عمران خان-ایک سوال۔۔جمیل آصف

حیرت انگیز طور پر مختلف میدانوں میں کامیاب افراد کی شخصیت، ان کے کام کے طریقہ کار اور بصیرت کو دیکھا جائے تو وہ ان کی ذاتی مردم شناسی اور کسی بھی کام کو کرنے کے دعوے کے بجائے ان کے عملی اقدامات اور درست منزل کا تعین ہے ۔
اس منزل کے حصول کے لیے بہترین زاد راہ، اچھے شریک سفر کا چناؤ اور اپنی ول پاور کا درست استعمال کرنے کا ہنر اسے آتا ہے
کاروبار کرنے والا فرد بھی مارکیٹ کی گہری آگاہی، غلط اور درست افراد کی تفریق کرنے میں مسلسل آگاہی کے حصول میں لگا رہتا ہے تاکہ اس کا سرمایہ ڈوبنے سے محفوظ ہو اور وہ مارکیٹ میں بہترین مقام حاصل کر سکے
اپنی مصنوعات کو متعارف کرنے میں اس کے معیار اچھے میٹیریل کی تلاش ہنر مند افرادی قوت کا چناؤ کرتا ہے پھر جا کر وہ مقابلے سے بھرپور مارکیٹ میں جگہ بنا پاتا ہے ۔
یہی کچھ میدان سیاست میں ہے ۔خان صاحب کے بلند و بانگ دعووں کے برعکس ایک سوال ہے کہ 5 سال میں ایک بزنس مین یا پروجیکٹ مینجر کسی بھی کاروبار یا پروجیکٹ کو کامیابی سے ہمکنار کر دیتا ہے.
کیا وہ 22 یا 26 سالہ جدوجہد میں ایک ایسا فرد ایک بھی ایسا فرد اپنی جماعت میں پالش نہیں کرسکے جو ان کی جدوجہد میں ستارے کی طرح چمکا ہو ۔۔کاروبار حکومت میں اس کی کارکردگی شاندار ہو دوران حکومت تمام چہرے مستعار تھے ۔ ہر مشکل میں غیر سیاسی لوگوں یا غیر مرئی قوتوں کی طرف دیکھا گیا ۔۔بولنے سے پہلے تولنے کے فن سے ناآشنائی نے پوری دنیا میں جگ ہنسائی کی ۔
جماعت اسلامی کے بعد سب زیادہ ڈگری یافتہ تعلیم یافتہ کم کارکن بھی کسی معاملے میں سوائے بدتمیزی بداخلاقی اور دوسروں کی عزت تاتار کرنے کوئی کارکردگی نہ دکھا سکے ۔
کسی بھی سیاسی جماعت کا لیڈر کا ایسا انجام اس ملک کی سیاسی تاریخ میں ایک قابل افسوس بات ہے اچھی لیڈر شپ کا فقدان اور معاشرے کو نفرت کی گہری ہوتی تفریق مذہبی فتویٰ جات اور غداری کی اسناد کو ذاتی مقاصد کے حصول کے استعمال میں عمران خان نے ملک میں وہی کچھ کیا جو مشرقی پاکستان میں ہوا ۔شکر اس بات کا ہے ریاستی اداروں نے ان کی حماقتوں سے چشم پوشی کے بجائے قانون اور آئین کی سربلندی پر توجہ دی ۔ملک کو مزید انارکی کی طرف دھکیلنے سے محفوظ رکھا.
بلاشبہ عمران خان کا دور سیاسی، معاشی اخلاقی انحطاط اور خارجہ امور پر ان کی کوتاہ بینی جذباتیت پر مبنی اقدامات کے طور پر یاد رکھا جائے گا

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply