پیشہ ور بھکاری/جمیل آصف

کچھ عرصہ قبل اپنے محلے کی مسجد میں نماز کی ادائیگی کی ۔ایک خوش لباس، حسین صورت اچھے سے تراشے بالوں اور شیو کے ساتھ بظاہر اچھے خاندان کا چشم و چراغ لگتا تھا ،بازو جلا ہوا تھا ،کہنے لگا،
“رکشہ چلاتا ہو ایکسیڈنٹ ہوا تھا جس میں کلائی سے کہنی تک بازو شدید مضروب ہے ۔
اس تکلیف کی بنا پر اب رکشہ بھی نہیں چلا سکتا اور علاج کے ساتھ گھر بھی چلانا اب مشکل تر ہو رہا ہے ۔ علاج سے تندرست ہوا تو پھر ان شا اللہ کام کاج کرنے کے قابل ہو گا کوئی بے شک میرے لیے کام کا بھی بندوبست کر دے نمبر دے کر ۔”
لوگوں نے خوب مدد کی ۔میں بھی ایک بار اس کی داد رسی کرنے لگا لیکن سابقہ تجربات کی بنا پر رک گیا اور اسے کہا کہ یہ نمبر ہے کچھ ہفتوں بعد رابطہ کرنا ۔
خیر مقررہ وقت کے بعد اس نے فون کیا ۔سلام دعا کی کہا
” پہچانا، عمر مسجد گلبرگ میں ملاقات ہوئی تھی ۔اپیل کی تھی اس وقت۔”
مجھے یاد آ گیا اور پوچھا کہ
” کیسی طبیعت ہے اب زخم کیسا ہے”؟ ۔
کہنے لگا
” الحمدللہ بہت اچھا ہو گیا ہے ۔”
میں نے کہا کہ
” ایوب کالونی میں پیکنگ کے لیے ایک فیکٹری میں جگہ ہے ٹھیکہ پر اچھی دہاڑی لگ جائے گی ۔بیٹھنے کا کام ہے ۔”
ایک دم کہنے لگا ۔کہ” ادویات گرم تھی ۔اس لیے زخم تو ٹھیک ہو گیا، مگر اب بواسیر ہے بیٹھ کر کام نہیں کرسکتا ۔”
میں نے کہا” پھر اب؟”
کہنے لگا کہ میں نے یہ سوچ کر فون کیا تھا کہ کچھ امداد کریں گے ۔
میں نے یہ سن کر فون بند کردیا ۔
دو ماہ بعد وہی فرد اسی بازو کی حالت میں اسی کہانی کے ساتھ صاف ستھرے لباس میں ایوب کالونی کی مسجد میں امداد مانگتا نظر آیا ۔
ہمارے ہاں جب کوئی امداد لینے والا یا دوسرے کے نام پر امداد اکٹھی  کرنے کے کام پر لگ جائے تو پھر اس کی نظر میں اس بھکاری شخص کی طرح کوئی اور محنت طلب، باعزت کام جچتا ہی نہیں ۔جو ہر وقت اپنے زخم کو ہرا بھرا رکھتا ہے تاکہ لوگ اسے دیکھیں اور ترس کھا کر اس کی جیب کو بھرتے رہیں ۔
پہلے یہ کام مساجد یا مارکیٹوں میں تھا لیکن اب سوشل میڈیا کے طفیل ہر شخص تک رسائی حاصل کر چکا ہے ۔بس آپ کی تحریر اور تصویر ایسی ہو جو کسی سخت دل کی روح بھی پگھلا دے ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply