خدارا ! خدا کا خانہ خراب نہ کریں۔۔ذیشان نور خلجی

مسجد خانہ خدا ہے
کوئی ناچ کی جا نہیں
چاہے ہم جتنے بھی گرے ہوئے اور پرلے درجے کے مسلمان ہیں لیکن اپنے مقدسات کا تقدس ہمارے لئے سب سے بڑھ کر ہے۔ مساجد، عبادت گاہوں کا احترام مذہب کے ساتھ ساتھ ہمارے معاشرے میں مروج اعلیٰ و ارفع اقدار پر قائم ہے۔ پھر جب یہاں خلاف معمول سرگرمی ہو گی تو ہمارے جذبات کو ٹھیس پہنچے گی جس کا رد عمل ضرور سامنے آئے گا۔ اور یہ رویہ صرف مسلمانوں ہی سے مخصوص نہیں بلکہ وہ ہندوؤں کا مندر ہو یا سکھوں کا گردوارہ، عیسائیوں کا کلیسا ہو یا یہودیوں کا کنیسہ، ہر مذہب کے پیروکار اپنی عبادت گاہ کے لئے ایسے ہی تقدس اور حرمت کی امید رکھتے ہیں۔
اب دیکھتے ہیں کہ اصل ماجرا کیا ہے۔
فلم کی شوٹنگ کے لئے جس عمارت کا انتخاب کیا گیا وہ ایک مسجد کے ساتھ ساتھ ایک تاریخی ورثہ کی حیثیت بھی رکھتی ہے اور وہاں شوٹنگ کا مقصد بھی صرف اور صرف مسجد کے نقش و نگار اور خوب صورتی کو ہی فلمانا تھا نا کہ مسجد کا تقدس پامال کرنا۔ لیکن غلطی یہ ہوئی ہے کہ لاہور میں اور بھی بہت سی قدیمی عمارات ہے لیکن پھر بھی ایک عبادت گاہ کا ہی انتخاب کیا گیا۔ اب چونکہ اس عمل سے عوام کے جذبات کو ٹھیس پہنچی ہے سو لازمی طور پر ذمہ داران کو معافی مانگنی چاہئیے۔ بلکہ مسجد کی انتظامیہ اور محکمہ اوقاف کے آفیسران کے خلاف ضابطہ جاتی کاروائی بھی ہونی چاہئیے جنہوں نے مسجد میں فلم کی عکس بندی کی اجازت تو دے دی لیکن پھر اپنی ذمہ داری احسن طریقے سے نہ نبھائی۔
اب کچھ لوگ اعتراض کر رہے ہیں کہ مسجد ایک کمیونٹی سنٹر کی حیثیت رکھتی ہے اس لئے یہاں ایسی سرگرمی پر غم و غصہ عبث ہے۔ ان کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ پاکستان اور خاص طور پر پنجاب میں مساجد کو اس حوالے سے بالکل بھی نہیں دیکھا جاتا اور مروج اقدار میں انہیں صرف عبادت گاہ کی حیثیت ہی حاصل ہے کہ جہاں لوگ تذکیہ نفس کے لئے اور اپنے رب کے حضور سجدہ ریز ہونے کے لئے آتے ہیں۔ لیکن اگر آپ پھر بھی اسے کمیونٹی سنٹر کی حیثیت منوانے پر تلے ہوئے ہیں تو پھر یہاں ایک سوال اٹھتا ہے کیا آپ کے زیر نظر کسی مسجد میں جو کہ کمیونٹی سنٹر کا درجہ بھی رکھتی ہے، ایسی کسی سرگرمی کی اجازت دی جا سکتی ہے؟ اگر عوام کی ترجمانی کرتے ہوئے سخت لہجہ اختیار کروں تو پھر سوال کروں گا، کیا وہاں مجرے کروائے جا سکتے ہیں؟ اس لئے یہ موقف مجہول اور حقائق کے بالکل بر عکس ہے۔
اب آ جائیں ذرا ان مفتیان اکرام کی طرف، جنہوں نے آسمان سر پر اٹھا لیا ہے اور “پکڑو، جانے نہ پائے” کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں کہ ان اداکاروں کے خلاف مقدسات کی توہین کا مقدمہ درج ہونا چاہئیے اور گرفتاریاں عمل میں لائی جانی چاہئیں۔ ان کی بارگاہ میں انتہائی عجز و انکساری سے عرض کر رہا ہوں، خدارا پاکستان پہلے ہی ہماری پھیلائی ہوئی نفرتوں کی آگ میں جل رہا ہے۔ ایسے میں آپ کا یہ رویہ کسی کو بغاوت پر مجبور تو کر سکتا ہے لیکن راہ راست پر نہیں لا سکتا۔ کسی کے پیچھے لٹھ لے کر پڑنے سے اور برے برے القابات دینے سے ایک مخالف گروہ تو وجود میں لایا جا سکتا ہے لیکن انہیں اپنی غلطی پر شرم سار نہیں کیا جا سکتا۔ اس لئے براہ مہربانی ہتھ ہولا رکھیں اور ویسے بھی امید واثق ہے کہ ان سے جو غلطی، کوتاہی سر زد ہوئی ہے چونکہ نادانستہ طور پر ہوئی ہے اس لئے وہ رجوع کرنے میں کوتاہی نہیں برتیں گے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply