بخشو اور رادھا کا ناچ۔۔سید مہدی بخاری

رادھا تب ناچتی ہے جب نو من تیل موجود ہو۔ کوئی وقت تھا جب سعودی رضا شاہ پہلوی شاہ ایران کے سامنے ناچتے تھے، پھر وہاں انقلاب آیا تو انہوں نے ایرانیوں کے سامنے ناچنا بند کردیا۔ اب رادھا امریکا کے آگے عریبیئن بیلی ڈانس پیش کرتی ہے۔ الباکستان میں بسنے والے ہر فرقے کے مومنوں کے لئے عجب دن ہیں۔ فرقہ پرستوں کو سمجھ نہیں آ رہی کہ اب کیا کرنا ہے؟

وہابیوں اور دیوبندیوں کے مرکز سعودیہ نے عرصہ دراز سے امریکا کے تلوے ڈنکے کی چوٹ پر چاٹنے شروع کر رکھے ہیں۔ پہلے یہ چھپ چھپا کے چاٹتے تھے۔ سعودیہ میں جو دیگ پکی ہے اس کے دانے مشرق وسطیٰ کی ایک ریاست کو چکھائے جا چکے ہیں۔ یہ وہی ریاست ہے جس کا نام لکھنے پر فیس بک بلاک بھی کر دیتا ہے۔ آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے؟ سعودیہ کے زیرِاثر عرب ریاستوں، متحدہ عرب امارات نے بھارت کی آؤ بھگت میں بھی کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔

شیعوں کے روحانی و ایمانی مرکز ایران نے بھارت کے بوٹ پالش کر کے چمکا دئیے ہیں۔ چاہ بہار اور بندر عباس میں بھارت کی بھاری سرمایہ کاری ہے۔ دوسری جانب ایرانی روس کے صدر پوٹن کے چمکتے ہوئے سر پر بھی کنگھی کر رہے ہیں۔ یاد رہے یہ وہی روس تھا جو گرم پانیوں کی تلاش میں ہمارے ساحلوں پر آنا چاہتا تھا اور جس کے خلاف افغانستان میں لڑنا مقدس جنگ تھی! (ہماری ساری نسلوں کو تو یہی نصاب پڑھایا گیا)رہ گئے بریلوی۔

چونکہ ان کی کسی ملک یا ریاست کے ساتھ نہ ایسی ہمدردی تھی نہ ا ن کی کہیں طاقت تھی، اس لئے ان کے واسطے آئے دن مزاروں و درباروں سے نکلنے والے عیاش گدی نشینوں کے قصے اور جعلی پیروں کی خبریں ہی وبال جان ہیں۔

الباکستانیوں کے لئے کڑا وقت ہے۔ ان کے ایمانی ٹھیکیدار ممالک بھارت، امریکا اور روس میں سے کسی نہ کسی کی گود میں جا بیٹھے ہیں۔ سب سے فائدہ مند بھارت رہا ہے، جس نے عرب امارات، سعودیہ کے ساتھ ساتھ ایرانیوں کو بھی اپنی زنبیل میں بھر رکھا ہے۔ بھارت کو آپ جو مرضی کہہ لیں مگر اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ وہاں کے سیاستدان اپنے ملک کے مفاد میں سوچتے اور فیصلے لیتے ہیں اور ان کی معیشت ہی ان کو خطے میں مقام دلواتی ہے۔

اس ساری صورتحال میں رسوا صرف مسلمان ہوئے ہیں۔ غیر مسلم ممالک ایک دوسرے کے جان کے در پے نہیں نہ ہی کسی غیر مسلم ملک کے اندر بسی عوام ایک دوجے کو بنام مذہب جان سے مار رہے ہیں (حالیہ یوکرائن روس جنگ کا پس منظر مذہبی بنیاد نہیں۔ علاقائی تسلط ہے)۔ اک دوجے کو فتویٰ کی ڈانگ دے کر قتل و غارت صرف مسلمانوں کے بیچ ہو رہی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

آپ کے ڈھکوسلے نعروں سے دنیا کا توازن نہ بگڑا ہے نہ بگڑے گا۔ آپ صرف مولوی کی عبا و عمامہ تھامے سڑکوں پر گلا پھاڑ کر ٹائر جلاتے رہیں اور اک دوجے کو فتویٰ کی ڈانگ پھیرتے رہیں۔ تمام مسلم دنیا اپنا مفاد سوچ کر آگے بڑھ چکی ہے اور ہم جن کی حیثیت عربوں و اہلیانِ فارس کے ہاں “بخشو” کی سی ہے وہ امہ کی ٹھیکیداری بھگتاتے جس حال میں پہنچ چکے ہیں وہ حال آپ کے سامنے ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply