جدّی پُشتی نوکر۔۔آغر ندیم سحر

عاقب ستیانوی کا تعلق جھنگ سے ہے‘ان کی مشہور ترین نظم”جدی پشتی نوکر“کو سوشل میڈیا پر دو ملین سے زائد فالورز ملے۔یہ سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف ایک ایسا احتجاج تھا جسے ہر سنجیدہ قاری نے نہ صرف محسوس کیا بلکہ عاقب ستیانوی کو خراجِ تحسین پیش کیا۔

ایک سال ننکانہ صاحب میں ہونے والے مشاعرے میں جب ان سے ملاقات ہوئی تو میں نے اس نظم کا پسِ منظر بھی جاننے کی کوشش کی۔ان کا کہنا تھا کہ یہ نظم ہر اس معاشرے کے خلاف آوازِ انقلاب ہے جس میں کسی نہ کسی طرح سے سرمایہ دارانہ کلچر اور جاگیرداری نظام موجود ہے۔ ہر وہ چودھری اور ہر وہ کند ذہن سیاسی رہنما جس کا مقصد صرف یہی ہوتا ہے کہ نسلیں اس کی غلامی کریں‘ایسا چودھری اور سیاسی وڈیرا کبھی بھی معاشرے میں تعلیم اور شعورکے فرو غ کی بات نہیں کرتا کیونکہ اسے علم ہوتا ہے کہ اگر تعلیم اور شعور سے لوگوں میں زندگی گزارنے کا سلیقہ آ گیا تو ہماری غلامی اور ہماری نسلوں کی غلامی و چوکیداری کون کرے گا سو ایسے وڈیرے صرف اپنی ذات اور اپنی نسلوں کا سوچتے ہیں۔ان کے اپنے بچے تو  آکسفورڈ اور کیمبرج میں زیرِ تعلیم ہوتے ہیں لیکن غریب قوم کو محض سڑکوں‘برجوں اور موٹروے میں الجھائے رکھتے ہیں کیونکہ یہ تو محض غلامی کروانا جانتے ہیں۔میں نے یہ نظم اس سے قبل کئی دفعہ سنی تھی مگر جب گزشتہ روز انٹرویو ریکارڈ کرتے ہوئے عاقب ستیانوی کی زبانی یہ نظم پھرسنی اور اس کا پس منظر جانا تو نظم کا لطف دوبالا ہو گیا۔نظم کی سماعت کے دوران میری نظر اپنے پیارے پاکستان پر پڑی‘میری نظر ان تمام حکمرانوں پر پڑی جو پچھلے پانچ دہائیوں سے اس ملک پر حکومت کر رہے ہیں مگر کبھی بھی تعلیم ان کی پہلی ترجیح نہیں رہی۔انھوں نے کبھی بھی اس نسل کی ذہنی آبیاری نہیں کی بلکہ پوری پلاننگ کے ساتھ اس نسل کی ذہنی آزادی سلب کرنے کی کوشش کی گئی جس کا گواہ ہمارا تعلیمی اسٹرکچر ہے۔

ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہمیں پہلے دن سے ایسے حکمران میسر آئے جو نہ تو خود تعلیم یافتہ تھے اور نہ ہی ان کی سوچ کالج‘یونیورسٹی اور لائبریری تک پہنچی۔اگر کسی شہر میں تعلیمی ادارے بنائے بھی تو ان کو اپنے بچوں کے ناموں سے منسوب کر دیا۔ظلم کی انتہا دیکھیں کہ شعرا‘ادباء‘دانشوروں کے ناموں پہ سڑکوں اور برجوں کے نام رکھ دیے اور اپنے بچوں کے ناموں پہ تعلیمی ادارے بنا دیے وہ ادارے بھی اس اہل نہیں ہیں کہ کوئی ایسی نسل تیار کر سکیں جس سے ہم ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں جا کھڑے ہوں۔یہی وجہ ہے کہ آپ پچھلے تیس سالوں کا ہی جائزہ لیں کر دیکھ لیں اور خود فیصلہ کر لیں کہ ہم نے تعلیمی میدا ن میں کون کون سا ایسا کارنامہ سر انجام دیا جس سے ہم نے کوئی ایسی کھیپ تیار کی جو مغربی اذہان سے مقابلے کی طاقت رکھتی ہو۔ہم نے محض ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں اس ملک کی باگ دو دی جن کی زندگی کا ایک ہی مقصد رہا کہ ”اگر کھاؤ تو لگاؤ بھی“یعنی کھاتے جاؤ اور مخالفین کو کھلاتے جاؤ۔نہ کوئی آپ کے خلاف بولے اور نہ آپ کسی کے گریبان کو پکڑیں۔آپ عاقب ستیانوی کی نظم”جدی پشتی نوکر“ایک دفعہ ضرور سنیں اور ذہن میں پاکستانی حکومتوں کا نقشہ رکھیں‘آپ خود سمجھ جائی گے کہ جس چودھری کو اس نظم میں مخاطب کیا گیا وہ چودھری علامت ہے ہرایسے سیاسی ذہن کی جس نے ہمیں غلامی پر مجبور کیا یا جس کا بنیادی مقصد ایک غلام نسل تیار کرنا تھا۔

آپ ایک منٹ کے لیے سوچیں کیا آج اکیسویں صدی کے دوسرے عشرے میں بھی ہم”جدی پشتی نوکر“نہیں ہیں؟کیا ہم آج بھی غلام ابنِ غلام ابنِ غلام نہیں ہیں؟۔ہمارے ذہنوں میں یہ بات بٹھا دی گئی ہے کہ اس ملک میں چند ہی سیاسی خاندان ہیں ہمیں جن کی غلامی کرنی ہے سو ہمیں یہ کام پوری ایمانداری سے کرنا ہے اور ہم کر بھی رہے ہیں۔آپ دیکھ لیں آلِ شریف جس میں شریف برداران کے بعد ان کی اگلی نسل بالکل تیار کھڑی ہے اور اگر میں یہ کہوں تو بے جا نہ ہوگا کہ ان کی تیسری نسل بھی حکمرانی کے پر تول رہی ہے۔آپ آلِ  زردارو بھٹو کو دیکھ لیں‘ہم بھٹو کے بعد تیسری نسل کی غلامی کرنے میں مصروف ہیں اور یہ کام انتہائی فخر سے کر رہے ہیں۔ہمیں ایسا لگتا ہے کہ تیسری نسل تک بھی بھٹو صاحب موجود ہیں اور وہ ہمیں مکمل سہارا دیے ہوئے ہیں۔آپ کچھ دیر کے لیے عوامی نیشنل پارٹی اورجمعیت علمائے اسلام(ف) کو دیکھ لیں‘کیا ان کے بچے اسمبلیوں اور سیاسی جلسہ گاہوں تک نہیں پہنچے؟مزید آپ ہر پاکستانی سیاست دان کو دیکھ لیں‘وہ اپنے بعد اپنی اگلی نسل اور بچوں کو مکمل تربیت دے چکے ہیں کہ کیسے اسمبلی تک پہنچنا ہے اور کیسے لوگوں پر حکمرانی کرنی ہے سو یہ کام وہ پوری پلاننگ سے کر رہے ہیں۔

اس حوالے سے محض ایک ہی ایسی سیاسی جماعت ہے جس میں موروثی سیاست نہیں اور وہ جماعت اسلامی ہے۔اگر میں یہ کہوں تو بے جا نہ ہوگا کہ سیاسی حوالے سے سب سے منظم اور باشعور ورکر رکھنے والی اگر کوئی جماعت ہے تو وہ جماعت اسلامی ہے جس پر مجھے ہمیشہ خوشی ہوتی ہے۔افسوس تو یہ ہے کہ ایسی جماعت کو کبھی پاکستان میں موقع ہی نہ دیا گیا کہ وہ بھی اپنے تجربات سے کوئی بہتری لا سکیں۔میں اکثر کہتا ہوں کہ پاکستانی عوام اس ملک میں اسلامی نظام تو چاہتے ہیں مگر نہ جانے کیوں الیکشن میں کبھی کسی اسلامی جماعت پہ بھرسہ نہیں کیا‘یہ وجہ آج تک سمجھ نہیں آ سکی۔میں گزشتہ کئی روز سے”جدی پشتی نوکر“کے سحر میں گم ہوں اور میں مسلسل اس سیاسی وڈیرا کلچر کے بارے میں سوچ رہا ہوں کہ کیا عمران خان بھی ایسی غلطی کرے گا کہ وہ اپنی آنے والی نسلوں کو ہم پر مسلط کر دے اور اگر وہ ایسا کرے گا تو یقینا میری بطور صحافی اس کے بارے میں بھی یہی رائے ہوگی جو باقی سیاسی وڈیروں کے بارے میں ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

آج جب میرے دوست اس بات پر گھنٹوں بحث کرتے ہیں کہ ہمیں عمران خان کو گھر بھیجنا چاہیے تو میرا ان سے پہلا سوال یہی ہوتا ہے کہ”آپ کے پاس اگلا آپشن کیا ہے؟“جس پر وہ گہری سوچ میں گم ہو جاتے ہیں۔کچھ روز قبل ایک محبِ وطن نے تو کمال کر دیا کہ جب عمران خان کو ہٹا کر نیا آپشن پوچھا گیا تو انھوں نے بیک وقت”مریم و بلاول“کا نام لے دیا۔کیا یہ ہے ہماری سوچ کہ ہم سے ایک پڑھا لکھا آدمی برداشت نہیں ہو رہا۔یہ بالکل الگ بحث ہے کہ وہ سیاسی حوالے سے کوئی کامیاب آدمی ثابت نہیں ہو رہا مگر جب ہم پچھلے پانچ دہائیوں سے اس ملک کو چند خاندانوں کے رحم و کرم پر چھوڑے ہوئے ہیں تو کیا ہم ایک موقع اسے نہیں دے سکتے۔جہاں اتنے سال انتظار میں کٹ گئے‘چند اور سہی لیکن یقین کریں ہمیں اپنی ذہنی پسماندگی کے بارے فکر کرنی چاہیے کیونکہ جو قومیں غلامی کی قائل ہوں‘ان کی نسلیں بھی غلام ہی پیدا ہوتی ہیں۔بقول شاعر:
نابینا جنم لیتے ہیں اس قوم کے بچے
جو قوم دیا کرتی ہے تاوان میں آنکھیں!

Facebook Comments

آغر ندیم سحر
تعارف آغر ندیم سحر کا تعلق منڈی بہاءالدین سے ہے۔گزشتہ پندرہ سال سے شعبہ صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔آپ مختلف قومی اخبارات و جرائد میں مختلف عہدوں پر فائز رہے۔گزشتہ تین سال سے روزنامہ نئی بات کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہیں۔گورنمنٹ کینٹ کالج فار بوائز،لاہور کینٹ میں بطور استاد شعبہ اردو اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔اس سے قبل بھی کئی اہم ترین تعلیمی اداروں میں بطور استاد اہنی خدمات سرانجام دیتے رہے۔معروف علمی دانش گاہ اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم اے جبکہ گورنمنٹ کالج و یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم فل ادبیات کی ڈگری حاصل کی۔۔2012 میں آپ کا پہلا شعری مجموعہ لوح_ادراک شائع ہوا جبکہ 2013 میں ایک کہانیوں کا انتخاب چھپا۔2017 میں آپ کی مزاحمتی شاعری پر آسیہ جبیں نامی طالبہ نے یونیورسٹی آف لاہور نے ایم فل اردو کا تحقیقی مقالہ لکھا۔۔پندرہ قومی و بین الاقوامی اردو کانفرنسوں میں بطور مندوب شرکت کی اور اپنے تحقیق مقالہ جات پیش کیے۔ملک بھر کی ادبی تنظیموں کی طرف سے پچاس سے زائد علمی و ادبی ایوارڈز حاصل کیے۔2017 میں آپ کو"برین آف منڈی بہاؤالدین"کا ایوارڈ بھی دیا گیا جبکہ اس سے قبل 2012 میں آپ کو مضمون نگاری میں وزارتی ایوارڈ بھی دیا جا چکا ہے۔۔۔آپ مکالمہ کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہو گئے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply