بندوبست پنجاب میں بلوچستان میں غیر منتخب عسکری ہئیت مقتدرہ کی جانب سے جعلی مقابلوں میں عرصہ دراز سے جبری گمشدہ یا گاہے بگاہے اٹھائے جانے والے بلوچ نوجوانوں کو “دہشت گرد” (بلوچ علیحدگی پسند عسکریت پسند/سرمچار) کہہ کر مار دیے جانے کے الزامات پر مبنی کبھی کبھار آنے والی خبریں اُتنی بھی بے چینی پیدا نہیں کرتیں جتنی بے چینی ‘شہباز گِل’ کی مظفر گڑھ پولیس ہاتھوں گرفتاری سے پیدا ہوتی ہے یا اسلام آباد میں عمران خان کے حامی شرکا پر لاٹھی چارج، آنسو گیس شیلنگ جیسے واقعہ پر پیدا ہوجاتی ہے –
بندوبست پنجاب میں ریاستی اور ریاست کے حامی یا اُس کے دباؤ میں آئے نام نہاد مین سٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا پر ریاست کے پیدا کردہ سماجی کھاتوں نے یہ بیانیہ سیٹ کر رکھا ہے کہ بلوچستان میں سکیورٹی فورسز، انٹیلی جنس ایجنسیاں اور اُن کی پرائیویٹ پراکسیز جب بھی کسی بلوچ کو جبری گمشدہ بنائیں یا اُسے ماورائے عدالت قتل کرتی ہیں تو وہ یا تو دہشت گرد ہوتا ہے یا دہشت گردی میں معاون ہوتا ہے – “جبری گمشدگی یا ماورائے عدالت جعلی مقابلے میں مار دیے جانے کا جواز یہ پیش کیا جاتا ہے کہ عدالتوں میں اُن کے خلاف جرم ثابت نہیں کیا جاسکتا اور اس لیے انھیں مار دیا جاتا ہے-
آج تک ریاست، حکومت اور بلوچستان میں فوجی آپریشن میں مصروف سکیورٹی اداروں نے مبینہ شورش زدہ علاقوں میں میڈیا، انسانی حقوق کی تنظیموں کو آزادانہ گھومنے پھرنے اور پیش آمدہ واقعات بارے حقائق اکٹھے کرنے کی اجازت نہیں دی کیونکہ ریاست کی غیر منتخب عسکری ہئیت مقتدرہ کا خیال یہ ہے کہ انسانی حقوق کے رضاکار اور صحافی بلوچستان میں فیکٹ فائنڈنگ اور انوسٹی گیشن کے نام پر پاکستان کے دشمنوں کے ایجنڈے پر فیک نیوز پھیلاتے ہیں ۔
بلوچستان میں فوجی آپریشنز کے دوران انسانی حقوق کی بدترین پامالی بارے سوشل میڈیا اور ویب نیوز سائٹ پر معروضی اور مبنی بر زمینی حقائق مسلسل رپورٹنگ کرنے کا عمل بھی خطرات سے خالی نہیں ہے ۔ آپ کو دشمن کا ایجنٹ قرار دے کر جبری گمشدہ نہ بھی کیا جائے تو ایف آئی اے کا سائبر کرائمز رپورٹنگ سیکشن آپ کے خلاف کاروائی کرسکتا ہے یا پھر کوئی پولیس والا یا اداروں کے پے رول پر بظاہر سویلین نظر آنے والا آپ کے خلاف کسی بھی شہر کے تھانے میں ایک درخواست دے کر آپ کے خلاف 124 اے سمیت مسلح افواج پر تنقید کو جرم قرار دینے والی دفعات کے تحت مقدمے کا اندراج کرسکتا ہے اور اُس مقدمے سے نکلنے کے لیے آپ کو کئی سال لگ سکتے ہیں – اب تو پیکا موجود ہے جس کے تحت بآسانی آپ کو جیل میں ڈالا جاسکتا ہے – الغرض ایک منظم طریقے سے ریاستی اداروں کے اہلکاروں کی مبینہ لاقانونیت، ریاستی تشدد کے خلاف آپ کی پرامن تحریری، تقریری جدوجہد کو سبوتاژ کیے جانے کا پورا اہتمام موجود ہے ۔
بلوچ پارلیمنٹری سیاست میں زبردست مخالفت کے باوجود موجود رہنے والی بلوچ سیاسی جماعتوں اور اُن کی قیادت کو خود غیر منتخب ہیئت مقتدرہ نے دیوار سے لگا دیا ہے-جب سے وفاق میں 11 جماعتی اتحاد کی حکومت آئی ہے تب سے اختر مینگل خاموش ہیں اور اُن کا کی کوئی سیاسی سرگرمی دیکھنے کو نہیں مل رہی کیونکہ اُن کے ووٹر اور سپورٹرز اُن سے سوال کرتے ہیں کہ وہ بلوچ قوم پر ریاستی سطح پر جبر کو ختم کرانے کے نام پر جس وفاقی جمہوری پارلیمانی نظام کا حصہ بنے تھے اُس نے اُن کا مقصد کتنے فیصد پورا کیا ہے؟ اختر مینگل ہوں یا ڈاکٹر مالک یا ثناء بلوچ کسی کے پاس اپنے ووٹرز، سپورٹرز کے اس سوال کا کوئی جواب نہیں ہے –
سندھ کی سب سے بڑی نمائندہ سیاسی جماعت پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور شریک چیئرمین آصف زرداری نے 2008ء سے 2022ء کے دوران بلوچستان کے دوروں کے دوران بلوچ قوم کو یقین دلایا تھا کہ وہ اُن کے خلاف ریاستی جبر کو ختم کرائیں گے لیکن وہ تو اپنے خلاف غیر منتخب ہئیت مقتدرہ کی چیرہ دستیاں اب تک ختم نہیں کراپائے تو بلوچ قوم پر ریاستی جبر کا کیسے خاتمہ کرواپائیں گے؟
بلوچستان میں ہر وہ بلوچ جو اپنے قومی وقار اور آزادی سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں ہے غائب ہونے یا مار دیے جانے کے خطرے سے دوچار ہے – بلوچ قوم میں علیحدگی پسندی کا رجحان ترقی پذیر ہے – لوگ بندوبست پاکستان کے اندر بلوچستان کی خودمختار، خود اختیار ہونے کے امکان کو مسترد کررہے ہیں – بندوبست پنجاب کی ایک بڑی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ علیحدگی پسند رجحان کا ایک ہی حل ہے اور وہ ہے فوجی آپریشن اور زبردست ریاستی تشدد – یہ وہ زہنیت ہے جس کا نتیجہ وفاق کا ٹوٹ جانے، انارکی کا پھیلنا، بربریت کا ابھار ہوا کرتا ہے-
پاکستانی فوج کے لیفٹننٹ کرنل لئیق مرزا بیگ اپنے ایک کزن کے ساتھ کوئٹہ زیارت سڑک سے 12 اور 13 جولائی کی درمیانی رات اغوا کرلئے گئے ـ ایک بھارتی نیوز ایجنسی نے 13 جولائی کی شام یہ خبر بریک کی ـ ،پاکستانی میڈیا نے کرنل کی شناخت چھپا کر دو سیاحوں کے اغوا کی رپورٹ دی ۔ـ 14 جولائی کو بلوچ لبریشن آرمی نے کرنل لئیق مرزا اور ان کے کزن کے اغوا کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا کہ کرنل اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ سفر کر رہے تھے، ہمارے سرمچاروں نے اہلِ خانہ کو چھوڑ کر باقی دونوں کو اغوا کرلیا ہے ۔ـ
13 جولائی کی رات سے ہی پاکستان آرمی نے زیارت کا فضائی آپریشن شروع کردیا تھا ـ 15 جولائی کو فوج کے ترجمان نے اطلاع دی کہ اغوا کاروں نے کرنل کو ہلاک کردیا ہے جبکہ فوج کے ساتھ جھڑپ میں دو اغوا کار بھی مارے گئے ہیں ـ مزکورہ دونوں اغواکاروں کی تصاویر اور دیگر تفصیلات میڈیا کو جاری نہیں کی گئیں ـ۔
بی ایل اے نے اپنے دو ساتھیوں کی شہادت کی اطلاع کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے سرمچار بحفاظت نکل چکے تھے، ہمارا اگر کوئی ساتھی شہید ہوتا تو ہم فخریہ اس کا اعلان کرتے ـ
16 جولائی کو کرنل لئیق بیگ مرزا کے کزن عمر جاوید کی لاش بھی زیارت سے مل گئی ـ 17 جولائی کو پاکستانی میڈیا نے فوجی ذرائع سے نو بلوچ سرمچاروں کی شہادت کی اطلاع دے کر ان کی تصاویر جاری کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ یہ افراد زیارت میں فوج کے ساتھ جھڑپ میں مارے گئے۔ ـ بی ایل اے نے ایک دفعہ پھر اس کی سختی سے تردید کرتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا کہ ممکن ہے یہ افراد جبری گمشدگاں ہوں جنہیں ہمارا سرمچار بتایا جارہا ہے ـ۔
اگلے دن ایک لاش کی شناخت شمس ساتکزئی کے نام سے ہوگئی جو گزشتہ پانچ سالوں سے جبری گمشدگی کا شکار تھے ـ شمس ساتکزئی کی شناخت کے بعد جبری گمشدگان کے لواحقین میں تشویش کی لہر دوڑ گئی اور لاشوں کی شناخت کا سلسلہ شروع ہوگیا ـ۔
19 جولائی کو ایک اور لاش کی شناخت انجینئر ظہیر بلوچ کے نام سے ہوگئی ـ ظہیر بلوچ گزشتہ سال اکتوبر کو کوئٹہ سے گرفتار کرکے جبراً لاپتہ کئے گئے تھے ـ۔
دیگر لاشوں کی شناخت کا عمل جاری ہے ـ قوی امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ دیگر مقتولین کا تعلق بھی بلوچ جبری گمشدگان سے ہے ـ۔
نوٹ:عنوان/عامر حسینی
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں