اے عشق کہیں لے چل۔۔رؤف الحسن

ہمارا المیہ ہے کہ ہم دو انتہاؤں پر جی رہے ہیں۔ ان دو انتہاؤں کے بیچ میں نہ ختم ہونے والا فاصلہ ہے اور دونوں جانب سے اٹھتا ہوا شور۔ کوئی اس فاصلے کو پاٹنے کے لیے صدا بلند کرے بھی تو کیوں کر کرے؟
انتہاؤں پر جینے والوں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ منطق و دلیل کی بجائے جذبات کے زیر اثر ہوتے ہیں۔ آپ اٹھا کر دیکھ لیجیے۔ داڑھی والے آپ کو مذہب کے نام پر جذبات کی شاعری سنائیں گے تو لبرل جذبات کی رو میں آزادی کا گیت گائیں گے۔ سب کے اپنے اپنے نظریات ہیں، اور کوئی کسی کی بات سمجھنے کو تیار ہی نہیں۔ جو ذرا متوازن رائے رکھتے ہیں، وہ ان دو انتہاؤں والوں کے عتاب کے زیرِ اثر آتے ہیں۔ دونوں جانب سے مار دو، کاٹ دو، نکال دو کے نعرے ہیں اور دیکھتے ہوئے تماش بینوں کی آوازیں۔

جنسی درندوں کا ایک جنگل ہے جس میں سب ایک موقع کی تلاش میں ہیں۔ گلا پھاڑتے ناصحوں کا ہجوم ہے جو کفر کا فتویٰ لگانے کے انتظار میں ہیں۔ مادر پدر آزادی کے لیے نعرے لگاتے مغرب زدگان کا سیل رواں ہے جو کوئی بات سننے کو تیار ہی نہیں۔ سچ کی جگہ جھوٹ ہے۔ سکون کی جگہ اشتعال ہے۔ مسکراہٹوں کی جگہ گالیاں ہیں۔ برداشت کی جگہ لعن طعن ہے۔ جہاں فرد کو ہونا چاہئیے تھا وہاں ہجوم ہے، اور جہاں ہجوم ہونا چاہیے تھا وہاں سناٹا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

انسان بڑھ رہے ہیں، انسانیت ختم ہو رہی ہے۔ نظریات میں اضافہ ہو رہا ہے، عمل کم ہو رہا ہے۔ گھروں کی دیواریں قریب آ رہی ہیں، عداوتیں بڑھ رہی ہیں۔ فاصلے گھٹ رہے ہیں، منافقت زوروں پر ہے۔ نئی دنیا کی جستجو میں راہیں کھل رہی ہیں، منزل دور ہو رہی ہے۔ ایک گھٹن زدہ سا ماحول ہے جس میں سانس لینا بھی محال ہے اور بات کہنا بھی۔
کبھی کبھی خیال آتا ہے کیا اس سے بدتر زمانہ بھی کوئی ہو گا۔ کہیں ہم بدترین زمانے کے بدترین لوگ تو نہیں۔
اے عشق کہیں لے چل اس پاپ کی بستی سے
نفرت گہہ عالم سے لعنت گہہ ہستی سے
ان نفس پرستوں سے اس نفس پرستی سے
دور اور کہیں لے چل!
اے عشق کہیں لے چل!

Facebook Comments

Rauf Ul Hassan
I do not consider myself a writer. Instead, I am a player. As one of my friend s said: "You play with words. " He was right. I play, and play it beautifully.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply