مسئلہ یوتھیفرو/سجیل کاظمی

اخلاقیات کہاں سے آتی ہے اور انسان کہا سے سیکھتا ہے یہ بہت اہم سوال ہے زیادہ تر ہمیں بچپن سے یہی بتایا جاتا ہے کہ ہم تمام اخلاقیات مذہب سے سیکھتے ہیں اور جس چیز سے خدا روکتا ہے وہ غلط ہے اور جس چیز کا حکم دیتا ہے وہ درست ہے اور نیک عمل ہے۔ جس کو فلسفے کی زبان میں Divine Command Theory کہا جاتا ہے

ایسے بہت سے ملحدین اور سیکولر افراد کا اس بیان کی نفی کرتے ہیں اور ان کے مطابق وہ مذہب کے بغیر بھی ایک اچھے انسان بن سکتے ہیں لیکن یہ جو دلائل وہ دیتے ہیں وہ ان کی اپنی ذات سے یا تجربے سے متعلق ہوتی ہیں لیکن کیا خالصتا منطقی بنیاد پر یہ بات درست ہے کہ خدا اخلاقیات کا ماخذ ہے۔

یہ بات افلاطون کے ایک ڈائیلاگ میں زیربحث آتی ہے۔ ڈائیلاگ میں سقراط ایک شخص جس کا نام یوتھیفرو ہوتا ہے اس سے سوال کرتا ہے کہ اخلاقیات کہاں سے آتی ہیں اور ان کی نوعیت کیا ہے؟ جس کے جواب میں یوتھیفرو کہتا ہے کہ دیوتاؤں کی طرف سے جس چیز کو دیوتا پسند کریں۔ تو اس پر سقراط نے سوال کیا کہ کیا دیوتا کسی کام کو پسند کرتے ہیں اس لیے وہ کام اچھا ہے؟ یا وہ کام اچھا ہے اس لیے دیوتا اسے پسند کرتے ہیں؟

اب سقراط کا یہ سوال سننے میں بہت عام سے بات لگتا ہے مگر یہ سوال آج تک حل نہیں ہوسکا۔ کیوں؟ کیونکہ اگر یہ کہا جائے کہ خدا پسند کرتا ہے اس لیے وہ کام اچھا ہے تو اس طرح خدا اچھائی اور برائی کے کانسپٹ سے آزاد ہوجاتا ہے یعنی خدا جو کہہ دے وہ ٹھیک ہے تو پھر عقلی طور پر ہم کسی ایسی جگہ سے اخلاقیات کیسے لے سکتے ہیں جس کے اوپر اچھائی کا کانسپٹ لاگو ہی نہیں ہوتا، دوسرا اس بات سے یہ باتیں بھی بےمعنی ہوجاتی ہے کہ خدا رحمان رحیم ہے یا عادل ہے۔ چلیں اب سوال میں کی جانے والی دوسری بات دیکھتے ہیں کہ کوئی چیز اچھی ہوتی ہے اس لیے خدا اس کا حکم دیتا ہے تو پھر تو سقراط کا سوال وہی کا وہی ہے کہ اخلاقیات آتی کہاں سے آتی ہے؟ یعنی خدا کے حکم دینے سے پہلے چیز کیسے اچھی ہوتی ہیں؟

Advertisements
julia rana solicitors

مسئلہ یوتھیفرو Divine Command Theory اور اخلاقی معروضیت کے درمیان تناؤ کو نمایاں کرتا ہے۔ یہ سوال کرتا ہے کہ کیا اخلاقیات کی بنیاد صرف خدا کے احکامات پر ہے یا کوئی آزاد اخلاقی معیار ہے جو اس بات کا تعین کرتا ہے کہ کیا اچھا ہے یا برا۔ یہ مسئلے فلسفیوں کے درمیان بحث کا موضوع رہا ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply