“ہم سب” پر مہناز رحمن کی تحریر “روسی عورت اور انقلاب” پڑھ کر اندازہ ہوا کہ لبرل دانشور انسانی حقوق ، فیمنزم ،جمہوریت اور انسانی آزادی کی آڑ میں سوویت یونین اور دیگر سوشلسٹ ممالک، ان کی قیادتوں اور خودمارکسزم لینن ازم ، سوشلزم پر الزامات کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ۔ اب اس “کار خیر”میں کل کے کچھ مارکسسٹ ، لینن اسٹ اور ماواسٹ اور آج کے لبرل بھی دامے،درمے ،سخنے اپنا حصہ ڈالتے ہوئے اپنے نظریاتی انحرافات اور موقع پرستی کا ثبوت فراہم کر رہے ہیں ۔الزامات و اتہامات کی ایک طویل فہرست ہے جن میں بورژوا اور پیٹی بورژوا فیمنسٹ سوچ کے لبرل علمبرداروں نے بھی خوب حصہ لیا اور لے رہے ہیں۔ ان کے اکثر و بیشتر الزامات رابرٹ کونکیسٹ طرز کی کذب بیانی اور خودساختہ لغویات پر مبنی روایات پہ بنیاد رکھتے ہیں۔ جن کا حقیقت سے کوئی علاقہ نہیں۔
محترمہ مہناز رحمن نے اپنی تحریر کے اختتام پہ ایک بات لکھی جو خالصتاَ بورژوا اورمڈل کلاس لبرل فیمنزم کی عکاس تھی اور اس میں سچائی کا شائبہ تک نہیں ہے۔ محترمہ لکھتی ہیں کہ “بالشویک اقتدار کے ابتدائی برسوں میں عورتوں کی زندگیوں میں نمایاں تبدیلیاں آئیں ،الیگزینڈر اکو لنتائی بالشویک حکومت میں شامل ہونے والی پہلی خاتون تھیں جنہوں نے عورتوں کے حقوق کے لیے بہت کا کیا۔1918 کے فیملی کوڈ نے عورتوں کو مردوں کے مساوی مقام اور مرتبہ دیا،1919 میں ایک ویمن بیورو قائم کیا گیا ،عورتوں میں خواندگی اور تعلیم کے فروغ پر توجہ دی گئی،بچو ں کی دیکھ بھال اور گھریلو کاموں کی سہولت فراہم کی گئی،عورتوں کی زندگیوں میں بہتری لانے والے اقدامات زیادہ دیر نہ چل سکےاور اسٹالن نے ان اصلاحات کا خاتمہ کردیا ۔اسٹالن نے پارٹی کا ویمن بیورو بھی ختم کردیا۔عورتوں کی آزادی اور مساوات کا اشتراکی خواب کہ عورتیں اپنی مرضی کے کسی بھی شعبے میں کام کریں گی،اور کمیونٹی کے ادارے بچوں کی پرورش اور گھر کی دیکھ بھال کی ذمہ داری سنبھالیں گے،پورا نہ ہوسکا،توجہ پھر روایتی فیملی یونٹ پر مرکوز ہوگئی اور عورتوں کو گھر کے باہر کا دوہرا بوجھ اٹھانا پڑا۔”(حوالہ ،کیٹی میک الوینی)
ایک کمزور اور ادھورے حوالے کے ساتھ اس پیرا گراف میں محترمہ کا خیال ہے کہ کامریڈ اسٹالن نے سوشلسٹ ثقافت میں رجعت پسندانہ کردار ادا کرتے ہوئے دوبارہ عورتوں کوگھر گرہستی کی ذمہ داری سونپ دی اور خواتین کی آزادی اور برابری کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا۔
اس کذب بیانی پہ میں کامریڈ اسٹالن کے ایک شدید ناقد ٹیڈ گرانٹ کی کتاب “روس، انقلاب سے رد انقلاب تک ” سے کچھ اعداد و شمار پہ مبنی حقائق مہیا کیے دیتا ہوں، فورئیے کہتا ہے کہ عورت کا مقام کسی سماجی نظام کی ترقی یا تنزلی کا سب سے ناقابل تردید پیمانہ ہوتا ہے۔ زار شاہی روس میں عورتوں پر تشدد کی اجازت تھی، جسے محترمہ دانستہ یا غیر دانستہ پوشیدہ رکھنا چاہتی تھیں کیونکہ اس کا انھوں نے ذکر تک نہیں کیا۔دیہی علاقوں میں خواتین کو نقاب پہننے پر مجبور کیا جاتا تھا۔ یہ بات بھی محترمہ چھپا گئیں۔۔ 1919 کے کمیونسٹ پارٹی کے پروگرام میں اعلان کیا گیا کہ “عورتوں کی رسمی برابری پہ اکتفا نہ کرتے ہوئے پارٹی انھیں گھر گرہستی کے مادی بوجھ سے نجات دلانے کے لیے اجتماعی گھروں، کھانے کی عوامی جگہوں، مرکزی دھوبی گھروں اور نرسریوں وغیرہ کو فروغ دے گی”ـ یہ تھا کمیونسٹ پارٹی کا اعلان جو لینن کے دور میں کیا گیا اور پارٹی کے تمام ممبران اس اعلان سے متفق تھے۔
“اسکول میں بچوں کے لیے مفت کھانا اور دودھ، ضرورت مند بچوں کے لیے خصوصی غذا، اور کپڑوں کے لیے الاونس، دوران زچگی مشورے کے مراکز، زچہ خانہ جات، ڈے کئیر سنٹر ” یہ تمام سہولیات کامریڈ اسٹالن کے عہد میں خواتین کو دستیاب تھیں۔ اب مزید اعداد و شمار کی جانب آتے ہیں۔
55 سال کی عمر میں ریٹائرمنٹ، ملازمت میں شرائط اور تنخواہ میں تفریق کا خاتمہ، حاملہ خاتون کے لیے ہلکے پھلکے کام کا حق، مکمل تنخواہ کے ساتھ زچگی سے 56 دن پہلے اور بچے کی پیدائش کے 56 دن بعد کی چھٹی۔اب تعلیمی اعداد و شمار کی جانب آتے ہیں جو بورژوا دانشور مسخ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ 1927 میں اعلی تعلیم کے شعبے میں 28% خواتین تھیں۔ 1960 میں یہ 43% فیصد ہوگئیں اور 1970 میں یہ 48% فیصد تک جا پہنچی۔ پوری دنیا میں صرف تین ممالک ایسے تھے جن میں اعلی تعلیم کے شعبے میں خواتین کی شمولیت 40% سے سےزیادہ تھی۔ ان میں ایک سوویت یونین بھی تھا۔ سکول جانے کی عمر سے پہلے بچوں کی دیکھ بھال کے 1950 میں پانچ لاکھ مراکز تھے جو 1971 میں پچاس لاکھ سے زائد ہوگئے۔ خواتین کی اوسط عمر جو بالشویک انقلاب سے پہلے 30 سال تھی 1950 میں وہ 74 سال ہوچکی تھی۔ 1960 میں 98% نرسیں، 75% اساتذہ، 95% لائبریرین اور 75% ڈاکٹر خواتین تھیں۔ 1950 میں 600 خواتین سائنس میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری رکھتی تھیں جو 1984 میں 5600 تک جاپہنچیں۔ روسی پرولتاریہ کی مجموعی تعداد کا 51% خواتین تھیں۔ جو تقریباً تمام برسر روزگار تھیں۔ اب سرمایہ دارانہ روس وزیر محنت میلکیان کا بھی ایک قول سن لیجیے تاکہ آپ کی “خوبصورت”لبرل سرمایہ داری کا ایک “حسین” رخ آشکار ہو سکے۔ ارشاد فرماتے ہیں ” ہم خواتین کے لیے کام تلاش کرنے کی کوشش کیوں کریں؟ جبکہ مرد بیکار ہیں اور بےروزگاری کا سامنا کر رہے ہیں۔ مردوں کو کام کرنے دیں اور خواتین گھربار اور بچے سنبھالیں”۔ یہ زار کے خوفناک عہد کی واپسی نہیں تھی کیا ؟
ڈے کئیر سنٹر اور عوامی کھانے کے گھر، عوامی دھوبی گھر کس مقصد کے لیے تعمیر کیے گئے اور ان کو فروغ کیوں دیا گیا ؟ سادہ سی بات ہے کہ ایک خاتون کو گھر گرہستی کے جھنجھٹ سے آزاد کیا جائے۔ تنخواہ میں برابری اور مکمل مواقعوں کی دستیابی نے خواتین کو معاشی طور پہ آزاد کیا جس سے وہ ایک الگ وجود اور الگ انسان کی طرح سوچنے کے قابل ہوئیں سوویت نظام حکومت میں خواتین کے کردار اور سیاسی ساکھ سے متعلق اعداد و شمار بھی مہیا کیے دیتا ہوں۔
یہ اعداد و شمار کامریڈ اسٹالن کے عہد کے ہیں۔
1927 کے دیہی علاقوں کی سوویتوں کے انتخابات میں 6500,000 خواتین نے حصہ لیا۔ مطلع کرتا جاؤں کہ، اس سے پہلے زار کے عہد میں ووٹ ڈالنے اور انتخابات میں خواتین کا حصہ لینا ممنوع تھا۔ ان خواتین میں سے 146,251 خواتین کامیاب ہوئیں۔ یہ دیہی علاقوں کی سوویتوں کے منتخب نمائندوں کی کل تعداد کا 11.3% تھا۔ شہری علاقوں کی سوویتوں میں 22,221 خواتین منتخب ہوئیں جو کل تعداد کا 21.4% تھا۔ 1924 کے انتخابات میں 19.9% فیصد خواتین نمائندگان منتخب ہوئی تھیں۔اسی سال میں ہی 641 دیہی سوویتوں کی چیئر پرسن خواتین تھیں، 1927 میں کل یونین سوویتوں کی کانگریس میں خواتین کی تعداد پہلی بار 3.5% تھی، دوسری بار 3.8%، تیسری بار 7.1% اور چوتھی بار 8.2% فیصد تھیں۔ چوتھی کانگریس میں خواتین نمائندگان کی تعداد 193 تھی۔
سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کی پہلی کانگریس میں خواتین 2.4% تھیں، دوسری میں ان کی تعداد میں اضافہ ہوا اور یہ 2.6% ہوگئی، تیسری میں 5.5% اور چوتھی کانگریس میں یہ 8.2% فیصد تک ہوگئیں۔
اکتوبر 1927 میں کمیونسٹ پارٹی کی کل ممبر شپ کا 12.8% خواتین تھیں۔ ینگ کمیونسٹ لیگ کا 21.4% لڑکیوں پہ مشتمل تھا۔ ینگ پائنرز کا 41.7% فیصد بچیوں پہ مشتمل تھا۔ ایک تہائی تعداد جو اعلی تعلیمی اداروں میں پڑھ رہی ہیں وہ خواتین ہیں۔ ٹریڈ یونینوں کی 25% ممبران خواتین ہیں۔ ٹریڈ یونین کے پریزڈیم میں 64 خواتین براجمان تھیں۔ خواتین کی خودمختاری کے لیے ایک تیز رفتار مہم وسط ایشیا کی ریاستوں میں چلائی گئی۔ اس مہم کی وجہ سے ازبک سوویت ریپبلک میں 1926 کی نسبت 10% زیادہ خواتین نے نےانتخابات میں حصہ لیا۔ ازبک سوویت ریپبلک جیسی مذہبی ریاست میں 1926 میں 1400 خواتین نمائندگان منتخب ہوئیں۔ ترکمان ریپبلک میں یہ تعداد 170 سے 600 تک جاپہنچی۔ اورانسانی تاریخ میں عورتوں کی یہ شاندارحاصلات کامریڈ اسٹالن کے دور میں ہی ممکن ہو سکیں ۔
جہاں تک وومین بیورو کو ختم کرنے کا تعلق ہے تو محترمہ مہناز رحمن کا یہ جملہ ہی ایک اتہام ہے کہ “اسٹالن نے پارٹی کا ویمن بیورو بھی ختم کردیا”اس کی اصل حقیقت یہ ہے کہ وومن بیورو یا زینوتڈیل 1919 میں دو کامریڈز الیگزینڈرا کولنتائی اور اینیسا آرمنڈ نے پارٹی ہی کی ایما پر تشکیل دیا۔ اس کے اہم اور ضروری اہدافات بالشویک مزدور حکومت کی حمایت کو خواتین میں بڑھانا تھا اور خواتین میں ان کی آزادی کی بیداری تھی۔ اس ادارے نے کافی بہترین کام کیے۔ اسقاط حمل کو قانونی قرار دلوانے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس کے علاوہ خواتین کی تعلیم و ترقی سے متعلق شعور ابھارنے میں بھی زبردست پیش رفت دکھائی۔ 1930 میں اس ادارے کو کامریڈ اسٹالین نے نہیں بلکہ پارٹی نےختم کیا اور اس کی وجہ سمجھنے کے لیے بھی کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں ہے ۔ سادہ سی وجہ یہ تھی کہ اس نے اپنے اہدافات حاصل کرتے ہوئے آگے کی جانب پیشرفت کی۔ اور یوں اس کی جگہ کمیونسٹ پارٹی کے خواتین ونگز نے سنبھال لیں اور انھوں نے اس کام کو جاری و ساری رکھنے کی زمہ داری اٹھائی۔
سوویت یونین ایک مزدور ریاست تھی جس میں فیصلے پارٹی اور اس کے ادارےکرتے تھے نا کہ فرد واحد ۔اس لیے جب خواتین ونگز اتنی نظریاتی اور طاقتور ہوگئیں کہ وہ اس کا کام سنبھال سکیں تو وومن بیورو کو تحلیل کردیا گیا۔ اس میں سازشی تھیوری والی کوئی بات نہیں۔بلکہ ایک ادارے نےاپنے اہدافات مکمل کر لیے تھے جس کا سہرا بھی ان خواتین کامریڈز کے ساتھ ساتھ کمینوسٹ پارٹی اورکامریڈ اسٹالین سمیت ساری سوویت قیادت کو جاتا ہے ۔
اب بھی اگر بورژا ،پیٹی بورژوا لبرل فیمنسٹ خواتین و حضرات اگر سوویت یونین میں “وومن بیورو” کی تحلیل کو سوویت یونین میں خواتین کی ترقی پہ قدغن سے عبارت کرتے ہیں۔ تو جناب اوپر بیان کیے گئے اعداد وشمار سوویت یونین میں عورتوں کی شاندار حاصلات کی محض چند مثالیں ہیں اور یہ سوویت یونین اور کامریڈ اسٹالن کی کامیابیوں کی روشن دلیل ہے ۔ جبکہ سوویت یونین کے خاتمے اور سرمایہ دارروس کے قیام سے ان تمام حاصلات کو چھین لیا گیا اس کے لیے یہ ایک مثال ہی کافی ہے کہ سوویت یونین کے انہدام کے تین سال بعد حالت یہ ہو گئی کہ صرف رشین فیڈریشن میں ایک سال میں 14 ہزار عورتیں اپنے شوہروں کے ہاتھوں قتل ہوئیں ۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں