب وہی زہریلا ڈائیلاگ دوبارہ سنیں، اب آپ کو اس پر ہنسی آنے لگے گی۔جن لوگوں کے سٹریس کوڈ میں کانوں میں سرگوشیاں آتی ہیں، وہ فوراً رکیں، آنکھیں بند کریں اور یہ تجربہ کر گزریں۔ نہ صرف سٹریس لینے میں ناکامی ہوگی بلکہ الٹا چہرے پر مسکراہٹ آجائے گی۔

جو لوگ تصویر /وڈیو کے ذریعے سٹریس لینے میں ایکسپرٹ ہیں وہ زندگی میں سب سے زائد سٹریس دینے والے بندے کا تصور کریں۔ تصویر دیکھیں اور وڈیو چلا دیں۔ اب کیا ہوسکتا ہے؟وڈیو کلر سے بلیک اینڈ وائٹ میں منتقل کردیںآنکھیں بند کرکے دیکھیں، اگر وڈیو سو فٹ بڑی سکرین پر چل رہی ہے تو اپنے تصور کی آنکھ سے اسے سینما سکرین سے چھوٹا کرکے ایک فٹ کی ٹیبلٹ پر کنورٹ کردیںاب چاہیں تو ٹک ٹاک کا فیورٹ ٹوٹا وہاں فٹ کردیںآڈیو کو مرضی کے گانے یا ڈائیلاگ سے بدل دیںوڈیو یا تصویر میں موجود شخص (بیوی، شوہر، ساس، باس، جو بھی) کو اپنے پسندیدہ کارٹون سے بدل دیں، سائز چھوٹا کردیں، اپنی مرضی کی پوشاک پہنا دیں۔ اور اب اس کی کارٹون زدہ آواز میں گالیاں یا بے نقط سنیں۔ ساتھ ہی خود جو سنانا چاہیں، سنا دیں

سٹریس جہاں ایک جسمانی اور نفسیاتی بیماری ہے وہاں اس کا ایک پہلو روحانی بیماری ہونے کا بھی ہے۔ اوپر بیان کردہ خصوصیات، انسان کے سٹریس اور تفکرات میں بہت گاڑھا حصہ ڈالتی ہیں۔ نفسیات کی دنیا میں ہارورڈ، آکسفورڈ، کیمبرج اور پرنسٹن جیسی نامی گرامی یونیورسٹیوں میں کیے گئے ہزاروں مختلف ریسرچ پراجیکٹس میں یہی دیکھا گیا کہ مذہبی یا روحانی افراد میں سٹریس کی مقدار باقی لوگوں سے بدرجہا کم ہے۔

ایمانی نظام عموماً زندگی کے مقصد اور اس میں چھپے گہرے مطالب سے روشناس کراتا ہے۔ شکر گزاری کے جذبات جگاتا ہے، مایوسی کو رفع کرتا ہے، اور معاف کرنے پر آمادہ کرتا ہے۔ نماز یا عبادت کا نظام ڈسپلن کے ساتھ ساتھ برائیوں سے بچاتا ہے۔ خدا میں یقین کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ انسان تنہائی اور اکلاپے کے احساس سے باہر نکل آتا ہے اور انہیں لگتا ہے کہ کائنات کی سب سے بڑی طاقت زندگی کی مشکلات سے نبرد آزما ہونے کے لیے ان کے ساتھ ہے۔ عبادات ریاضت اور محاسبے پر زور دیتی ہیں اور آزمائش کے مراحل میں ڈھال بن جاتی ہیں۔ ایمانی نظام کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ وہ انسان کی اس امر پر آنکھ کھولتا ہے کہ وہ صرف ایک جسم نہیں ہے جس میں ایک روح وقتی طور پر رہ رہی ہے، بلکہ دراصل وہ ایک ایک روح ہے، جو وقتی طور پر ایک جسم میں مقیم ہے اور یہی تصور گیم چینجر ہے۔

یہ طے ہے کہ زندگی میں سارے سوالات کے جوابات نہیں ملتے، سارے پرچے حل نہیں ہوتے، سارے خواب پورے نہیں ہوتے۔ ہر انسان کے اپنے اندر، چاہے وہ کتنا ہی بڑا سورما کیوں نہ ہو، کچھ خوابوں کے کانچ کی کرچیاں رہ جاتی ہیں۔ اس اعتبار سے سارے انسان برابر ہوجاتے ہیں، ہاں کچھ کم برابر ہوتے ہیں اور کچھ زیادہ برابر ہوتے ہیں۔ جب انسان تھک جاتا ہے، چور ہوجاتا ہے، اور اوندھے منہ گر جاتا ہے اور اس کی بس ہو جاتی ہے تو پھر مذہب یا روحانیت کے پہلو کسی حد تک اس کے زخموں پر مرہم رکھ دیتے ہیں۔

آپ قرآن مجید کے حوالے سے ہی مثال لے لیں، ماننے والا /والی کبھی مایوس نہیں ہوتا /ہوتی کیونکہ “مایوسی کفر ہے”۔ ماننے والا /والی کبھی مایوس نہیں ہوسکتا/ہوسکتی کہ ، “بےشک ہر مشکل کے بعد آسانی ہے”۔ مومن کو مایوسی زیب نہیں دیتی کیونکہ “اللہ پاک کسی نفس پہ اسکی جان سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتے”۔ مومن مایوسی کو اپنے پاس نہیں آنے دیتا کہ ” غم نہ کر اللہ ہمارے ساتھ ہے”۔ مانگنے والا /والی مایوس نہیں ہوتا /ہوتی کیونکہ قرآن پاک گواہی دیتا ہے کہ ” اور تیرا رب بھولنے والا نہیں”، ساتھ ہی اسے امید دلائی جاتی ہے کہ “بے شک میرا رب دعا سننے والا ہے”۔ ماننے والے /والی کے لیے رب کا اپنا فرمان ہے کہ “خدا کی رحمت سے ناامید نہ ہوں”۔

مارچ 2020 میں دنیا میں سب سے زیادہ گوگل ہونے والی، سرچ ہونے والی چیزوں میں ایک بہت بڑی چیز “دعا” بھی تھی۔ 95 ممالک میں ہونے والی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی کہ کورونا وائرس کے نتیجے میں روحانی معاملات اور مذہب سے دلچسپی میں کئی گنا اضافہ ہوگیا۔ خاص طور پر یہ بات سامنے آئی کہ غیر یقینی اور تناؤ کی کیفیت میں دعا نے کروڑوں لوگوں کو سکون سے ہمکنار کیا۔ دعا سٹریس، ڈیپریشن اور انزائٹی کے تمام معاملات میں ڈھارس بندھاتی ہے۔ آپ مظبوطی اور استقامت کی دعا کرسکتے /سکتی ہیں۔ اپنے جذبات ہر قابو پانے کی دعا مانگ سکتے /سکتی ہیں اور رب کائنات کو اپنا سٹریس پارٹنر بنا کر سارا بوجھ اس کے کھونٹے پر باندھ سکتے ہیں۔ ہم نے سٹریس سرکٹ کی بات کی تھی۔ دعا کے ذریعے بھی آپ اس سرکٹ کو توڑ سکتے /سکتی ہیں۔ چابی آپ کے ہاتھ میں ہے، ہمت کریں تو تالا بھی کھول سکتے /سکتی ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ختم شُد

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply